بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
شہیدِبلا‘شاہِ گلگوں قبا
سیدناامام حسین رضی ااﷲ تعالیٰ عنہ
ڈاکٹراقبال احمد اختر القادری
خ
شہیدِبلا‘شاہِ گلگوں قبا‘نواسہء رسول(ﷺ)‘ جگر گوشہء بتول‘ ابن علی حیدر
کرار سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی حیات مبارکہ ولادت سے شہادت تک
فضائل ومناقب کا ایک ایساروشن باب ہے جس کی عظمت واہمیت ہر دور میں بڑھتی
رہے گی…… ان کا مبارک ذکر عالم اسلام کے لیے باعث سکون و طمانیت ہے،چنانچہ
ابن ابی شیبہ نے طبرانی میں یہ حدیث شریف نقل کی کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
’’آسمان والوں کا سکون ستارے ہیں اور میری اُمت کا سکون میرے اہل بیت
ہیں‘‘۔
ہے احترامِ آلِ نبی دین کی اساس
ایمان کا ہے جزو محبت حسین کی
حضو ر سرکار دو عالم ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت
اُم الفضل بنت الحارث رضی اﷲ عنہا ایک روز حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوئیں اور عرض کیا کہ:
یارسول اﷲ ! آج میں نے ایک ایسا خواب دیکھا ہے جس سے میں ڈرگئی ہوں ۔
آپ ﷺ نے فرمایا‘……تم نے کیا دیکھا ہے ؟
انہوں نے عرض کیا ‘…… وہ بہت سخت ہے ، جس کے بیان کی جرأت نہیں ہو پاتی ۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا‘…… بیان تو کرو!
حضو ر سرکار دو عالم ﷺ کے فرمانے پر انہوں نے ہمت کر کے عرض کیا‘…… میں نے
خواب میں یہ دیکھا ہے کہ حضور کے جسم مبار ک کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود
میں رکھ دیا گیا ہے۔
یہ سن کر سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا‘ تمہارا خواب تو بہت مبارک ہے ، ان شاء
اﷲ میری بیٹی فاطمہ کے ہاں بیٹا ہوگا اور وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا……
چنانچہ ایسا ہی ہوا، حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ پیدا ہوئے اور حضرت اُم
الفضل رضی اﷲ عنہا کی گود میں دیے گئے ۔
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی بھی شہرت
عام ہو گئی تھی…… چنانچہ حضرت ام ا لفضل بنت حارث رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں
کہ:
’’ میں نے ایک روز حضورنبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت حسین کو آپ
کی گود مبارک میں دیا تو کیا دیکھتی ہوں کہ حضور اکرم ﷺ کی چشمان مبارک سے
لگا تا ر آنسوں بہہ رہے ہیں…… میں نے عرض کیا ، یارسول اﷲ ! میرے ماں باپ
آپ پر قربان‘ یہ کیامعاملہ ہے ؟ توحضور اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے پاس
جبرائیل آئے اور یہ خبر دی کہ میری اُمت میرے اس فرزند کو شہید کردے گی……
میں نے حیرت سے عرض کیا ، یارسول اﷲ ! کیا اس فرزند کو شہید کردے گی ؟ حضور
اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اور فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس اس کی شہادت گاہ
کی سرخ مٹی بھی لائے ‘‘۔
حدیث شریف میں ہے ،حضور اکرم سرور کائنات ﷺ نے فرمایا :
’’ حضرت ہارون نے اپنے بیٹوں کا نام’’ شبر‘‘ و’’ شبیر‘‘ رکھا اور میں نے
اپنے بیٹوں کا نام ان ہی کے نام پر’’ حسن‘‘ اور’’ حسین‘‘ رکھا ‘‘۔
اسی لیے تاریخ میں حسنین کریمین کو شبروشبیر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا
ہے…… اگر ہم لغات میں دیکھیں توسریانی زبان میں شبرو شبیر اور عربی زبان
میں حسن وحسین دونوں کے معنی ایک ہی ملتے ہیں۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضو ر سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ:
’’حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں‘‘۔
