محرم الحرام کے حوالے سے تاریخِ اسلام کے دو اہم ترین
واقعات ہیں ۔ یکم محرم الحرام کو خلیفہ دوم امیر المؤمنین سید نا عمر بن
خطاب رضیٰ اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔اسلام کے لیے سید نا عمر بن
خطاب رضیٰ اللہ عنہ کی خدمات تاریخِ اسلام میں سنہرے حروف سے درج ہیں۔ آپ
کا شمار سابقین اولین (ابتدائے اسلام میں اسلام لانے والے) میں ہوتا ہے۔ اس
کے علاوہ عشرۂ مبشرہؒ (جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی) میں داخل
ہیں۔ سید نا عمر بن خطاب رضیٰ اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی 539احادیث مروی
ہیں۔ آپ کے دور خلافت میں اسلامی فتوحات 22لاکھ مربع میل کے رقبے تک پھیل
گئی تھیں۔مجوسی غلام ابو لو لو فیروز نے نماز فجر میں مسجد بنوی میں آپ پر
خنجر سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔
تاریخ اسلام میں امر ہو جانے والا محرم الحرام کا دوسرا اہم ترین واقعہ
10محر الحرام کوپیش ہونے والا واقعہ کربلا اور رسول اکرم حضرت محمد ﷺ کے
نواسے حضرت امام حسینؓ اور اہل بیت کی شہادت ہے۔ واقعہ کربلا رہتی دنیا تک
ہر مسلمان کے دل میں زندہ رہے گا۔جامعہ ترمذی کی حدیث ہے رسول اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا ’’اللہ تمہیں جو نعمتیں کھلاتا ہے ، ان کی وجہ سے اللہ سے
محبت کرو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ
سے میرے اہل بیتؓ سے محبت کرو‘‘، مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا ’’حسنؓ اور حسینؓ ‘‘ دنیا میں میرے دو پھول ہیں‘‘۔ ترمذی اور
ابن ماجہ کی حدیث ہے جس کے راوی ابو سعیدؓ ہیں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’حسن
اور حسین ‘‘ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘۔ نواسہ رسول، حضرت علیؓ اور
فاطمہ الزہرہؓ کے لخت جگر حضرت حسینؓ 3 شعبا ن4ھ، مطابق8 جنوری 626 ء کو
مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔رسول اکرم ﷺ نے نو مولود کے کانوں میں اذان دی
اور آپؓ کے منہ میں اپنا لعاب دہن داخل فرمایااور آپ کا نام نامی حسین
رکھا۔ مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جب حسنؓ اور
حسینؓ پیداہوئے تو اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے مجھے بلا کر فرمایا ، مجھے
ان کے نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا
رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں ، پس آپﷺ نے ان کے نام حسنؓ اور حسینؓ رکھے‘‘۔حضرت
علیؓ نے حضرت حسینؓ کا نام ’’حرب‘‘ تجویز فرمایا تھا۔ آپ کی کنیت ابو عبد
اللہ تھی۔ ترمذی شریف کی اس حدیث مبارکہ کو کون بھول سکتا ہے جس میں آپ ﷺ
نے فرمایا کہ ’حسین مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘۔آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا
کہ راوی حضرت سلمان فارسی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’میں نے
