فکر و عمل کی تعمیر وفلاح کے لئے واقعۂ کربلا کا پیغام دل نشیں

تاریخِ انسانی میں اہم واقعات کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ انھیں اگلی نسلوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ یادوں کے سہارے مستقبل کی تعمیر کی جاتی ہے۔ انھیں گلشنِ حیات میں ترو تازہ رکھنے کے لیے نسلاً بعد نسلٍ منتقل کیا جاتا ہے۔ وہ کیسی یادیں ہیں جو اَن مٹ بن جاتی ہیں؟ وہ کیسے واقعات ہیں جنھیں نہ تاریخ فراموش کرسکی؛ نہ مذہبی اقدار نے بھُلایا!ان کی حسی اہمیت اور دینی افادیت کو گردشِ دوراں بے نشاں نہ سکی۔واقعۂ کربلا ایسا ہی ہے۔ ہر عہد میں اس سے ملنے والے پیغام کی افادیت رہی ہے۔ ہر دور میں یہ درسِ عمل رہا ہے۔

امتحان ایک فطری ضرورت: حکمتِ الٰہیہ رہی ہے کہ منصبِ بلند کے حامل بڑے امتحانات سے گزرے۔ دورِ ابتلا وآزمائش میں ثابت قدمی وقار کی بلندی کا سبب ہوئی۔ یہی کچھ نواسۂ رسول؛ امام حسین وان کے رفقا کے ساتھ ہوا۔ ان کا امتحان اسلام کی حیاتِ تازہ کا باعث بنا۔ امتحان وآزمائش کی منازل سے سلامت گزرنے والوں نے ریگ زارِ کربلا میں جو تاریخ لکھی وہ اسلام کا نقشِ جمیل بن گئی۔نقوشِ ریگ لمحاتی ہوتے ہیں، دھیرے دھیرے معدوم ہو جاتے ہیں۔ لیکن کربلا کا نقش ایسا نمایاں ہے کہ گردشِ ایام و حوادثِ روزگار دُھندلا نہ سکے۔

خیالات کی بے راہ روی: مانی ہوئی بات ہے کہ زمانی حالات انسان کو مرعوب کر دیتے ہیں۔ آج جو فیصلے لیے جاتے ہیں ضروری نہیں کہ کل اسی کو قبول کیا جائے۔ فکر وخیالات میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں۔ ہوا و ہوس جب غالب آ جائے تو خیالات کی زمیں بنجر ہونا بعید نہیں۔یہی کچھ یزید کی بے راہ روی کا سبب بنا۔ یزید کے سامنے دو نظام تھے: [۱]اسلامی ماڈل [۲]آمرانہ ماڈل…… اسلامی ماڈل نظامِ قدرت کی پابندیوں سے آراستہ تھا، جس میں حقوق کی سلامتی یقینی اور خدائی قوانین کی اطاعت لازمی تھی۔ نشۂ اقتدار و بے راہ روی کے بطن سے نکلی سوچ اسلامی ماڈل کے قبول میں مانع رہی۔فرماں روائی کے سپنے ایسے بسے کہ آمرانہ ماڈل قبول کیا گیا۔ آمریت کی فکر قیصر وکسریٰ کے ظالمانہ طرزِ حکومت سے ملی تھی، اس بے راہ روی نے عقل وسوچ پر پردہ ڈال دیا۔ حق کی راہ بے جا خواہشات کی تکمیل میں رُکاوٹ تھی۔ پھر یہ کہ حسین اعظم سے دعویِ محبت اور دوسری طرف صحابہ کی مقدس جماعت سے بغض، افسوس یہ یہودی فکر کے شکار ہیں بقولِ رضاؔ ؂
یہودوں کی سیرت مجوسوں کی صورت
قصیر المحاسن طویل الشوارب
علی سے محبت، عمر سے عداوت
کہیں بھی ہوئے جمع نور و غواہب

