امریکہ کاممتاز ادبی نقاد ،مارکسی سیاسی تھیورسٹ ،مابعد
جدیدیت اور مکانیّت کا رجحان سازتجزیہ نگار فریڈرک جیمسن 14۔اپریل 1934کو
کلیو لینڈ اوہیو ( Cleveland, Ohio ) میں پیدا ہوا۔ اس کاشمار اہم ادبی
نقادوں اور مارکسی سیاسی تھیورسٹس میں ہوتا ہے ۔ ادبی حلقوں میں معاصر
ثقافتی رجحانات کے تجزیاتی مطالعہ کے سلسلے میں اُس کے وقیع کام کو قدر کی
نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ فریڈرک جیمسن نے سال1954میں ہارورڈ کالج سے بی۔اے
کیا ،سال 1956میں امریکہ کی نجی شعبہ کی قدیم اور تاریخی جامعہ یل (Yale
University) سے ایم۔اے اور سال 1959میں اعلا تعلیم کی اسی مشہور جامعہ(
Yale Universityقائم شدہ :1701 (سے پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ ما بعد
جدیدیت کو اس نے منظم سر مایہ دارانہ نظام کے دباؤ کے تحت فکر و خیال کے
مختلف انداز ،ان کی شکل و صورت اورتصرف کی جانچ پرکھ سے تعبیر کیا۔سال
1985میں امریکہ کی نجی شعبہ کی جامعہ ’’ڈیوک یو نیورسٹی ‘‘(Duke University
) دُرہم شمالی کیلی فورنیا ( Durham, North Carolina)میں اپنے تقرر سے قبل
اس نے جامعہ یل ،ہارورڈ یو نیورسٹی اور کیلی فورنیا یو نیورسٹی میں تدریسی
خدمات انجا م دیں۔ اس نے کارل مارکس ،مشل فوکاں اور تھیو ڈور ایڈورنو (Theodor
W. Adorno) سے اثرات قبول کیے ۔جدید یت پر مبنی ادب اور سنیما ،مارکس ،فرائیڈ
،نطشے ،ہیڈیگر ،سارتر اور ززک (Slavoj Žižek) پر اس کی تحقیق بہت اہمیت کی
حامل ثابت ہوئی۔سال 1991میں جب ما بعد جدیدیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے
موضوع پر اس کی تصنیف ( Postmodernism, or, the Cultural Logic of Late
Capitalism)شائع ہوئی تو اس کے خیالات کو بہت پزیرائی ملی۔جدیدیت اور ما
بعد جدیدیت کے متعدد مفروضوں کے بارے میں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے
اس نے ان موضوعات دوبارہ غور خوض کی راہ دکھائی۔اس مقصد کے لیے اسنے
مارکسزم کے طریق کار پر از سر نو غور کرنے پر اصرار کیا ۔ اس نے سال
1923میں مارکسی تعلیمات کے فروغ کے لیے وجود میں آنے و لے جرمنی کے
فرینکفرٹ سکول سے وابستہ ادیبوں کے افکار اور تنقید ی تھیوری کا تجزیاتی
مطالعہ کیا۔ سال 1933میں فرینکفرٹ سکول کو نازی قوتوں نے بند کر دیا اور اس
کے بعد کو لمبیا یونیورسٹی(نیویارک ) نے اس کی میزبانی کی ۔ فرینکفرٹ سکول
سے وابستہ ادیبوں کے فکری سفر پر اپنے اشہبِ قلم کی جو لانیاں دکھاتے وقت
فرائیڈ اور مارکس کی دوبارہ ترجمانی اس کا نصب ا لعین رہا ۔اُس کی کتاب ما
نعد جدیدیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی اشاعت کے بعد قارئین کو مابعد جدیدیت
کے موضوع پرٹھوس اور موثر تجزیہ نگاری کے اعلا پائے کے نمونے پڑھنے کو
مِلے۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر گہری نظر رکھنے والے اس دانش ور نے
زمانہ حال کے غیر یقینی حالات پر اپنی تشویش کا بر ملا اظہار کیا ہے ۔
فرانس کا جدید ناول اور سنیما بھی اس کی دلچسپی کا محور رہا ۔اس نے ادب کے
وسیلے سے سیاسی اورسماجی عوامل کی ان نا گزیر ضروریات کی جانب توجہ مبذول
کرائی جو کسی معاشرے کی فکر ی منہاج کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔اس
نے واضح کیاکہ بھونڈی نقالی اور کورانہ تقلید کی مہلک روش زمانہ حال میں
ذوق سلیم سے محرومی ، تدبر و بصیرت کی تہی دامنی اور فکری افلاس کی دلیل ہے
۔ عصر ِ حاضر میں متعددعصبیتوں میں گھرے امریکی معاشرے میں کسی مارکسی
تھیورسٹ کا جنم لینا ایک حیران کن بات ہے۔ممتاز ماہر نفسیات اور مارکسی
تنقید کے ارتقا پر وسیع مطالعہ رکھنے والے نقاد حاجی حافظ محمد حیات نے سید
ضمیر جعفری کے ایک شعر کی پیروڈی کرتے ہوئے امریکی معاشرے میں مارکسسٹ
تھیوری کے ایک شارح اور مداح کے پیدا ہونے اور اس کے حلقۂ اثر کے وقوع پزیر
ہونے والی اس انہونی کے متعلق کہا تھا ۔
بڑی مدت سے مارکسی دانش ور پیدا نہیں ہوتا
جو ہوتا ہے وہ کسی امریکی کے گھر پیدا نہیں ہوتا
سال 1971میں مارکسزم اور ہئیت کے موضوع پر فریڈرک جیمسن کی کتاب (Marxism
and Form) شائع ہوئی۔اس کتاب میں بیسویں صدی کی جدلیاتی تھیوری کو زیر بحث
لایا گیاہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا اور یورپ
میں اس کے خیالات کو قدر کی نگا ہ سے دیکھا گیا ۔سال 1972میں
لسانیات،ساختیات اور روسی ہئیت پسندی کے موضوع پر اس کی کتاب ’’The
Prison-house of Language‘‘ منظر ِ عام پر آئی تو اس کی شہرت اور مقبولیت
میں بہت اضافہ ہوا ۔ علم و ادب کے ایوانوں میں اس کی بازگشت سنائی
دی۔سوئٹزر لینڈ کے ممتاز ماہر لسانیات سوسئیر (Ferdinand de Saussure) کے
ایک عہد سے وابستہ تصورات کا عمیق مطالعہ کرتے ہوئے فریڈرک جیمسن نے وقت
اور تاریخ کے تعلق کی وضاحت کی ۔ ساختیات اور روسی ہئیت پسندی کے موضوع
پرفریڈرک جیمسن کے تجزیات ایسے منفرد طریقِ کار کے مظہر ہیں جن میں بنیادی
مباحث کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔مصنف نے ان دونوں ادبی تحریکوں کو درپیش
مسائل و مضمرات پر نظر ڈالی ہے اور ان تحریکوں کے بارے میں متعدد مفروضوں
پر کھل کر لکھا ہے ۔ ادب میں عالمگیریت کے تصور کو فروغ دینے کے سلسلے میں
فریڈرک جیمسن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ایک مارکسی نقاد کی حیثیت سے اس
نے مارکسزم،سرمایہ دارانہ نظام،جدید یت اور ما بعدجدیدیت جیسے اہم موضوعات
پر جن چشم کشا صداقتوں کی جانب متوجہ کیا وہ قاری کے لیے منفرد تجربہ ثابت
ہوئیں۔ فریڈرک جیمسن نے اس تعلق اور ربط پر توجہ دی جو مابعد جدیدیت کے
مظاہر (جن میں فلم ،فن تعمیر،ادب،فنون لطیفہ اور مصوری شامل ہیں ۔) تاریخی
اور معاشی نشیب و فرازاور تہذیبی و ثقافتی اقدار کی نمو میں پایا جاتاہے ۔
فریڈرک جیمسن کے فکر و خیال کی دنیا پر جدیدیت کے غلبے کا عرصہ (1900-1945)
حاوی ہے ۔اس کی تنقیدی تحریروں میں سال 1945کے بعد کی عالمگیریت اور کثیر
القومی منظم انجمنوں کا تجزیہ بھی شامل ہے ۔ ایک فعال مارکسی نقاد کی حیثیت
سے فریڈرک جیمسن نے تخلیق ادب اور اس کے لا شعوری محرکات کو بنیادی اہمیت
کا حامل قرار دیا ۔اس کے خیالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ادب کی تفہیم کے
سلسلے میں تخلیق ادب کے پس منظر اور تاریخی حوالے اور سیاق و سباق کو نا
گزیر سمجھتا ہے۔مطالعہ ٔادب ،تاریخی پس منظر اور سیاق و سباق کو ملحوظ
رکھتے ہوئے فریڈرک جیمسن نے جیمز جو ائس(James Joyce) ،مارسل پروست (Marcel
Proust) ، سٹیفن ملارمے (Stéphane Mallarmé) ،گریٹوڈ سٹیفن(Gertrude Stein)
اور ولیم کارلوس ولیمز(William Carlos Williams) پر اپنے تنقیدی مضامین میں
بے لاگ تجزیہ کا اعلا معیار پیش کیا ہے ۔یہ مضامین جہاں اس کے دانش مندانہ
اسلوب کی عمدہ مثال ہیں وہاں ان کے مطالعہ سے اس کے زاویۂ نگاہ کو سمجھنے
میں بھی مدد ملتی ہے ۔اس کے علاوہ جرمن زبان کے ممتاز ادیبوں فرانز کافکا (
Franz Kafka)اور تھامس مان (Thomas Mann) کے بارے میں اس کے تجزیے بھی بہت
اہم ہیں ۔ معاشرتی زندگی میں ہوس ،حرص اور جبر کے مسموم اثرات کے بارے میں
اس کے تجزیاتی مضامین فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتے ہیں ۔ ا س کا شمار
جدید دور کے کثیر التصانیف ادیبوں میں ہوتا ہے۔ اس کی اہم تصانیف درج ذیل
ہیں:
Postmodernism: Or, the Cultural Logic of Late Capitalism (Poetics of
Social Forms)
Archaeologies of the Future: The Desire Called Utopia and Other Science
Fictions
The Prison-House of Language
The Political Unconscious: Narrative as a Socially Symbolic Act
(Routledge Classics)
Raymond Chandler: The Detections of Totality
Representing Capital: A Reading of Volume one
A Singular Modernity: Essay on the Ontology of the Present (Radical
Thinkers)
The Antinomies of Realism
Signatures of the Visible
Representing Capital
A Singular Modernity
The Antinomies of Realism
اپنے موضوعات کی غواصی کر کے فریڈرک جیمسن نے بڑی محنت اور ہمہ وقت مصروفیت
کے اعجاز سے حقائق کی گرہ کشائی کی ہے ۔ اپنے ماحول ،معاشرے ،سماجی اور
ثقافتی اقدار و روایات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعد وہ اپنے تجزیات
زیب قرطاس کرتا ہے ۔اُسے اپنی تخلیقی فعالیت اورجگر کاوی کی مظہر ہمہ وقت
کی مصروفیت کے ثمر بار ہونے کا پختہ یقین ہے ۔ اس نے ستائش اور صلے کی تمنا
سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم کوشعار بنایا۔سبک نکتہ چینیوں ،عیب
جوئی اورحرف گیری کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ حرفِ صداقت لکھتا رہا ۔ اپنی
عملی زندگی میں فریڈرک جیمسن کو مارکسسٹ تھیوری کے بارے میں اپنے نظریات کی
بنا پر اپنے ہم وطنوں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ امریکی مصنف ،
انگریزی زبان اور تخلیقی تحریروں کے انسٹرکٹر ڈیوڈ فاسٹر والس ( David
Foster Wallace)نے فریڈرک جیمسن کے اسلوب پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے
ہوئے لکھا ہے کہ فریڈرک جیمسن انگریز ی زبان کے ان نقادوں میں سے ایک ہے جن
کی نثر میں جاذبیت اور حسن و دل کشی عنقا ہے۔ان ادبی مجاوروں نے قدیم رسومِ
خانقاہی کو اپنا رکھا ہے ،ان کی رعونت کا یہ حال ہے کہ بھرتی کے مضامین کو
مرصع انداز میں پیش کر کے جعلی دھاک بٹھانے پر تُل جاتے ہیں ۔ان کی تحریریں