ان دونوں یعنی حسنؓ اور حسینؓ کے نام ہارون علیہ السلام کے بیٹوں شبر اور
شبیر کے نام پر رکھے ہیں‘۔آپ ﷺ اپنے دونوں نواسوں سے بے انتہا محبت فرماتے
، سینہ پر بیٹھاتے، کاندھوں پر چڑھاتے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے کہ ان
سے محبت رکھو۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے دیکھا کہ رسول
اللہﷺ نے حضرت حسینؓ کو اپنی پشت مبارک پر سوار کر دکھا ہے اور آپﷺ گھٹنوں
کے بل چل رہے ہیں۔ جب میں نے یہ شان دیکھی تو عرض کیا ’اے ابو عبد اللہ آپ
نے سواری تو بڑی اچھی پائی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اے عمرؓ سوار بھی
تو بہت اچھا ہے‘‘۔نانا کو اپنے نواسہ سے بے انتہا محبت تھی تو نواسہ نے بھی
وقت آنے پر کربلا کے میدان میں اپنی ، اپنے خاندان اور اپنے ساتھیوں کی
قربانی دے کر اپنے نانا کی محبت کا حق ادا کردیا ۔ حق و انصاف کے لیے ،
اسلام کے لیے قربانی ایسی مثال قائم کی جس مثال نہیں ملتی، کربالا کی
قربانی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
رسول اکرم ﷺ اپنے نواسہ حضرت حسینؓ سے بے پناہ محبت اور شفقت فرماتے۔ حضرت
حسینؓ نہ صرف صورت مبارکہ بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی اپنے نانا حضرت محمد ﷺ
کے شبیہ تھے۔ آپ حضرت حسینؓسات سال کے قریب اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کے سایہ
عاطفت میں پرورش پائی۔اپنے چھوٹے نواسے حسینؓ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ
اگر آپﷺ سجدہ میں ہوے اور نواسہ رسول اپنے نانا کی پشت پر آگئے تو آپﷺ نے
سجدہ کو طول دے دیا یہاں تک کہ حسین اپنی خوشی سے آپ ﷺ کی پشت سے از خود
اتر نہ گئے۔ یہی نہیں اگر آپ مسجد کے منبر پر خطبہ پڑھ رہے ہوتے اور اور
ننھے حسین دروازہ سے داخل ہوتے ہوئے گرجاتے تو آپ ﷺ اپنا خطبہ قطع کر دیا
کرتے اور نیچے آکر اپنے نواسہ کو اٹھا لیا کرتے ، پھر دوبارہ منبر پر تشریف
لے جایا کرتے۔ آپ ﷺ لوگوں کو متنبہ کیا کرتے کہ دیکھو یہ حسین ہے اس کی
فضیلت کو یاد رکھو آپ نے خاص طور پر کہا کہ دیکھو ’’حسین مجھ سے اور میں
حسین سے ہوں‘‘۔امام حسینؓ نیک ، صالحے، عبادت گزارم متقی ، ہمدرد، فیاض ،
مہمان نواز تھے۔ عبادت گزار متقی ،صوم و صلاۃ کے پابند، خانہ کعبہ سے عشق
کا یہ عالم کہ بار بار عمرہ اور حج کرنے مدینہ سے پیدل مکہ تشریف لاتے۔ سید
قاسم محمود نے شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ آپ کا پورا
وقت عبادت اور خدمتِ خلق میں بسر ہوتا۔ بڑے فیاض اور مخیر تھے ۔ بیس حج
پیادہ پا کئے‘۔
امام حسینؓ ابھی چھ برس کے تھے کہ ان کے نانا اور امت مسلمہ کے رہبر و
رہنما حضرت محمد ﷺ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ امام حسینؓ نے اپنا بقیہ بچپن،
لڑکپن اور جوانی کے پچیس برس اپنے والد محترم حضرت علیؓ کے زیر سایہ گزارے۔
جب امام حسین کی عمر 31برس کی ہوئی تو ان کے والد حضرت علیؓ ابن ابی طالب
اسلام کے چوتھے خلیفہ مقرر ہوئے۔ امام حسین اپنی عمر کی بھر پور جوانی میں
