محمد وسیم طارق
معزز قارئین اسلام و علیکم ! محرم الحرام کا نام سنتے ہی ہر دل آبدیدہ ،ہر
آنکھ اشکبار ،ہردل غمگین،ہر دل میں سوگ ،گھروں میں صف ماتم کا سماں چھا
جاتا ہے اور کیسے نہ ہو اس ماہ مقدس میں آل پیغمبر کے ساتھ کیا کچھ نہیں
ہوا ،آل پیغمبر ﷺ نے جس جواں مردی سے اسلام دشمنوں کا مقابلہ کیا اور
شہادتوں کے رتبوں پر فائز ہو کر اسلام کو تا قیامت زندہ جاوید کر دیاایسا
ماہ مقدس جس مین سر کٹا کر سر بلند ہو گیا آل پیغمبر ﷺ پر ظلم و ستم کے
پہاڑ توڑے گئے لیکن زبان سے کلمہ ء حق ختم نہیں ہوا اپنی جانوں کی قربانی
دی گئی سر بازار بیبیوں کو ننگے سر دوڑایا گیا ،ظلم وستم کی ایسی تاریخ رقم
ہوئی جو اس سے پہلے تھی نہ اس کے بعد ہو گی ۔۔۔آل نبی ﷺنے ظلم و ستم سہنے
کی انتہا کر دی مگراپنے نانا کے دین پر آنچ نہیں آنے دی بڑے تو بڑے تھے
دشمنوں نے ننھی جانوں کو بھی نہ بخشا ننھے علی اصغر،پیاسے علی اصغر ،معصوم
علی اصغر، کے گلے میں تیرلگا تووہ رسول ﷺ کے دین کو بچانے کے کام آیا کربلا
میں ایسا سماں پیدا ہوا جو دنیا میں مثال بن گیا ۔۔۔ارے یزیدو اگر لڑنا ہے
تو آل رسول ﷺ کے جوانوں سے لڑو ،بچوں کا کیا گناہ ،بچے تو معصوم ہوتے ہیں ،جناب
علی اصغر کو کیوں شہید کیا اس لئے کیا کہ اپنی یزیدیت دنیا کو دکھا سکو
لیکن ہوا کیا شہادتوں کے انبار لگ گئے ،کربلا خوں سے تر ہو گئی ،ہر طرف
لاشیں ہی لاشیں ،کہیں بیبیاں ،کہیں جواں ،کہیں بچے جگہ جگہ لاشوں کی
ڈھیریاں ۔۔۔تو کیا یہ تمھاری فتح تھی ۔۔۔۔نہیں یزیدو نہیں کربلا میں پڑی آل
رسولﷺ کی لاشیں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ ہم نے سر کٹا کر بھی سر بلند کر
لیا ہے دین اسلام کے لئے جانوں کا نذرانہ دے کر پیغمبر مصطٖفیٰ ﷺ کے دین کو
بچا یا گیا ہے یہ حق سچ کی فتح ہے دین اسلام کی فتح ہے نہ کہ یزیدیت کی
۔۔۔۔میدان کربلا کے عظیم شہسواس امام حسین ؓ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر
ایسی تاریخ رقم کی اور اپنے نانا کے دین کے لئے جاں سپرد خدا کر کے دین
اسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ ء جاوید کر دیا ۔۔۔۔ظالمو ،یزیدو کس کو شہیدکیا
اس نواسہ ء رسولﷺ کو جس نے بڑے فخر سے دین اسلام کو بچانے کے لئے راہ حق
میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہادت حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
۔۔۔۔حسینؓ کون تھے ۔۔۔ارے یزیدو پہچانو حسین ؓ کون تھے سیدنا حسینؓ ،نبی
کریم ﷺ کے محبوب نواسے ،شہید کربلا ،خانوادہ ء نبی کے ایک اہم فرد تھے حضرت
عبدالرحمن بن ابی غنم سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ فرماتے تھے کہ حسنؓ اور
حسینؓ میری خوشبوئیں ہیں ۔قارئین خوشبوئیں اور نبی ﷺ کی خوشبوئیں حسن اور
حسینؓ اور خوشبوئیں بھی ایسی کہ جن کے خون کی مہک سے عرش و فرش نہلا گئے
معطر ہو گئے ،خوشبو بھی ایسی جو تاقیامت بلکہ قیامت کے بعدرہے گی ۔نامور
صحابی ابو یعلی بن مرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک
کھانے کی دعوت پر گئے ۔تو دیکھا کہ حضرت امام حسینؓ گلی میں کھیل رہے تھے
آپ سرکار ﷺ آگے بڑھے اور حضرت حسینؓ کو پکڑنے کے لئے اپنے بازو پھیلا دئیے
جناب حسینؓ کبھی ادھر بھاگتے تو کبھی ادھر بھاگتے آپ ﷺ حسین ؓ کو دیکھ دیکھ
کر خوش ہوتے اور پھر انہیں پکڑ لیا تو ایک ہاتھ حسین ؓ کی گرن کے نیچے اور
ایک گردن کے اوپر رکھ کر بوسہ لیا اور آپ ﷺ نے فرمایا حسین ؓ مجھ سے ہیں
اور میں حسینؓ سے ہوں۔قربان جاؤں اس بوسے پر جو نبی ﷺ نے حسینؓ کی گردن پر
کیا بوسہ کرنے والا نبی دو جہاں ﷺ اور بوسہ دینے والا نواسہ ء رسول ﷺ ۔
حضرت انس ؓ بن مالک سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ ایک دن بارش والے فرشتے نے
پرودگار عالم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس جانا چاہتا ہے
