" انسانی مستقبل کی تعمیر مادی وصایؑل سے ممکن نہیں ہے ”
اگر مادی وسایؑل انسان کے مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہوتے تو
فرعون ، شدّاد و نمرود کبھی ماضی کا حصہ نہ بنتے "
کہ وہ سب مادی عناصر کی زد میں رہ گےؑ تھے اگر ماادی عناصر و عوامل مستقبل
بنانے میں کہیں بھی کارگر ہوتے تو وہ ماضی نہ بنتے۔ آسان الفاظ میں یوں
کہیں کہ ،
" صرف مادی عناصر وعوامل انسان کے مستقبل کی ضمانت نہیں بن سکتے "
جیسے جتنے بڑے چھوٹے بادشاہ گزرے فرعون ، نمرود ، شداد سب ماضی بن چکے اور
جو مادی عوامل سے الگ رہے وہ آدم و موسیٰ ، نوح ابراہیم کبھی ماضی نہیں بنے
ہیں۔
" انسان کی رشن اور تابناک انسانی مستقبل کی بنیاد جوہر ایمان پر ہے"
جیسے اس مادی دنیا میں جو بھی عمارت بنتی ہے وہ اس زمین پر بنتی ہے چاہے وہ
شیشے ہی کی کیوں نہ ہو،
دنیاوی عمارت کا ڈھانچہ نیچھے سے اوپر تک جانا چھاہےؑ پھر اس میں انٹیں یا
ریت بجری سب ڈالی جاےؑ گی بلکل اسی طرح
(ایمان پر سوچنے کے لےؑ تعصب کی عینک کا اتارنا بہت ضروری ہے پھر سمجھ میں
یہ بات آ سکتی ہے)
" ایمان ہی مستقبل کی زمین کی حیثیت حاصل ہے "
ایمان ٹھیک ہو تو پھر "عزم " چاہےؑ جو ایک سرے سے آخیر تک باقی رہنا ہے (
یہ عزم کن چیزوں کو جوڑ کر ایمان کی عمارت تعمیر کرتا ہے )
اور پھر " اقدار "
اقدارمیں مختلف قدریں ہیں جن میں ایک بہت بڑی قدر ہے جسے
" قدر وفا " کہتے ہیں
اب وفا کی تعریف کیا ہے ؟
وفا کی یہ تعریف شاید کسی کتاب میں ابھی نہیں ہو گی کہ
( کہ انسان اپنے ایمان اور علم کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے تو وفا ہے اور
اگر ایمان و علم کے مطابق عمل نہ کرے تو بے وفایؑ )
یہ بات واضع بھی ہے اور گہری بھی لیکن انسانی کوشش اس تک پہچ سکتی ہے واضع
اس لےؑ ہے کہ یہ سب صفتیں وجودی صفتیں ہیں
ایمان ، علم اور وفا یہ سب وجودی صفتیں ہیں اور وجود تعریف کا محتاج نہیں
ہے
تعریف اس لےؑ کی جاتی ہے کہ کچھ معلوم کیا جاےؑ اور معلوم والا ہی تعریف
کرے گا تو تعریف ٹھہرے گی لیکن معلوم والے کا معروف ہونا بھی ضروری ہے مطلب
جو تعریف کر رہا ہے وہ خوف معروف ہوگا تو جس کی تعریف کر رہا ہے اس کی
پہچان کروا پاےؑ گا ، اگر کویؑ خود ہی معروف نہیں ہوگا تو اس کی بات کویؑ
تسلیم نہیں کرے گا۔ فرض کیجےؑ مجھے کویؑ نہیں جانتا تو میری کویؑ پہچان
کروانا چاہتا ہے تو اس کی معروفیت ، مشہوری زیادہ ہونی چاہےؑ ورنہ مجھے
کویؑ کیسے پہچانے گا،
اس پوری کایؑنات میں وجود سے زیادہ معروف کویؑ چیز نہیں ہے ، جس کی تعریف
ممکن نہیں ہے اور
معلوم اس طرح ہے کہ اس بات پر سب فلاسفر متفق ہیں کہ موجود کو
ہے ، ہو ، یا ہونا سے تعبیر کرتے ہیں
موجود کے معانی سب سمجھتے ہیں کویؑ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ہو اس لےؑ موجود
کی حقیقت اتنی زیادہ روشن اور واضع ہے کہ فلاسفراسی پر متفق ہیں وجود ہی کی
صفت موجود ہے اور وجود میں علم موجود ہے
فلاں چیز موجود ہے
آپ موجود ہیں ووغیرہ
اگر ان میں سے موجود کو حذ ف کر دیا جاےؑ تو بھی یہ مکمل ہے تو موجود اس
میں خود بخود بولے بنا بھی نظر آ رہا ہے۔
اس لےؑ یہ موجود ایک بہت بڑی صفت ہے
" علم تک پہنچنا آج تک نا مکمل ہے اس لےؑ کہ یہ موجود صفت ہے "
اگر کویؑ سوچتا ہے کہ مادی چیزوں سے کیسے چھٹکارا پا سکتے ہیں ، مکاں و
زماں سے کیسے بے نیاز ہو سکتے ہیں مادی دنیا سے کیسے نکل سکتے ہیں جہان
مادی سے کیسے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں ، جو ایسے سوچتے ہیں وہ مستقبل نہیں
بنا سکتے۔
لیکن ایسے بھی ہیں جو حقایؑق ایمان کو سمجھتے ہیں تو وہ اس کو سمجھ سکتے
ہیں اس سے نکل سکتے ہیں ،
جہان مادی سے جہان معانی تک پرواز کرتے ہیں
اور ہر لفظ کے معانی ڈکشنری اور کتابوں میں نہیں ملتا جی ہاں ہر لفظ کے
معانی تو اپنے جہاں معانی میں ملتا ہے ۔
اب آیؑں علم کی طرف تو علم کے معانی کسی ڈکشنری میں نہیں مل سکتے آپ زات
پاک محمد ﷺ و علی علیہ السلام
تک پہنچ جایؑں تو علم کے معانی مل جایؑں گے ۔
قرآن مجید میں بہت ساری عبادتوں کا حکم دیا گیا ہے کہ تم یہ کرو،
لیکن ایک عبادت ایسی بھی ہے جس کا فرمایا گیا ہے اللہ اور فرشتے بھی کرتے
ہیں تم بھی کرو، تو کونسی عبادت افضل ٹھہری یہ کویؑ بتانے والی بات نہیں
رہی لہذا ثابت ہوا کہ یہ عبادت سب عبادتوں سے افضل ہے اور الحمد کہیں کہ جس
کی وجہ سے یہ ہر چیز ہم تک پہنچی ورنہ ہم کہاں ہوتے یہ آپ خود جان لیں کہ
ہمارا مستقبل کیا ہوتا؟
اور اس کو کبھی بھی نہ بھولیں کہ جس نے انسانیت کے مستقبل کی خاظر
اپنا گھر لٹا دیا تھا اس عظیم ہستی کا احسان عظیم تر ہے
کھربوں عظیم سلام اس نہایت عظیم ہستی پر اس کی پوری اولاد پر اور الحمدللہ
۔۔۔۔۔۔!
الحمد کے کتنے معانی ہیں
ثنا ہے ستایؑش ہے شکر ہے
ان سب کے الگ معانی بھی ہیں جو سب اس الحمد میں سماےؑ ہوےؑ ہیں
الحمد للہ میں صدقے میں قربان اس حسین ابن علی علیہ السلام کے جو قتل ہونے
کے بعد آج بھی ہدایؑت کے راستے استوار کرتے ہی جاتے ہیں !!! |