تھے آپ حضرت علی ابن ابی طالب کے ساتھ ہر ہر مرحلے پر ہمت اور بہادری سے
شامل رہے۔ 19رمضان 40ھ (660ء) کی صبح عین حالت نماز میں زہر میں بجھی ہوئی
تلوار سے حضرت علیؓ کو زخمی کر دیا اور آپ نے 21رمضان المبارک کو شہادت کے
مرتبے پرفائز ہوئے۔ آپ کی تاریخ شہادت کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی
ہیں لیکن اس بات پر تمام ہی مورخین متفق ہیں کہ خارجی عبدالرحمٰن بن ملجم
جو مصری تھا نے رمضان المبارک کے تیسرے ہفتے کی کسی تاریخ کو حضرت علیؓ پر
زہر سے بجھی تلوار سے ایسا وار کیا کہ آپ جان بر نہ ہوسکے۔ بشیر ساجد نے
اپنی کتاب’ فاتح خیبر حضرت علی رضی اﷲ عنہ ‘میں مختلف مورخین کے حوالے سے
آپ کی شہادت کی جو تاریخیں درج کی ہیں ان کے مطابق محمد ابن سعد نے واقدی
کے حوالے سے حضرت امام حسنؓ کی زبانی 17 رمضان بروز جمعہ40ھ (25جنوری 661ء)
، طبری ، میور اور امیر علی کا بھی اس پر اتفاق ہے ، ابن سعد کی دوسری
روایت یہ ہے کہ 17 رمضان کو جمعہ کے دن آپ پر حملہ ہوا اور 19رمضان کو
اتوار کے دن وفات پائی، یہی رائے مورخ عمر ابو النصر مصری کی ہے، سید قاسم
محمود نے اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں 21 رمضام تاریخ لکھی ، مجلہ نقوش
(رسول ﷺ نمبر) کے مضمون نگار راجہ محمد شریف نے لکھا ہے کہ ’حضرت علی رضی
اﷲ عنہ اسی روز جس دن کہ آپ زخمی ہوئے یا اس کے تیسرے دن 20رمضان المبارک
40ھ کو انتقال فرمایا،’محسن اعظم و محسنین ‘کے مصنف سید اطہر حسین نے
اور’تاریخ اسلام جلد اول‘ کے مصنف فقیر سید وحیدالدین بھی اس سے متفق ہیں ،
ان سب کے برعکس شاہ معین الدین احمد ندوی کی تحقیق یہ ہے کہ آپؓ 27رمضام کو
زخمی ہوئے اور30رمضان کو بروز یک شنبہ (اتوار) کو فوت ہوئے، ڈاکٹر طہٰ حسین
(الفتنتہ الکبریٰ ) کا بھی یہی خیال ہے۔ان کے علاوہ بیشتر مورخین نے حضرت
علی کی شہادت کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ پر حملہ 19 رمضان کو نمازِ فجر کی
نماز کے دوران ہوا اور دو دن بعد یعنی21رمضام المبا رک 40ہجری کی صبح آپ نے
جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی عراق
کے شہر نجف کی امام علی مسجد میں دفن ہوئے۔
یزیدبن معاویہؓ نے انان سلطنت 27 رجب سن60ہجری میں سنبھالا اس کے ساتھ ہی
اسلامی ریاست میں ظلم و جبر اور فسق و فجور کے دور کا آغاز ہوگیا۔ اس سے
قبل امام حسینؓ کے بڑے بھائی حضرت امام حسنؓ کو بھی سازش کے تحت زہر دے کر
ہلاک کردیا گیا تھا۔ یزید کا دور اہل بیت کے لیے زیادہ مشکل اور پریشان کن
تھا لیکن امام حسینؓ نے استقامت اور انصاف اور اسلام کی سربلندی کے لیے
اپنے آپنے آپ کو ہر دم تیار رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب انصاف اور اسلامی
روایات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ملوکیت کی فضاء کو تقویت دی جانے لگی۔ اب
برداشت کی حد ہوچکی تھی ۔ ایسے میں یزید کو اگر کوئی للکار سکتا تھا ، اس
کے خلاف کھڑا ہوسکتا تھا وہ وہ نواسہ رسول ﷺ ہی ہوسکتے تھے اور ایسا ہی ہوا
