کل کی فکر

احمد ندیم قاسمی کا ایک ایسا شعر جو کہ جب جب نظر کے سامنے سے گزرا ہمیشہ زندگی گزارنے کا ایک نیا جذبہ پیدا کر گیا۔
اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اسکی صبحِ عروج تھی وہ میرا وقتِ زوال تھا

اس شعر کے مفہوم پر اگر غور کیا جائے تو اس میں آج کے انسان کی زندگی کا حال با خوبی بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے لوگوں سے ہمارا سامنا ہوتا رہتا ہے جو کہ اپنے آنے والے کل کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔ کل بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، آنے والا کل اور گزرا ہواکل۔ گزرے ہوئے کل کے لئے پریشان نہیں ہوا جا سکتا۔ انسان ہمیشہ لالچ کا شکار رہتا ہے اور کبھی کسی ایک چیز پر اکتفا نہیں کرتا۔ اگرآج ہمارے پاس کچھ اچھا ہوگا تو ہم کوشش کریں گے کہ کل بھی سب ایسا ہو یا اس سے بھی اچھا ہو۔ ایسے میں ہم کیا کھوتے ہیں اور کیا پاتے ہیں؟ اس میں ہم اپنا آج کھوتے ہیں اور پاتے صرف مایوسی ہی ہیں۔ انسان کی مثال اس بھینس جیسی ہو گئی ہے جو سارا دن جنگل میں گھاس کھاتی اور شام کو جب پیٹ بھر جاتا تو اس فکر میں لگ جاتی کہ پتہ نہیں مجھے کل بھی اسی طرح گھاس ملے گی یا نہیں۔ اسی فکر میں وہ ساری رات بغیر سوئے گزار دیتی اور اگلے دن جب جنگل جاتی تو وہاں اﷲ اس کے لئے پھر گھاس اگا دیتا۔ اسی طرح انسان ہے، انسان کو اگر دن میں اﷲ کوئی نعمت دیتا ہے تو وہ آنے والے کل کے لئے بھی پریشان ہوجاتا ہے۔کل کی فکر کرنا بری بات نہیں۔ دنیا کے کامیاب لوگوں کو دیکھا جائے تو ان میں سے بھی اکثریت وہ ملے گی جنہوں نے اپنے کل کی فکر کی۔ یہاں صرف ان کامیاب لوگوں کا ذکر نہیں ہو رہا جن کے پاس پہاڑ جتنی دولت ہے۔ دنیا میں وہ انسان بھی کامیاب ہے جس کے پاس دولت بے شک نہیں ہے مگر دل کا سکون ضرور ہے اور یہ ایسا خزانہ ہے جو کہ ہر چیز پر بھاری ہے۔ غلط فہمی ہے آج کی کہ دولت مند انسان کامیاب ہے۔ کبھی دولت مند انسان کی پریشانیاں دیکھیں تو ایک عام آدمی اپنے آپ کو کسی بادشاہ سے کم نہ سمجھے گا۔ انسان ہر روز اپنے رب کی کائنات کی فراخی اور رازق ہونے کا تجربہ کرتا ہے لیکس اس کا دل ایمان نہیں پکڑتا۔ انسان چونکہ دنیاوی چیزوں میں اس قدر گم گیا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ اسے یہ سب دینے والی ذات اﷲ ہی کی ہے۔ لیکن جب اس سے یہ سب چھن جاتا ہے تو اسے وہی اﷲ یادآجاتا ہے۔ یہاں حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا تذکرہ ضروری ہے۔ آپ کو اﷲ نے70 سال بہت مال و دولت سے نوازا اور پھرسات سال تک آزمائش میں مبتلا رکھا، مال و دولت چھن گیا، جسم گل گیا، بیوی نے اﷲ سے دعا کے لیے کہا۔انھوں نے یہی کہا کہ اﷲ نے مجھے 70 سال تک اپنی نعمتوں سے نوازا، محض سات برس کی تکلیف پر ناشکری نہیں کر نا چاہتا۔ اﷲ انسان کو روزانہ رزق دیتا ہے ہونا تو چاہیئے کہ انسان اﷲ کی ہر نعمت پر شکر ادا کرے مگر جس انسان کو اس چیز کا غرور ہوتا ہے کہ اس نے جو بھی حاصل کیا ہے وہ سب اس نے خود ہی حاصل کیا۔ ہاں اس میں اس کی محنت ضرور ہوتی ہے مگر اﷲ کی رضا بھی کسی چیز کا نام ہے!اس کے بغیرانسان چاہے ایڑی چوٹی کا ذور لگا لے مگر کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اﷲ کی ذات جو کہ کیڑوں کو پتھروں میں خوراک دیتا ہے وہ انسان کو بھوکا کیسے رہنے دے سکتا ہے؟ اﷲ کے دیے ہوئے پہ شکر کرنا اور آنے والے کل کے لئے اسی اﷲ سے دعا کرنا ایک سچے مومن کی نشانی ہے۔ہم سب کی زندگی اکثر فرضی اندیشوں سے لرزا رہتی ہے۔ ایسا ہی واقعی ایک انڈیا کے اخبار نے بیان کیا جو کہ ایک طالبہ کا تھا۔طالبہ نے خودکشی کرلی۔ اس کے گھر والوں نے بتایا کہ وہ اپنے فیل ہونے کے اندیشے سے بہت زیادہ خوف زدہ تھی اور بدنامی سے بچنا چاہتی تھی۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جب امتحان کا نتیجہ شایع ہو ا تو وہ طالبہ پاس تھی۔ تجربہ و تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اکثر اندیشے محض مفروضے ثابت ہوتے ہیں اور کبھی حقیقت نہیں بن پاتے۔اب یہاں اسی کل کے ڈر نے ایک طالبہ کی جان لے لی۔

