ڈاکٹر غلام شبیر رانا
لیوسن گولڈمین بخارسٹ(رومانیہ ) میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا ۔اس نے
ابتدائی تعلیم و تربیت بو ٹسانی ( رومانیہ) میں حاصل کی ۔قانون میں اعلا
تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اس نے رومانیہ کی پبلک سیکٹریو نیورسٹی UB’’
بخارسٹ یو نیورسٹی ‘‘ (قائم شدہ :1864)میں داخلہ لیا ۔ اس کے بعد وہ جرمن
فلسفہ کی تعلیم کے لیے یو نیورسٹی آف وی آنا (University of Vienna ) پہنچا۔
اسی یو نیورسٹی میں اسے ہنگری سے تعلق رکھنے والے مارکسسٹ فلسفی گیوگری
لوکاس(György Lukács) کے بارے میں وسیع معلومات حاصل ہوئیں ۔ لوکاس کے
افکار میں یہی دلچسپی لیوسن گولڈمین کے لیے زندگی بھر کا زاد راہ ثابت ہوئی
۔ان جامعات میں لیوسن گولڈمین نے اپنے عہد کے نامورمارکسسٹ میکس ایڈلر (Max
Adler) سے اکتساب فیض کیا۔ سال 1934میں اُس نے ادبیات ،سیاسی معاشیات
اورفلسفہ کے مضامین میں اختصاصی مہارت کے لیے پیرس یو نیورسٹی (قائم شدہ
1150)میں داخلہ لیا ۔ لیوسن گولڈمین جہاں بھی جاتا گردشِ ایام سدا اس کا
تعاقب کرتی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران میں جب وہ زیرتعلیم تھا اسے پیرس میں
پابندسلاسل کر دیا گیا مگر وہ عقوبت خانے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔سال
1942میں وہ سو ئٹزر لینڈ پہنچا جہاں وہ ایک سال تک پناہ گزینوں کے لیے
مخصوص کیمپ میں رہا جہاں اسے صبر آزما حالات سے دو چاہو نا پڑا۔حالات نے
کروٹ لی اور اسے روزگار کا موقع ملا اور وہ بچوں کی نفسیات کے ماہر جین
پیاگٹ(Jean Piaget. )کا معاون بن گیا۔ اس کے بعد اُسے سوئٹزر لینڈ کی سب سے
بڑی جامعہ زیورخ یو نیورسٹی (قائم شدہ :1833)میں داخلہ مِل گیا ۔زیورخ یو
نیورسٹی ( University of Zurich) سے اُس نے سال 1945میں کانٹ کے فلسفہ پر
تحقیقی مقالہ لکھا اور پی ایچ۔ڈی کی ڈگر ی حاصل کی ۔ لیوسن گولڈ مین کی
شادی اینی تیب ( Annie Taieb) سے ہوئی ان کے دو بیٹے ہیں ۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر وہ پیرس لوٹ آیا ۔فرانسیسی دانش ورلیوسن
گولڈمین (1913-1970)نے فلسفہ ،عمرانیات اور ادبی تنقید کے شعبوں میں قابل
قدر خدمات انجام دیں ۔ اس نے یورپ کی متعدد جامعات میں توسیعی لیکچرز
دئیے،خاص طور پر برسلز یو نیورسٹی( Brussels University )میں اس کی تدریسی
خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔اپنے عہد کے با اثر مارکسسٹ تھیورسٹ کی
حیثیت سے اُس نے اپنی تحریروں سے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہاں ِ تازہ
کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرارکیا ۔1960کے عشرے میں لیوسن
گولڈمین نے فرانسیسی ماکسسٹ تھیوری کی تفہیم میں گہری دلچسپی لی ۔اپنے
معاصرین التھاسر (Althusser ) اور پولنٹاز (Poulantazas) کے تصورات کے بر
عکس لیوسن گولڈمین نے نہایت محتاط موقف اپنایا۔ اس نے تاریخی مادیت کے بارے
میں سائنسی ایقان اور کارل مارکس(Karl Marx) کی سرمائے کے بارے میں تھیوری