اﷲ تعالیٰ نے اجازت دے دی ۔نبی پاک ﷺ نے حضرت ام سلمہ ؓسے فرمایا کہ دروازہ
بند رکھنا اور کسی کو اندر مت آنے دینا اور کوئی ہمارے پاس نہ آئے راوی
فرماتے ہیں کہ اتنی دیر میں سیدنا امام حسین ؑ آئے تو ام سلمہؓ نے انہیں
روکا لیکن وہ کود کر اندر چلے گئے اور نبی پاک ﷺ کی کمر اور کندھے پر جا کر
بیٹھ گئے حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ اس فرشتے نے آپ ﷺ سے کہا کہ اس بچے سے
محبت کرتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ہاں!۔۔۔تو فرشتے نے کہا کہ آپ ﷺ کی امت
اسے شہید کر دے گی اگر آپ ﷺ چاہیں تو میں آپ ﷺ کو وہ جگہ دکھا دوں جہاں
انہیں شہید کیا جائے گا پھر انہوں نے ہاتھ مارا اور سرخ رنگ کی مٹی لے آئے
اور آپ ﷺ کی مٹھی میں وہ مٹی دے دی راوی کہتے ہیں کہ حضرت ثابت کہا کرتے
تھے اس جگہ کا نام کربلا ہے قارئین دل دہل جاتا ہے روح کانپ جاتی ہے جب یہ
ذہین میں آتا ہے کہ نبی ﷺ حضرت حسین ﷺ کی گردن پر بوسہ کیوں کرتے تھے کم
سنی کی عمر میں گردن حسین ؓ پر بوسہ رسول ﷺ اس بات کی نوید ہے کہ محمدﷺ کو
معلوم تھا کہ میرے نواسے کی گردن پر دین کے دشمنوں کی تلوار کا وار ہو
گااور شہادت حسینﷺ اس دنیا کی عظیم شہادت بن جائے گی۔ارشاد نبیﷺ حسینؓ مجھ
سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں ۔۔اے اﷲ جو کوئی حسین ؓ سے محبت رکھے تو اس سے
محبت رکھ،حسین ؑ اسباط میں سے ایک سبط ہے ۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے حضرت
امام حسین ؑ کے رونے کی آواز سنی تو آپ ﷺ نے آپ ؓ کی والدہ حضرت فاطمہ ؓ سے
فرمایا : کیا تمھیں علم نہیں کہ اس کے رونے سے مجھے کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔جہاں
نبی دو جہاں ﷺ کی محبت کا یہ عالم تھا وہاں صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کا
احترام و محبت حسین ؑ کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا صحابہ کرام رضوان اﷲ
اجمعین جس طرح حضرت امام حسین ؑکا احترام کرتے تھے اس کا اندازہ اس واقعے
سے ہوتا ہے کہ ایک جنازے میں حضرت امام حسین ؑ بھی شریک تھے تو ان کے پاؤں
گرد آلود ہو گئے تو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اپنے ہاتھوں سے حضرت امام حسین ؑ
کے پاؤں سے مٹی خود اپنے ہاتھوں سے صاف کی ۔ تسلیم و رضا کی اس لازوال
داستان کو دہرانا اور خاص طور پر محرم الحرام میں اس کا تذکرہ کرنا دینی
فریضہ ہی نہیں بلکہ انسانی قدر اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حیات کا ضامن
ہے ۔امام عالی مقام ؑ کا تعلق کسی مخصوص مکتب ،مذہب یا فرقے اور ملک سے
نہیں بلکہ ہر با ضمیر انسان بارگاہ مظلوم کربلا میں مودب اور مغموم دکھائی
دیتا ہے
اسی لئے ایک ہندو شاعر نے کہتا ہے کہ ۔۔۔
اس قدر رویا میں سن کر داستان کربلا
میں تو ہندو ہی رہا آنکھیں حسینی ہو گئیں
حضرت امام حسین ؑ نے روز عاشورہ اپنے 72جانثاروں سمیت دین کی سربلندی کے
لئے اپنی جان قربان کر دی حضرت امام حسین ؑ نے بیعت یزید کے مطالبے کو
ٹھوکر مار کر دنیا کو بتا دیا کہ ہم خانوادہ ء رسول ہیں کسی ظالم کے سامنے
نہیں جھکتے اور نوک ِ سناں پر بھی کلمہ ء حق بلند کرتے ہیں اسی موقع پر
شاعر نے کیا خوب کہا کہ
جبرائیل ؑ کربلا سے یہ کہتے ہوئے گئے
مقروض حشر تک خدائی حسین ؑ کی ہے
حسین ؑ کا سرِ اقد س نیزہ پر سر بلند ہوا اور باطل ہمیشہ کے لئے سر نگوں ہو
گیاحضرت امام حسین ؑ نے اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن اسلام کی حقانیت اور
حرمت پر آنچ نہ آنے دی حق فتح یاب ہوا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے کے
لئے ہی ہے ۔اﷲ تعالی حضرت امام حسین ؑ اور دیگر شہدائے کربلا کی طرح ہمیں
اور تمام مسلمانوں کو بھی دین کی پابندی اور اسلام کی حفاظت کی تو فیق عطاء
فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔آمین |