تلور کا شکار ۔۔۔۔۔ اصل حقیقت

عرب شہزداے جب بہی شکار پے آتے ہین تو اکیلے کیوں آتے ہین۔ فیملی ساتھ کیوں نہیں آتی۔

اس کی کہانی کچھ ایسے ہے۔

ان کو تلور کا گوشت یا ھرن کا گوشت پسند نہیں۔ عرب شہزادے جب بہی آتے ہیں تو کسی محل کے بجاء دور کھلے آسماں کے نیچے کیوں خیمے لگاتے ہیں۔ ظھر کے بعد شکار شروع کیا جاتا ہے۔ مغرب سے پہلے شکار ختم کیا جاتا ہے۔ مغرب کی نماز باجماعت پڑھ کر کھانہ پکانہ شروع کیا جاتا ہے۔ جس میں باربی کیو، کڑائی، اسٹیم روسٹ وغیرہ بنایا جاتا ہے۔ عشاء کی نماز سے پہلے کھانہ کھایہ جاتا ہے۔ عشاء کی نماز پڑھ کر شہزادے اپنے خیموں کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں پر حکومت پاکستان مقامی انتظامیہ ان کی نفسانی حوص پوری کرنے کے لیے مقامی لڑکیاں یعنے پاکستانی کمسن عمر کی لڑکیاں ۱۴ ۱۵ سال کی عمر کی پیش کی جاتی ہیں۔ شہزادوں کو لڑکیاں پیش کرنے سے پہلے ان کو تربیت دی جاتی ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہین آئے۔

اندر کی بات سواء اللہ کے کوعی نہیں جانتا۔ ان لڑکیوں سے کیا ہوتا ہوگا۔ میجر صاحب نے بتایہ میں نے اس خیموں سے ایسی آوازیں سنی جو کسی عقوبت خانے سے آتی ہیں۔ اس تجربے کو بتاتے ہوئے میجر صاحب کے آنکھیں بھر آئیں۔ خود سوچیں کے جہاں فوجی کی ھمت جواب دے جائے وھاں کتنہ ظلم ہوتا ہوگا۔ بربریت کیسے رقص کرتی ہوگی۔ جس کے شواھد لاڑکانہ شیخ زید اسپتال کے ایمرجنسی کے ڈاکٹر شواھد ہیں بتاتے ہیں کہ ایمرجنسی وہ لڑکیاں آتی ہیں کچھ دن ہسپتال میں گذارتی ہیں۔

میرا پوری قوم سے سوال ہے کہ کیا ھم سارے پاکستانی دلال ہیں۔ کیا ھمارا ملک ھیرامنڈی ہے۔ ھمارا ملک اس لیے آزاد ہوا ہے۔ چند پیسون کہ عوض ھم اپنی لڑکیاں بیچتے ہیں۔ کس کام کا ایٹم۔قصور ان شہزادوں کا نہیں قصور ھمارا اپنا ہے۔۔۔۔۔ ذرا سوچیں۔
 

abdul wasay
About the Author: abdul wasay Read More Articles by abdul wasay: 6 Articles with 7019 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.