عربوں کے زمانہء جاہلیت میں یہ دونوں نام کسی کے نہیں رکھے گئے …… روایات
میں آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ نام مخفی رکھے ، یہان تک کہ حضور اکرم ﷺ نے
اپنے نواسوں کا نام’’ حسن‘‘ اور’’ حسین‘‘ رکھا ۔
تر مذی شریف کی معروف حدیث شریف جو حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت
ہے کہ حضو ر سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا :
’’ حسین ‘ مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘‘۔
یعنی امام حسین رضی اﷲ عنہ کو حضوراکرم ﷺ سے اور حضوراکرم ﷺ کو امام حسین
رضی اﷲ عنہ سے انتہائی قرب ہے ، گویا امام حسین رضی اﷲ عنہ کا ذکر حضوراکرم
ﷺ کا ذکر ہے اور امام حسین رضی اﷲ عنہ سے محبت دراصل حضور اکرم ﷺ سے محبت
ہے…… مشکوٰۃ شریف میں حضو راکرم سرکار دو عالم ﷺ کا یہ ارشاد ملتا ہے‘
فرماتے ہیں :
’’ جس نے حسین سے محبت کی ، اس نے اﷲ تعالیٰ سے محبت کی ‘‘ ۔
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے کہ یہ اس لیے ہے کہ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے
محبت کرنا‘ حضوراکرم ﷺ سے محبت کرنا ہے اور حضوراکرم ﷺ سے محبت کرنا‘ اﷲ
تعالیٰ سے محبت کرنا ہے ۔
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا:
’’ جسے پسند ہو کہ جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو وہ حسین ابن علی کو
دیکھ لے‘‘ ۔
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ ایک دن کعبۃاﷲ کے سائے میں تشریف فرماتھے کہ
اتنے میں حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ تشریف لائے‘ انہوں نے حضرت امام حسین
رضی اﷲ عنہ کو تشریف لاتے دیکھا تو فرمایا:
’’آج یہ آسمان والوں کے نزدیک تمام زمین والوں سے زیادہ محبوب ہیں‘‘ ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فر ماتے ہیں کہ:ؒ
’’ ایک روز رسول اﷲ ﷺ مسجدشریف میں تشریف لائے اور فرمایا ‘ چھوٹا بچہ کہاں
ہے ؟ توحضرت حسین دوڑتے ہوئے آئے اور حضوراکرم ﷺ کی گود میں بیٹھ گئے اور
پھر اپنی اُنگلیاں سرکار دو عالم ﷺ کی داڑھی مبارک میں داخل کرتے رہے۔
حضوراکرم ﷺ نے فرط مسرت سے ان کا بوسہ لیا ، پھر فرمایا : ’’ اے اﷲ ! میں
اس سے محبت کرتا ہوں‘ تو بھی اس سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرماکہ جو
اس سے محبت کرے‘‘۔
شبیر کون‘ راکبِ دوشِ رسول پاک
ظاہر تھی نانا جان پہ عظمت حسین کی
حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’ حسن اور حسین جنتی جوا نوں کے سردارہیں ‘‘۔
حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’ حسن اور حسین دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ‘‘۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ جنگ صفین کے موقع پر مقام کربلا سے گزررہے تھے کہ وہاں
ٹھہر گئے اور اس کا نام دریافت فرمایا …… لو گوں نے بتایا کہ اس جگہ کا نام
کر بلا ہے ۔ کربلا کا نام سنتے ہی حضرت علی رضی اﷲ عنہ اس قدر روئے کہ زمین
آنسوؤں سے تر ہو گئی ، پھر فرمایا ‘ میں ایک روز سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت
میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ رورہے ہیں ، میں نے عرض کیا ،یارسول اﷲ ! آپ
کیوں رورہے ہیں ؟ فرمایا ‘ ابھی میرے پاس جبرائیل آئے تھے اور انہوں نے یہ
خبر دی کہ میرا بیٹا حسین دریائے فرات کے کنارے اس جگہ شہید کیا جائے گا،
جسے کر بلا کہتے ہیں۔
اُس شہیدِ بلا شاہِ گلگوں قبا
بیکس دشتِ غربت پہ لاکھوں سلام
دُرِ دُرِج نجف مہرِ بُرجِ شرف
رنگِ رومی شہادت پہ لاکھوں سلام
|