شریعت پر استقامت:اسلامی قوانین حتمی ہیں۔ سائنسی کلیات بدلتے رہتے ہیں۔ عقلی نظریات میں تغیرات کا وقوع باعثِ تعجب نہیں۔ اسلام کے دینِ کامل ہونے کا واضح ثبوت اس کے قوانین کا تبدیلی سے مبرّا ہونا ہے۔یزید کے خلافِ شریعت محرکات کے سدِ باب کے لیے امام حسین و ان کے رفقاکی شہادت یقینی طور پر شریعتِ اسلامی کے لیے ’’دین پناہ‘‘ اور ’’رول ماڈل‘‘ ہے، جس سے شریعت پر کسی بھی دور میں ہونے والے حملوں کے تدارک میں واقعۂ کربلا درسِ عمل ہے، دینی اصولوں کی پاس داری کے لیے استقامت کا پیام ہے۔
استبداد کے خلاف عزم ویقیں: واقعاتِ کربلا نے ہر دور میں ظلم کے مقابل مظلوم کی حمایت کی ہے۔ ان سے جاں فروشی و قربانی کا عزمِ تازہ و حوصلۂ نو ملتا ہے۔واقعۂ کربلا یقینِ کامل کے ہزاروں چراغ طاقِ دل پر روشن کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یزیدیت کی صدیوں محنت کے بعد بھی حسینی سوچ وفکر ہی کامیاب ہے، اور شریعت کے اصولوں پر گامزن بھی۔ جب کہ تمام وہ اصول وپیمانے جو مفاد و مصلحت کے سانچے میں ڈھل کر سامنے آئے ان کا آخری نتیجہ زوال ہے۔ بڑی مملکتوں کا انجام دُنیا نے دیکھا ہے۔ آج جو سُپر پاورز ہیں کل انھیں زوال سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ نظریاتی تخریب کاری کے تمام ساماں، مادی تعیش کے تمام ذرائع اور جوروستم کے تمام حربے شہادتِ حسینی کے عزم ویقیں سے پُر درسِ عمل کے مقابل بالآخر ناکام ہوں گے ۔ استبداد کی کوکھ سے اُبھرنے والا نظام ممکن العمل نہیں ہے۔ وہی نظام لایقِ عمل ہے جس میں حفظِ شریعت اور افکارِ اسلامی کی بقا وسا لمیت ملحوظ ہو۔

مصالحت یا حق پسندی: امام حسین کا یزید کی اطاعت سے انکار مضبوط بنیادوں پر تھا۔ یزید کی حمایت ظلم کی تائید تھی۔ یزید کی تائید خلافِ شریعت معاملات میں یزیدی فکر کے لیے عزم وحوصلہ کا سبب بنتی۔ مانی ہوئی بات ہے کہ امام حسین نے یزید کی مخالفت سے حق پسندی کا اصولی ضابطہ دُنیا کو عطا کیا۔ شریعت کے مقابل اُٹھنے والے تمام اقدامات کی حوصل شکنی کی۔یہی اصل فائدہ ہے تعلیماتِ حسینی پر عمل کا۔

دعویٰ دلیل چاہتا ہے: یزیدی عمل سے نفرت کے اظہار کے لیے حسینی ماڈل اپناناہر دور کی ضرورت ہے۔ شریعت کے قوانین کی بالادستی جب تک رہی؛ یزیدیت خائف وپریشاں رہی۔ حسینی بننا ہے تو حق کی عادت ڈالو۔ حسینیت نام ہے صدقِ ایفائے عہد کا۔ حسینیت نام ہے غیر شرعی نظام کے مقابل حفظِ شریعت کا۔ آج یزیدی افعال واعمال کو جواز کی پوشاک پہنائی جارہی ہے۔ زمانی تقاضے کے نام پر مسلمہ مسائلِ اسلامی میں الحاق کی جراء ت یقینا یزیدی فکر و خیال کی تائید ہے، اس کا مرتکب لاکھ حسینی کہلوائے حقیقتاً وہ نفس وطبیعت کا غلام ہے۔ شہرت و طمع و لالچ میں یزیدیت کو عملی شکلوں میں اپنانے کی مہم خطرناک ہے۔ اس پر قدغن لگانا چاہیے۔ بہر کیف! حسینی مشن پر استقامت ودوام ضروری ہے اور ساتھ ہی تقاضاے محبت وعقیدت یہ ہے کہ شرعی معاملات میں اسلامی اصولوں کو ترجیح دیں اور یہی ہمارے لیے ممکن العمل بھی ہے اور دعویِ محبت کا ثبوت بھی۔