حضرت سعید بن مسیب نے اپنی بیٹی کی جب شادی کی تو شادی کر کے جس آپ کی بیٹی اپنے خاوند کے ہمراہ اس کے گھر گئی تو وہاں ایک روٹی کا حصہ دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیوں پڑا ہے۔ جس پہ جواب ملا کہ صبح کے کھانے کے لئے۔ اس پر وہ کہنے لگی کہ میں ایک ایسے انسان کے ساتھ نہیں رہوں گی کہ جس کو اپنے اﷲ پر اتنا بھی یقین نہیں کہ وہ اس کو صبح کھانا دے گا۔ یہ سن کر وہ شخص فوراََ گیا اور وہ روٹی صدقہ میں دے آیا۔ ہماری زندگی میں بے شمار معاملات کے ساتھ کئی اندیشے جڑے ہوتے ہیں۔ ایک حساس شخص کو یہ خیال رہتا ہے کہ اگر اس کی بیٹی بن بیاہی رہ گئی تو کیا ہوگا؟، اگر نوکری نہ ملی تو گذارا کیسے ہوگا؟بچے نافرمان نکل گئے تو کیا کریں گے ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اﷲ نے کسی کو بیٹی عطا کی ہے تو اس کا نصیب بھی وہی اﷲ لکھنے والا ہے۔ جہاں تک سوال ہے نوکری کا۔ ملازمت ہر انسان کو ملتی ہے۔ مگر انسان اپنی انا کو لئے ہمیشہ روتا رہتا ہے۔ اولاد بھی اﷲ کی دین ہے۔ اولاد جب والدین کی زندگی میں آجاتی ہے تو اس کے بعدوالدین اولاد کی تربیت میں لگ جاتے ہیں۔اس معاملے میں ایک پرندہ ابابیل انسان پر سبقت لے جاتا ہے۔ اس کا گھونسلا کنویں کے اندر ہوتا ہے۔ اگر اس میں سے اس کا بچہ گر جائے تو اس کا بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے جب بچہ انڈے سے باہرآتا ہے تو اسے اس کی مشق کروائی جاتی ہے۔اسی طرح انسان کو بھی یہ عمل اپنے بچوں کے ساتھ کرنا چاہئے کہ اگر اس مقام پر جاتا ہے تو اس کے لئے اس طرح محنت کرنا ہو گی۔آٓخری اصول یہ سمجھ لیں کہ کل کی فکر میں اپنا آج تباہ کرنا بے وقوفی ہے۔آج کی زندگی حقیقت ہے اورآنے والا کل ایک مفروضہ۔ چنانچہ آنے والے کل کے لئے آج جو کرسکتے ہیں کرلیں اور پھر کل کو بھول جائیں کیونکہ آج کا دن
یقین ہے اور کل کی شام ایک گمان۔

Khurram Anique
About the Author: Khurram Anique Read More Articles by Khurram Anique: 9 Articles with 7320 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.