یہ سعادت امام کے حصہ میں آئی ، وہ یزید کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی
طرح کھڑے ہوگئے اور اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ ظلم و زیادتی کے خلاف سر نہیں
جھکایا جاے گا۔ اس کی بیعت لینے سے صاف انکار کردیا ۔ امام کو معلوم تھا کہ
انجام کیا ہوگا لیکن وہاں اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے نانا کے دین کو بچانے
اور امت محمدی کے مفاد میں سب کچھ کرنے جارہے تھے۔ انہوں نے اسلام کی خاطر
سب کچھ قربان کردیا۔ 10محرم لحرام یوم عاشور بروز جمعہ 61ہجری واقعہ کربلا
دل کو ہلادینے والا، دھڑکنوں کو تیز کردینے والا، سانسوں کو روک دینے والا
وقت قریب آن پہنچا۔ کربلا کا میدان سج چکا تھا، امام نے دشمنوں کو اپنی
جانب بڑھتے دیکھا تو اللہ کے حضور اپنے ہاتھو ں کو بلند کیا اور دعا فرمائی
’’اے میرے رب! ہر مصیبت میں تجھ پر میرا بھروسہ ہے ، ہر آزمائش اور مصیبت
میں تو ہی میرا پشت پناہ ہے، کتنی آزمائشیں اور مصیبتیں پڑیں ، دل کمزور
ہوگیا، تدبیرنے جواب دیا، لوگوں نے بے وفائی کی، دشمنوں نے خوشیاں منائیں ،
مگر میں نے صرف تجھ ہی سے التجا کی اور تو نے ہی میری دستگیری کی، تو ہی ہر
نعمت کا مالک ہے، تو ہی احسان والا ہے، آج بھی تجھ ہی سے التجا کی جاسکتی
ہے‘‘۔ امام حسین اپنے خاندان اور جان نثاروں جو تعداد میں500 تھے کے ساتھ
دریا فرات کے کنارے واقع کربلا میں یزید کے بڑے لشکر کے سامنے تھے۔ جرت ،
بہادری، استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ اللہ
پاک نے امام اور اہل بیت کی قربانی یقیناًقبول فرمائی تب ہی تو آج چودہ سو
سال گزر جانے کے بعد بھی امام کی یاد تازہ ہے اور یزید کا نام لیوا کوئی
نہیں۔درست ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔
قتل حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کر بلا کے بعد
حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے منسوب یہ بے مثل اشعار آپ حضرت حسینؓ کی
قربانی کی ترجمانی کرتے ہیں
شاہ است حسینؓ ، بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ ، دین پناہ است حسینؓ
سر داد، نہ داد دست در دستِ یزید
حقاّ کہ بنائے لاالہٰ است حسینؓ
حضرت امام حسینؓ کی شہادت ، مسلمانوں کے لیے ایک اہم واقعہ ہے بلکہ مکمل
دنیا کے لیے بھی اس واقعہ کو خاص مقام حاصل ہے۔ امام حسین اور دیگر اہل بیت
نے حق کے علم کو اونچا رکھ کر ، شہادت کے مرتبے پر فائز ہوکر دنیا کو ایک
ایسا سبق دیا کہ جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ آن والی نسلوں کے لیے
اس میں خاص پیغام اور عبرتیں اور حکمتیں پنہا ہیں۔امام حسینؓ کی شخصیت،
خدمات اور اہل بیت سے تعلق کے حوالے سے یہ مختصر سے تحریر امام سے محبت
رکھنے والے کی جانب سے خراج تحسین اور نذرانہ عقیدت ہے۔ امام کی شخصیت اور
خدمات مضمون نہیں بلکہ کتاب کا تقاضہ کرتی ہے بلکہ ان شخصیت اور خدمات کا
احاطہ کئی جلدوں پر مشتمل کتب بھی نہیں کرسکتیں۔
|