احکام خداوندی کی تعمیل: حسین اعظم رضی اﷲ عنہ اور ان کے رفقا نے اطاعتِ خداوندی و فرامینِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پر عمل آوری کا عملی نمونہ دُنیا کے رُو برو پیش کیا۔ نماز دونوں طرف تھی، ایک سمت رسماً تھی دوسری سمت مکمل اطاعت کے ساتھ تھی۔ اہلِ وفا کی نماز ’’نمازِ عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں‘‘ کا مظہر تھی۔ دوسری طرف بے روح نماز تھی جس میں نماز کا حکم فرمانے والا آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی آلِ پاک سے نفرت تھی۔کربلا کا میداں نمازِ حسینی سے احکامِ خداوندی کی تعمیل کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ درسِ عمل ہے کہ حاملانِ محبتِ حسینی ہر حال میں نمازوں کے پابند رہیں۔

حقوق کی پاس داری: حقوق کی پامالی سے ہی دہشت گردی کا جنم ہوتا ہے۔ جس کا جو حق ہے وہ ادا کرنا اسلامی اطاعت شعاری کا نمایاں پہلو ہے۔ آج حقوق کی پامالی عام سی بات ہو گئی ہے، اقارب کی حق تلفی، اعزا کی حق تلفی، درس گاہوں میں طلبا کی حق تلفی، ورثا کی حق تلفی، مال ودولت کی طمع نے بھائی بہنوں میں حق تلفی کو رواج دیا،آج ہم حقوق کی ادائیگی میں چشم پوشی کرتے ہیں۔ حسین اعظم سے محبت کا تقاضا حقوق کی ادائیگی ہے، شریعتِ اسلامی کے حقوق کے تحفظ کی خاطر عظیم نواسے نے دینِ مصطفوی کو بچایا اور ہم شریعتِ مطہرہ کے مقرر کردہ حقوق سے کوتاہی کرتے ہیں! افسوس! کوتاہی ہماری اور پھر یہ شکوہ کہ مال میں برکت و خیر نہیں، رزق میں فراوانی نہیں، پریشاں حالی ہے، کاروبار زوال پذیر ہے۔ اسباب کے تدارک کے بجائے مفلوک الحالی کا رونا رونا دانش مندی نہیں۔ اب بھی وقت موجود ہے۔ جس کا جو حق ہے اسے ادا کیجیے۔ فکروخیال کا قبلہ درست کیجیے۔ محبتوں کے تقاضے سمجھیے۔ نفرتوں کے غبار سے نکلیے۔ محبتوں کے شناور بن جائیے۔ دل بڑا کیجیے۔ روٹھوں کو منائیے۔ تعلیماتِ حسین اعظم کے علم بردار بن کر بڑھیے۔ یزیدی ظلم کے مقابل مظلوموں کے سچے ہم درد بنیے۔ حق تلفی کے مقابل اخلاقِ صالح کی تلوار بن جائیے۔ یاد رکھیے! تعلیماتِ حسینِ اعظم کے حامل کیکر، تھوہڑ اور ببول کی کاشت نہیں کرتے؛ بلکہ گل ولالہ اور سوسن ویاسمن بویا کرتے ہیں جس سے گلستانِ حیات مہک مہک اُٹھتا ہے۔ آپ بھی خوش بوؤں کی بادِ صبا بن جائیے جس سے گلشنِ حیات مہک اُٹھے گا اور تعلیماتِ حسینی سے انسانیت کی فصل ہری بھری ہوجائے گی۔ ؂
یہ طوطی کے نغمے عنادل کے لہجے
نہیں نعرۂ ضیغمی کے مناسب
٭٭٭

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281472 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.