میں حدِ فاصل پر توجہ مرکوز رکھی۔اس نے کارل مرکس کی تھیوری کے اس حصے کو
اہم قرار دیا جس میں جدلیاتی روح کااحوال مذکور ہے ۔اس نے کارل مارکس کے
تصورات کو جرمن فلسفی ہیگل( Georg Wilhelm Friedrich Hegel)کے جدلیاتی
نظریات کی روشنی میں دیکھنے پر اصرارکیا ۔لیوسن گولڈمین کے اسلوب میں تاریخ
،عمرانیات،فلسفہ اور ادب کے بارے میں اس کا زاویہ ٔ نگاہ کُھل کر سامنے آ
جاتا ہے ۔اس نے انسانیت کے سماجی پہلوؤں کی اہمیت کو اُجا گر کیا ۔اس نے
سماجی تکمیل کے اس تصور کو اہم قرار دیا جو کارل مارکس سے منسوب ہے ۔اس نے
واضح کیا کہ دانش ور اپنے افکار کا جو قصرِ عالی شان تعمیر کرتے ہیں ان میں
تاریخی میراث کے گنج ہائے گراں مایہ کو محفوظ کیا جاتاہے ۔دانش وروں کے ابد
آشنا تصورات کے اس سر بہ فلک قصر کا مضبوط ترین ستون ادب ہے ۔ بے ثبات کارِ
جہاں کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر سفری کا اسباب راستے ہی میں لُٹ جاتا ہے
اور عدم کے کُوچ کے مرحلے پر تر دامنی ہی اس کا مقدر بنتی ہے ۔اس عالمِ آب
و گِل میں فریب ِ سُود و زیاں اور خیر و شرکے تصادم میں ادب نے ہمیشہ ثالثی
کا کردار ادا کیا ہے ۔ادب نے اس معاملے میں جو رہنما اصول پیش کیے ہیں وہ
رہ نوردانِ شوق کے لیے نئے عزم اور حوصلے کے نقیب ثابت ہوئے ۔لیوسن گولڈمین
نے سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیاتجین پیا گٹ (Jean Piaget) کے
افکار کی ترجمانی کرتے ہوئے تخلیق ادب کے لاشعوری محرکات پر روشنی ڈالی۔
سامراجی دور میں استعمار کی یلغار جو پہلی عالمی جنگ 1914-1918)کے دوران
میں پُوری شدت سے جاری تھی اس کے نتیجے میں ایک سیاسی اور سماجی بحران پیدا
ہو گیا ۔یورپ میں بھی اس کے نتیجے میں ایسا معاشی بحران پیدا ہوا جس کی
پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی ۔دوسری عالمی جنگ (1939-1945 )میں ہٹلر کی عبر
ناک ہزیمت کے بعددنیا کو ہولناک معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا ۔ حقائق سے
معلوم ہوتا ہے کہ جنگ اور جا رحیت کے نتیجے میں ثقافت کو ناقابل اندمال
صدمات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔تباہ کُن جنگوں کے نتیجے میں نہ صرف ثقافتی
ڈھانچہ مکمل انہدام کے قریب پہنچ جاتا ہے بل کہ قوموں کی نفسیاتی ساخت پر
بھی اس کے مسموم اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ لیوسن گولڈمین نے اس بارے میں لکھا
ہے :
,, Evidently ,during this entire period economic and social equilibrium
was particularly difficult to establish ,was realized only provisionally
and very unstably ,and wasfollowed immediately by the outbreak of new
crisis.,, ( 1 )
سال 1970میں جب’’ مارکسزم ،سائنس اور انسانیت ‘‘کے موضوع پر لیوسن گولڈمین
کی وقیع تصنیف منظر عام پر آئی تو علوم کی اصلیت اور ما بعد الطبیعات کے
بارے اس کے تصورات سے جمود کا خاتمہ ہوا اور فکر و خیال کے نئے دریچے وا