اصولِ زبان ،قواعدو انشا اور محاورات سے معرا ہیں اس پرطرفہ تماشا یہ کہ
طویل جملوں ،مشکل الفاظ اور پیچیدہ تراکیب کی بھر مار نے اِن کی نثر کو
بوجھل بنا دیا ہے ۔اسلوب میں الفاظ کے اسراف ، جنسی جنون کے طومار اور بے
سروپا مضامین کی بے دریغ یلغارنے زبان کو پشتارۂ اغلاط اور بازیچۂ اطفال
بنا دیا ہے ۔ ان مصنفین نے قارئین کو فکر وخیال کے بے خواب اور مقفل کواڑوں
میں محبوس کر دیا ۔اِن ادیبوں کا مبہم،غیر واضح اور بے ربط اسلوب نا قابلِ
فہم لہجوں سے لبریزاور تنوع سے محروم ہے،جس نے ادبی شان و شوکت کو پیوندِ
خاک کرنے کی جسارت کی ہے ۔ سال 1996 میں تخلیق ہونے والے انگریزی زبان کے
مقبول ظریفانہ ناول ’’Infinite Jest ‘‘ کے مصنف اور تیرہ ایوارڈ لینے والے
مصنفڈیوڈ فاسٹر والس(1962-2008)کے یہ تاثرات حقائق کے آئینہ دار نہیں بل کہ
یہ شاید ان دنوں لکھے گئے جب وہ شدید ذہنی دباوٗ اور اعصابی تناؤ کا شکار
تھا اور سکون آور ادویات کا کثرت سے استعما ل اس کا معمول تھا ۔اسی زمانے
میں وہ زندگی اور گردشِ ایام کی تلخی سے بیزار ہو گیا اور 12۔ستمبر 2008کی
شام اس نے اپنے کمرے کے شہتیر سے لٹک کر خود کشی کر لی اور زینۂ ہستی سے
اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا ۔
فریڈرک جیمسن کے اسلوب میں مارکسی ہیگلین فلسفے کی تفہیم و تجزیہ کا جو
ارفع معیار پایا جاتا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔مارکسزم اور ہئیت
کے موضوع پر اس کے خیالات اس کے عمیق مطالعہ کے مظہر ہیں ۔ بیسویں صدی کی
جدلیاتی تھیوریزکے موضوع پر اس کی تصنیف ’’Marxism and Form‘‘ میں فریڈرک
جیمسن نے جن مشاہیر کے اسلوب کا تجزیہ کیا ہے ان میں ادورنو( Theodor W.
Adorno) ، والٹر بنجمن (Walter Benjamin,) ،ارنسٹ بلوخ (Ernst Bloch)،جارج
لوکاچ(Georg Lukacs )، فریڈرک پولاچ (Friedrich Pollock)، ہر برٹ مارکیوز
(Herbert Marcuse) اور سارتر (Jean-Paul Sartre)شامل ہیں۔ ،ریاست ہائے
متحدہ امریکہ میں علم وادب کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی
ہے کہ وہاں نظریاتی اعتبار سے بائیں باز وسے تعلق رکھنے والے دانشور کم کم
دکھائی دیتے ہیں۔اس مکتبہ ٔ فکر کے جو دانش ور مختلف اوقات میں اپنے افکار
کی جو لانیاں دکھاتے رہے ہیں اُن میں سے اکثر کا تعلق فرینکفرٹ سکول سے رہا
ہے اور ان مصنفین میں سے اکثر کے اسلوب پر ہیگل کے اثرات نمایاں ہیں۔امریکہ
کے علم و ادب کے ایوانوں میں طویل عرصہ تک جرمن سوشلسٹ فلسفی ادورنو (
Theodor W. Adorno) اور جرمن فلسفی اور ماہر عمرانیات ہورک ہائمر
(horkheimer) کے افکار کی بازگشت سنائی دیتی رہی ۔فریڈرک جیمسن کی علمی و
ادبی خدمات کو یورپ میں بالعموم قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اہم
جامعات میں اس کے توسیع لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔اس کی تحقیقی
کامرانیوں کے اعتراف میں اسے جن اعزازات سے نوازاگیا ان کی تفصیل درج ذیل
ہے :
1۔ حکومت ناروے کا ’’ہال برگ انعام‘‘ (Holberg Prize) 2008 ۔ اس ایوارڈ کا
آغازحکومت ناروے نے سال 2004میں کیا تھا۔
2۔ایم۔ایل۔اے ) ،لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ( Modern Language Association,
Lifetime Achievement Award)2011
ثقافت اور معیشت کے موضوع پر فریڈرک جیمسن کے فکر پرورخیالات سے جمود کا
خاتمہ ہوا اور افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرتے ہوئے
جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے کی راہ ہموار ہو گئی۔ما بعد
جدیدیت ،ثقافت اور معیشت کے موضوع پر اُس نے لکھا ہے :
,,The becoming cultural of the economic,and the becoming economic of the
cultural,has often been identified as one of the features that
characterizes what is now widely known as postmodernity. In any case it
has fundamental consequences for the status of mass culture as such.,,
(1)
یورپ میں صنعتوں کی ترقی نے معاشرتی زندگی کے معمولات کی کایا پلٹ دی۔
فریڈرک جیمسن کی تحریروں میں نو آبادیاتی دور ،پس نو آبادیاتی دور اور پس
صنعتی دور کے حولے سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ان میں سماجی تحقیق
اور تجزیہ کا عنصر قابل توجہ ہے ۔ فریڈرک جیمسن نے مختلف ممالک میں صنعتی
ترقی کے بعد رونما ہونے والے حالات و واقعات کا عمیق مطالعہ کیااور وہ اس
نتیجے ہر پہنچا کہ صنعتی ترقی کے بعد معاشرتی زندگی کے حالات مکمل طور پر
بدل گئے ہیں ،احساسِ مروّت عنقا ہونے لگا ہے اور زندگی مشینوں میں ڈھلنے
لگی ہے ۔جن ممالک میں صنعتی ترقی اوجِ کما ل تک پہنچی وہاں سرمایہ دارانہ
نظام نے پُورے معاشرتی ڈھانچے کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اوربندۂ مزدور کے
اوقات اس قدر تلخ ہو گئے کہ ان کی زندگی اجیرن ہو گئی۔پس صنعتی دورکی مسلط
کردہ سفاک ظلمتوں اور مہیب سناٹوں کے مسموم اثرات کو کافور کرنے کے سلسلے
میں وہ ہیگل کے تصورات کو زادِ راہ بناتا ہے ۔اُس کا خیال ہے کہ سرمایہ
دارانہ نظام کے اسیر بے بس و لاچار محنت کشوں کو سمے کے سم کے ثمراور اس کے
مسموم اثرات سے آگاہ کرنے کے سلسلے میں ہیگل کے تصورات افادیت سے لبریز ہیں
۔ مارکسزم ،ہئیت اور ساختیات کے موضوع پر فلسفیانہ تحقیق و تنقید کا وہ
شعبہ جس سے انگریزی ادب کے قارئین طویل عرصے سے بے خبر تھے فریڈرک جیمسن نے
اسے سادہ ،سلیس اور عام فہم انداز میں پیش کیا۔ قاری کی روح ،قلب اور ذہن
پر گہرے اور دُور رس اثرات مرتب کرنے والے اِن فکر پرور اور خیال افروز
مباحث سے فریڈرک جیمسن نے عصری آ گہی کو پروان چڑھانے میں اہم کردا رادا
کیا ۔اس نے خلوص ،دردمندی اور زبردست اثر آفرینی سے لبریز جو طرز فغاں
اپنائی کہ گلشنِ ہستی میں اُسی کو طرزِ ادا کا درجہ حاصل ہوا ۔ فرانسیسی
مارکسی فلسفی لوئیس التھسر( Louis Althusser) کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ
کرتے ہوئے اس نے اپنا موقف نہایت جرأت سے پیش کیا ہے ۔اس نے اس خیال کو
مستر د کر دیا کہ سیاسی سیاق و سباق سے الگ رہتے ہوئے تخلیق ادب کا سلسلہ
جاری رکھا جا سکتا ہے ۔ادبی تحریروں کا دامن سیاسی ،سماجی اور معاشرتی
عوامل کے ترجمان حقیقی شعو ر کے حامل منابع سے لبریز ہوتا ہے ۔اس نے
ترجمانی کی اصلیت پر غور کرتے ہوئے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیاکہ جہاں تک
ادب پاروں کی تفہیم کا تعلق ہے ان کی صد رنگی ان منفرد نظریات کی مر ہون
منت ہے جو ہمیں ثقافت کی ترجمان روایات سے میراث کی صورت میں ملتی ہیں۔ اس
نے انیسویں اور بیسویں صدی کے ادب اور ان کے متن کی اپنی تھیوری کی کسوٹی
پر جانچ پر کھ کی ۔ اس نے فرانسیسی ناول نگار بالزاک ( Honoré de Balzac)،
بر طانوی ناول نگار گزنگ (George Gissing) اور کونریڈ ( Joseph Conrad )کے
تصورات کے بارے میں نئے مباحث کا آغاز کیا ۔ روسی ہئیت پسندی کے بارے میں
فریڈرک جیمسن نے لکھا ہے :
,,Here,if anywhere,the Althusserian reminder of the need to respect the
relative autonomy of the various structural levels is timely;an dit
would seem to methat the related injuction to build a hierarchical model
in which the various levels stand in determinate relations of domination
or subordination to one another can be fulfilled,in the area of literary
and dcultural analysis,by a kind of fiction of the process whereby they
are generated. So the Russian Formalists showed us how to construct a
picture of the emergence of a given complex form in which a certain
feature is seen as being generated in order to compensate for and
rectify a structural lack at some lower or earlier level of
production.,,(2)
گزشتہ چار عشروں سے دنیا بھر کے دانش ور فریڈرک جیمسن کے نتیجہ خیز اور ثمر
بار تنقیدی نظریات سے مسلسل مستفید ہو رہے ہیں۔ اس نے حقیقت نگاری سے
جدیدیت اور ما بعد جدیدت تک اپنے فکر ی سفر کی روداد جس خلوص سے بیان کی ہے
وہ قاری کو افکار کے جہان تازہ میں پہنچا دیتی ہے ۔تجارتی اور صنعتی نظام
کے ادب اور معاشرت پر مرتب ہونے والے اثرات پر اس کے تاثرات بہت اہم ہیں ۔
وسیع بنیادوں پر کیے گئے اس کے تجزیات سے مخصوص ادبی تھیوری کو نئی جہات
میسر آئیں۔ایک موثر ،فعال اور مستعد نقاد کی حیثیت سے فریڈرک جیمسن نے ادبی
جمود کے خاتمے اور جہد و عمل کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا
۔امریکہ میں انگریزی زبان اور ادبیات سے دلچسپی رکھنے والے ذوق ِ سلیم سے
متمتع قارئین کے لیے فریڈرک جیمسن کے خیالات تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے
۔ مارکسزم اور ہئیت جیسے اہم موضوعات کی تفہیم کے سلسلے میں فریڈرک جیمسن
کے خیالات قارئینِ ادب کے لیے ایک منفرد تجربہ ثابت ہوئے جنھیں سدا خضر راہ
کا درجہ حاصل رہا ہے ۔اُس نے ادبی تنقید،فنون لطیفہ اور ان سے متعلق تاریخی
و ثقافتی حالات سے متعلق تجزیات کوایسے دلکش خطوط اور موثر لائحہ ٔ عمل سے
آ شنا کیا جسے مستقبل میں ادبی تنقید کے روشنی کا مینا ر ثابت ہو گا۔
مآخذ
Duke University,Durham ,1998,Page,60. The culture of Globalization,
1.Fredric Jameson:
2. Fredric Jameson: :The Political Unconscious,Routledge,London,1983,
Page ,29- |