ہونے لگے۔اس نے مارکس کے آزمودہ کارپیروکاروں اوراخلاقیات کے پابند اصلاح
پسند سوشلسٹوں کے اختلافات پر کھل کر لکھا ۔لیوسن گولڈمین نے فکر و خیال کی
جدلیاتی نہج پرغور کیا جسے مارکسی سوچ سے منسوب سمجھا جاتا ہے ۔اس نے
سائنسی اندازِ فکر کی مظہروہ تشریح لائق استرداد ٹھہرائی جسے کارل مارکس کے
انتہا پسند پیر وکاروں نے اپنا رکھا ہے ۔اس مقام پر پہنچ کر تاریخ اور
طبقاتی امتیازات کے موضوع پر اس کے خیالات ہنگری سے تعلق رکھنے والے ادبی
مورخ ،نقاد،مارکسی فلسفی اور جمالیات کے ماہر جارج لوکاس(Georg Bernhard
Lukács) سے مماثل معلوم ہوتے ہیں ۔ لیوسن گولڈمین نے اس حقیقت کا سراغ
لگایا کہ جرمن فلسفی مارٹن ہیڈی گر (Martin Heidegger) کی روایتی علم
موجودات کے موضوع اور اعتراض پرتنقید اور جارج لوکاس کی تنقید میں ایک
متوازی نوعیت کا تعلق پایاجاتا ہے ۔ کارل مارکس نے جائیداداور میراث کے
بارے میں فرانسیسی سیاست دان اورفلسفی جوزف پروڈن ( Pierre-Joseph
Proudhon) کے انسانوں کے ایک دوسرے کے دست نگر ہونے اور جدلیاتی طریق کار
پر گرفت کی ۔ لیوسن گولڈمین نے اس جانب متوجہ کیا کہ کارل مارکس علمی تحقیق
و دریافت کے فلسفیانہ طریق کار کو خاطر میں نہیں لاتا بل کہ اس کی دلچسپی
کا محوروہ تاریخی اور تجرباتی عوامل ہیں جو علمی تحقیق ، تفحص ،جستجو اور
نئے آفاق تک رسائی کی جد و جہد کی راہ میں سدِ سکندی بن کر حائل ہو جاتے
ہیں۔اس نے ٹھو س حقائق پر مبنی علم اور قیاس پر مبنی رائے میں پائے جانے
والے فرق کی جانب متوجہ کیااور واضح کیا کہ کہ غیر محتا ط خیال آرائی سے
زندگی کے متعدد حقائق خیال وخواب بن جاتے ہیں اور محقق تاریکیوں میں ٹامک
ٹوئیے مارنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ اس نے اس امر کی جانب بھی متوجہ کیا کہ
یہ دریافت کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ فکر و خیال کے نئے آفاق تک
رسائی اور علوم کی وسعتوں کے جملہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی کے سلسلے میں
فلسفہ کی پیش گوئی کیا ہے؟ فلسفہ اور ما بعد الطبیعات کے موضوع پر لیوسن
گولڈمین نے جرمن ماہر تکو ینیات ، ماہر اخلاقیات اور اپنے عہد کے ممتاز
فلسفی ایمنوئل کانٹ( Immanuel Kant)کے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
,,Kant explains that i fthey were well-founded,there could be
exceptional men having certain relations with and a certain knowledge of
the spiritworld.Such men would appear to others,to normal men,as dreamed
andvisionarries, but would in fact be the most valuable confirmation of
metaphysical hopes.,, (2)
k اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہلیوسن گولڈ مین کے اشہب ِ قلم کی
جو لانیوں کا علوم کی عمرانیات سے گہر ا تعلق ہے ۔اس آزمودہ کار ادیب کے
افکار کے تجزیاتی مطالعہ کے دوران میں کئی سخت مقام آتے ہیں کئی پیچیدہ
اورناقابل فہم سوالات اکٹھے سامنے آتے ہیں جن کا تعلق ادب کی عمرانیات سے
ہے ۔آفاقی زاویۂ نظر کے حوالے سے لیوسن گولڈ مین نے کانٹ کے فلسفے اورگزشتہ
ساٹھ عشروں سے متازعہ بلیزپاسکل(1623-1662) کی عقائد اور حیات و ممات کے
تصورات سے وابستہ وجدانی اور تخیلاتی تخلیق پنسی(Pascal,s Pensees )میں
پائی جانے والی مماثلت کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔ پاسکل کی پنسی در اصل اس ماہر
ادیان کے ان تصورات پر مبنی ہے جن کا تعلق موت کے بعدکے مراحل سے ہے ۔یہ
ایک انتہائی وسیع اور محنت طلب کا م تھاان کا موازنہ کرتے ہوئے اس نے
فرانسیسی فلسفی،ریاضی دان اور سائنس دان رینے ڈسکریٹس ( René Descartes)کی
عقلیت پسندی اور سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ادیب، فلسفی،مورخ اور ماہر
معاشیات ڈیوڈ ہیوم (David Hume)کی تجربیت کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔اس نے اس
امر پر اپنی تشویش کا بر ملا اظہار کیا کہ تنقید و تحقیق میں مارکسی فکر کے
بارے میں بالعموم غیر محتاط طریقہ اپنا یا جاتا ہے جس سے عقلیت پسندی سے
تجربیت کی جانب ہونے والی مراجعت قابل غور ہے ۔ لیوسن گولڈ مین نے اس
جدلیاتی فلسفہ کے تجزیاتی مطا لعہ کی ضرورت سے آگاہ کیا جسے ہیگل،کارل
مارکس اورلوکاس نے پیش کیا تھا ۔ وہ ادبی تنقید کے فلسفہ سے وابستہ مسائل
کے بارے میں عام فہم انداز ِ فکر کی جانب پیش قدمی جاری رکھنے پر زور
دیتاہے۔وہ اس گہرے تعلق کو سمجھنے پر بھی زور دیتا ہے جو معاشرتی زندگی میں
افراد کے فکر و خیا ل اور افعال واعمال میں پایا جاتا ہے ۔ سال 1959میں
شائع ہونے والی لیوسن گولڈ مین کی تصنیف ’’The Hidden God‘‘کو سوشل سائنس
کے شعبے میں معرکہ آرا تحقیقی کا م کو تاریخی مطالعات کے حوالے سے سنگِ
مِیل سمجھا جاتا ہے۔ اس تصنیف میں بلیز پاسکل(Blaise Pascal) کے فلسفیانہ
متن اورجین رسین (Jean Racine)کے ڈرامہ کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں ۔لیوسن
گولڈ مین نے جین رسین کے اسلوب پر جو تجزیاتی کام کیا اسے بلیز پاسکل کے ہم
پلہ سمجھا جاتا ہے ۔بلیز پاسکل کے اسلوب کا عمیق مطالعہ کرنے سے اس حقیقت
کا ادراک ہوتا ہے کہ اس کے فکر و خیال کی دنیا میں رومن کیتھولک تصورا ت کا
غلبہ ہے ۔اسی قسم کے خیالات کو لیوسن گولڈ مین نے سیلِ زماں کے تھپیڑوں اور
آلامِ روزگار کے بکھیڑوں سے تعبیر کیا ہے ۔ بلیزپاسکل نے کشمکشِ روزگار کے
بارے میں جو طرزِ فغان ایجادکی،اُسی کو بعد میں طرزِ ا دا ٹھہرایا
گیا۔سماجی اور معاشرتی زندگی میں اس کے دُوررس اثرات مرتب ہوئے ۔یہاں تک کہ
متمول اور عالی مرتبت لوگ اور ان کے زیر اثر گروہ بھی اس منفرد انداز سے بے
نیاز نہ رہ سکے ۔ سال 1950میں کارل مارکس کے فلسفے نے جس انداز میں علمی و
ادبی حلقوں کو متاثر کیا ،اس کا تجزیاتی مطالعہ اس کتاب کا اہم موضوع ہے ۔
لیوسن گولڈ مین کی یہ موثر ترین تصنیف جہاں اس کے تجزیاتی افکار کی ہمہ گیر
وسعت اور باریک بینی کی مظہر ہے وہاں اس کے مطالعہ سے ہیگل کے مارکسزم کے
بارے میں نئے آفاق تک رسائی کی نئی راہیں کُھلتی چلی گئیں ۔مارکسزم کی ہمہ
گیر اثر آفرینی اور وسیع دائر ہ ٔ کار کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے
ہر شعبہ ٔ زندگی میں خود کو مصروف رکھاہے ۔اس کی نگاہ چار سُو اُلجھی ہوئی
جس کے نتیجے میں خِرد کی گُتھیاں سُلجھانا کٹھن مر حلہ ثابت ہوتا ہے۔یہ
کبھی ساختیات تو کبھی وجودیت ،کہیں سوال تو کہیں جواب ،کسی جگہ حلیف تو کسی
جگہ حریف بعض اوقات عنصرتو بعض مقامات پر مرکب ۔ مارکسسٹ تھیوری کے ایک
فعال شارح کی حیثیت سے لیوسن گولڈ مین نے اپنے مدلل اسلوب سے اپنے مداحوں
کا وسیع حلقہ پیدا کیا ۔ لیوسن گولڈ مین کی زندگی ایک شانِ استغنا کی مظہر
رہی ہے ادب کی عمرانیات پر اس کے وقیع کام،وجدان اور نوائے سروش کی مظہر اس
کی تحریروں کو دیکھتے ہوئے فکر و خیال کی دنیا میں اسے ایک دیوتا کی طرح
عزت و تکریم حاصل تھی ۔ تصنیف علم و ادب کے ایوانوں میں کارل مارکس کے
افکار پر ہونے والے مباحث میں اس کی تصانیف کی باز گشت ہر عہد میں سنائی دے
گی۔اس کے برعکس بلیز پاسکل کے مداح اُسے جدلیاتی سائنس کا بنیاد گزار ، ایک
حق گو اور سائنسی اندازِ فکر کا علم بردار ادیب قرار دیتے ہیں ۔ بلیز پاسکل
کے حامیوں کا خیال ہے کہ لیوسن گولڈ مین نے جس انداز میں بلیز پاسکل کی
توضیح کی ہے اس نے بلیز پاسکل کو بہت کم زور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے
جو ایک المیہ سے کم نہیں ۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ بلیز پاسکل کے پر جوش
حامیوں نے غلطی سے اس مفروضے کو تسلیم کر لیا ہے کہ لیوسن گولڈ مین نے اپنے
تجزیاتی مطالعات میں بلیزپاسکل کی پنسیز پر ماکسسٹ تھیوری کے اطباق کے سوا
کچھ بھی نہیں کیا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہلیوسن گولڈ مین نے
ساختیات اور وجودیت پر گرفت کی اور اُسے ایسا مغربی مارکسسٹ سمجھا جاتا ہے
جس نے انسان شناسی اور انسانیت نوازی کو شعاربنائے رکھا ۔لیوسن گولڈ مین نے
ماکسزم سے منسوب خاص سائنسی توضیح اور عام آدمی کے بارے میں اس کے اندازِ
فکر کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا ۔لیوسن گولڈ مین کا شمار اپنے عہد کے جری
نقادوں اور ممتاز انسان شناسوں میں ہوتا تھا ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اپنے
اشہبِ قلم کی جو لانیاں دکھاتے ہوئے بعض اوقات وہ حد سے گزر جاتا ہے ۔اس نے
یہ حیران کن انکشاف کیا کہ نوع انساں سے بے لوث محبت کی مظہر اشتراکیت سے
اہلِ یورپ کو کسی قسم کا اندیشہ ٔ زوال نہیں بل کہ یہ تو یورپی کلچر کواوجِ
کمال تک پہنچا سکتی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ بے ثبات کار ِ جہاں میں لفظ کو سب سے پہلے پہچانا گیا۔
لیوسن گولڈ مین نے لفظ سے وابستہ فعالیت سے منسلک جمال و کمال کے تمام
مظاہر پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔ نیم مارکسسٹ اور نیم ساختیاتی حوالے سے
اپنی تصنیف For a Sociology of the Novel” میں اس نے اپنے تجزیاتی اسلوب کے
اہم پہلوؤ ں پرروشنی ڈالی ہے ۔اس کتاب میں اس نے سر مایہ دارانہ نظام کے
زیر اثر معاشرے میں روزمرہ زندگی کے معمولات اور ناول کے اسلوب میں سخت
مطابقت کو موضوع بنایا ہے ۔ افعال اور لسان کے باہمی ربط کولیوسن گولڈ مین
کے اسلوب میں اہم مقام حاصل ہے ۔ژان پال سارتر (Jean-Paul Sartre)نے وجودیت
کی وضاحت کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ انسان کا اپنی مرضی کے مطابق اپنی تسبیح
ِ روزو شب کا دانہ دانہ شمار کرنا اس کی فعالیت کا مظہر ہے ۔اس کیفیت کو
دیکھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب سال 1960کے بعدسارتر کے افکار کی چکا
چوند ماند پڑنے لگی تو ساختیات نے زبان کو انسانی سائنس کا ایک قابل قدر
نمونہ بنا دیا ہے ۔ادب کی عمرانیا ت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محقق نے
ہر دور میں معاشرتی زندگی کو صحیح سمت میں روا ندواں رکھنے میں اہم کردار
ادا کیا ہے۔تصورات و تخیلات اور فعالیتوں و مصروفیتوں کا سماجی وتاریخی
تناظر میں مطالعہ اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے ۔سائنس اور ادب کی عمرانیات
کے باہمی انحصاراور اس کے پس پردہ کار فرما عوامل پر غور کر کے لیوسن گولڈ
مین نے جو انجمنِ خیال آراستہ کی وہ حسن و خوبی اور رعنائی میں اپنی مثال آ
پ ہے۔ اپنی تصنیف ’’روشن خیالی کا فلسفہ ‘‘ (The Philosophy Of The
Enlightenment)مطبوعہ سال 1973میں لیوسن گولڈ مین نے اٹھارہویں صدی کی آزاد
خیالی اورا نفرادیت کا عمیق مطالعہ کیا ہے اور اس عہد کے تخلیق کاروں کی
فکر ی اپج اور ذہنی ساخت کا تجزیہ کرنے کی سعی کی ہے ۔آزادی ،مساوات
اورانسانیت کی عزت و تکریم کو وہ بنیادی اقدار سے تعبیر کرتا ہے ۔ان اقدار
کا زیریں متوسط طبقے اور متوسط طبقے کی زندگی کے معمولات سے گہر ا تعلق ہے
۔ ان اقدار کا معیشت اور اس سے وابستہ معاملات کے ساتھ جو تعلق ہے وہ چشم
بینا سے پوشیدہ نہیں ۔اگر افراد کے معاشی مسائل کا حل تلاش کر لیا جائے تو
ان اقدار کی نمو کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔اپنی تنقیدی تحریروں میں لیوسن
گولڈ مین نے ہیگل اور کارل مارکس کے نظریات کو بہت اہمیت دی اور ان مشاہیر
کے نظریات کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد اپنے تجزیات کو زیب قرطاس کیا ۔اس نے
گو مگو اور تذبذب کی اس کیفیت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا جو آزاد خیالی
اور عیسائیت کے روایتی تصورات کے بارے میں پائی جاتی ہے ۔اس نے مفروضوں اور
شکوک و شبہات سے بچتے ہوئے حقیقت پسندانہ موقف اپنایااور مغرب و مشرق کے
متصادم تصورات اور آزاد خیالی اور عیسائیت کے روایتی تصورات میں مفاہمت کی
کوئی قابلِ عمل صورت تلاش کرنے کی کوشش کی ۔واقعہ یہ ہے کہ معاشرتی ،سماجی
اور تہذیبی و ثقافتی شعبوں کو لاحق خطرات اورزندگی کی شبِ تاریک کو سحر
کرنے کے لیے اس متصادم کیفیت سے بچنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔یہی فطرت
کا تقاضا اور یہی نوشتۂ تقدیر ہے کہ اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی فراوانی
کو یقینی بنایا جائے ۔
کسی بھی خطے میں ثقافت کی نمو اور اس کے ارتقا پر لیوسن گولڈ مین نے اپنے
تجزیہ میں اس بات پر زور دیا کہ افراد ہی وہ قوت ہیں جن کی فعالیت سے
تہذیبی اور ثقافتی عوامل کو تحریک ملتی ہے ۔ زندگی کے افعال اور اعمال بھی
عجیب ہیں وہ مثال دے کر واضح کرتا ہے کہ ایک بُھوکی بلی اپنے سامنے ایک
فربہ چوہا دیکھ لیتی ہے جو دیوار کے سائے میں اپنے بِل سے دُور ہے ۔بُھوکی
بلی کا مسئلہ چوہے کو دبوچ کر اپنی بُھوک مٹانا ہے اور چوہے کا مسئلہ تیزی
سے بھاگ کر بل میں گھس کر اپنی جان بچانا ہے ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں
تو اور کیا ہے کہ زندگی عملاًبلی اور چوہے کے اسی نوعیت کے کھیل کا نمونہ
پیش کرتی ہے ۔زندگی کے بارے میں یہی شعور در اصل جذبات کی ترسیل کا محور ہے
۔ زندگی کی لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور خوف ناک ترین صداقت یہ ہے کہ ہستی کا
تعین اسی سے وابستہ ہے ۔زندگی ایک متاع بے بہا ہے جو کسی جان دار کو صرف
ایک بار نصیب ہوتی ہے ۔اس کی کم مائیگی کا شکوہ نہ کیا جائے بل کہ اس امر
پر توجہ مرکوز رکھی جائے کہ زندگی کا سفر صحیح سمت میں جاری رہے ۔اگر اس
میں کامیابی حاصل ہو جائے تو فرصت ،زندگی کم نہیں بل کہ جودید نصیب ہو وہی
مغتنم ہے ۔ فطرت نے تو زندگی کو پر کشش، سادہ اور عام فہم صورت میں تخلیق
کیا مگر یہ انسان ہی ہیں جو زندگی کو جوئے شیر ،تیشہ و سنگِ گراں بنانے
پرتُل جاتے ہیں ۔اگر افراد اپنے موجودہ حالات میں بہتری لانے میں کامیاب
ہوجائیں تو وہ اپنے مستقبل کو یقیناً روشن بنا سکتے ہیں۔ سیلِ زماں کے مہیب
تھپیڑوں سے زندگی اور تہذیب و ثقافت کو جو خطرات لاحق ہیں وہ افراد کے لیے
بالعموم عدم اطمینان کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس کائنات میں ماضی اور حال میں
انسانی زندگی کے نشیب و فراز اور افرا دکے مستقبل کے موضوع پرلیوسن گولڈ
مین نے لکھا ہے :
,,The future of the individual,in fact,is limited.It ceases with death
and it would be difficult to make it one of the fundamental categories
of individualist thought. ,, (3)
اپنی عملی تنقید میں مارکسزم اور ساختیات میں فکری اشتراک متعدد پہلو تلاش
کر کیلیوسن گولڈ مین نے اپنی تحقیقی بصیرت کا لوہا منوایا۔تاریخی حقائق اس
حقیقت کے شاہد ہیں کہ سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہر لسانیات سوسئیر
(Ferdinand de Saussure) نے اپنی افتاد طبع کو رو بہ عمل لاتے ہوئے لسانیات
میں جن فکر پرور اور خیال افروز مباحث کاآغاز کیا، مارکسزم نے اُنسے گہرے
اثرات قبول کیے ۔بادی النظر میں مارکسزم اور ساختیات میں پایا جانے والا وہ
مشترک پہلو جس نے ادبی نقادو ں کی توجہ حاصل کی وہ افراد کی ہمہ گیر فعالیت
ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ افراد ہی ہیں جو زندگی کے ہر
شعبہ میں اپنے وجود اور فعالیتوں کا اثبات کرتے ہیں۔جہاں تک ساختیاتی فکر
کا تعلق ہے اس کی رُو سے سماجی زندگی کو بو قلمونیوں اور متنوع کیفیات
کوثقافت کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔مارکسزم کے مطابق افراد کو
خود مختار ،فعال اور جری نمائندہ کی حیثیت سے نہیں دیکھا جاتا۔افراد کی
سماجی کیفیت جن کی عکاسی ان کے روّیے سے ہوتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر
ملتا ہے کہ افراد ایام کے مرکب بن چکے ہیں ۔ لیوسن گولڈ مین نے الفاظ و
معانی کی تفہیم کو بہت اہمیت دی ۔اس کا خیال تھا کہ اگر کہیں تکلم کا سلسلہ
ٹُوٹنے لگے تو پھر بھی معانی کی جستجو کا سلسل نہ ٹُوٹنے دیا جائے ۔ایسے
مواقع پر اُس تکلم کی اُس ثنویت پر توجہ مرکوز رکھی جائے جو فعالیت اور غیر
فعالیت میں پنہاں ہے ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک کٹھن مر حلہ ہے جہاں
متعدد لسانی پیچیدگیاں سائنسی طریق کار کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں ۔لفظ
سُوجھتے ہیں تو معانی کی بغاوت اظہار و ابلاغ کی راہ میں سدِ سکندری بن
جاتی ہے ۔ سماجی اور معاشرتی زندگی میں افرادجن مراحل سے گزرتے ہیں ،اُن کے
آثار اُن کی لوح ِ جبیں پر ثبت ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ساختیات نے واضح کیا کہ
افراد کے اعمال اور تکلم کے سب سلسلوں کا معنیاتی نظام سے انسلاک ہے ۔
ساختیاتی مماثلتیں کی تھیوری پیش کر کے رومانیہ کے یہودی دانش ور لیوسن
گولڈ مین نے جو شہرت حاصل کی وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ اس کی یہ تھیوری مسلسل
دس سال (1950-1960) تک نقادوں کی توجہ کا مرکز رہی ۔ لسانیات، سماجی
جمہوریت ،سوشلزم اورساختیات میں اس کی ذات سے منسوب خود منظم کردہ اختراعی
اسلوب کو پوری دنیا بالخصوص لاطینی امریکہ میں بہت پزیرائی مِلی۔ اپنی
نوعیت کے لحاظ سے لیوسن گولڈ مین کے جد ید اور منفرد کام نے انسانیت نوازی
،تاریخ ،لسانیات ،ساختیات اور مارکسزم کو نیا آ ہنگ عطا کیا ۔سال 1930سے
فرانس میں قیام کرنے والے اس محقق نے فرانس کے جدید دور کے کلچر سے اختلاف
کرتے ہوئے اپنا موقف نہایت جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا ۔ خوب سے خوب تر
کی جستجو انسانی فطرت ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے زمانے اور نئی صبح و
شام پیدا کرنے کی تمنا انسان کو نئے آفاق کی جستجو پر مائل کرتی ہے ۔لیوسن
گولڈ مین نے روشنی کا سفر جس مقام پر ختم کیا تھا وہاں سے نئی منزلوں کی
جستجو کا غیر مختتم سلسلہ جاری رہے گا۔آسودگان ِ خاک یہ مت سمجھیں کہ نئی
نسل نے انھیں فراموش کر دیاہے ۔
مآخذ
Cultural Creation In Modern Society,Oxford,1977,Page,53. 1.Lucien
Goldmann:
2.Lucien Goldmann: Immanuel Kant.London,1971,Page,89.
3. Lucien Goldmann: Essays on Method in the Sociology of Literature
,St.Louis,1980,Page,95. |