موٹرسائیکل وبالِ جان

پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج کے با وجود الیکشن اصلاحات بل 2017منظور کر لیا گیا۔ اس سے قبل یہ بل سینٹ بھی منظور کرچکی ، صدر مملکت نے بل پر اپنے ستخط مبارک فرمادیے اور یہ قانون پاکستان کے آئین کا حصہ بن گیا۔لندن سے نون لیگیوں کو شاباس کے ٹیوٹ کے ساتھ درپردہ مخالفین کے لیے پیغام تھا’ روک سکتے ہو تو روک لو‘، اب نا اہل وزیر اعظم جو اپنی نا اہلی کے باعث اپنی جماعت مسلم لیگ نواز کی صدارت کا استحقاق بھی کھو چکے تھے پاکستان کے قانون کے آرٹیکل 5-1کے ختم ہوجانے کے بعد قانونی طور پر یہ حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ نا اہل ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر ہوں ۔ اس قانون کے پاس ہوجانے کے بعد آج اس پر عمل درآمد بڑی دھوم دھام سے شعر و شاعری کے ماحول میں ہوا۔ کئی دنوں کے بعد میاں صاحب اپنی بیگم کی بیماری کا غم اور اپنی نا اہلی کو افسوس بھلا کر بہت خوعش نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ناراض ہیں، ہونا بھی چاہیے تھا، جو شعر انہوں نے پڑھا نہیں معلوم عرفان صدیقی صاحب نے کس کو نشانہ بنانے کے لیے منتخب کیا فرمایا میاں صاحب نے ’’نااہل کمینے کی خوشامد سے اگر جنت بھی ملے تو منظور نہ کرے‘۔ کسے جنت ملی، کون دینا چاہتا تھا جنت، کیا وزارت اعظمی کو جنت سے تشبیح دی گی ہے۔ نہیں معلوم، چھوٹے میاں صاحب بھی بہت خوش تھے لیکن انہیں آج حبیب جالب یاد نہیں آئے۔ وہ زیادہ تر کپتان پر گولا باری کرتے رہے، انہوں نے نئے مشیروں سے ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا ، وہ نئے مشیر کون ہیں؟

غور طلب بات یہ ہے کہ اس قدر اجلت اور بد حواسی کے عالم میں اس قانون کو سینٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وجہ صرف اور صرف ایک شخص کو اپنے سر کا تاج بنائے رکھنا ۔ کیوں کہ اسمبلی میں اکثریت ہے اورسینٹ میں ہیرا پھیری کر کے بل پاس کرانے میں حکومت کامیاب ہوگئی ۔ قومی سطح پر سوچا جائے ، ملک اور قوم کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے تجزیہ کیا جائے کہ آخر حکمرانوں نے یہ ہیرا پھیری کیوں کی؟ وزارت اعظمیٰ سے آپ کو نا اہل قراردے دیا گیا، آپ پلک جھپکتے میں آسمان سے زمین پر آگرے، کوئی آسمان ٹوٹ گیا، قیامت آگئی، پاکستان سے دنیا نے تعلق ختم کر لیا، دنیا کے کسی ملک سے آواز آئی کہ میاں نواز شریف کے ساتھ ظلم ہوا، انہیں نا اہل قرار دے دیا گیا اس لیے ہم پاکستان سے تعلقات منقطع کرتے ہیں ، نہیں کہیں سے بھی دھیمی آواز بھی نہیں آئی، آپ نے اپنے پسند کے آدمی کو اپنا جانشین بنا دیا، آپ کے صدر نے خوشی خوشی اس سے حلف بھی لے لیا، کابینہ تشکیل پائی اور ملک کا نظام اسی طرح چل پڑا۔ لیکن آپ کے دل میں نا اہلی کی جو چنگارجلی تھی اس کی آگ میں آپ جلتے بھنتے نظر آرہے ہیں۔سیاست اور اقتدار کیسی بری بیماری ہے کہ اپنی عزیز ترین شہ کو جسے کینسر جیسا موزی مرض ہے میاں صاحب لندن میں چھوڑ چھوڑ سیاسی دنگل سجانے میں خوش ہیں۔میاں صاحب اور ان کی پارٹی کے اطوار بتا رہے ہیں کہ یہ پارٹی نہ صرف خود بلکہ پاکستان کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کے در پہ ہے۔لگتا ہے کہ یہ کسی بڑی مصیبت کو اپنے گلے میں ڈالنے کی تیاریاں کر رہے ہو۔ لندن میں آپ کا قیام ، مختلف نہ پسندیدہ لوگوں سے میل ملاقات، ضمنی انتخابات میں پوری پارٹی میں کوئی اہل نظر نہیں آیا ، بیگم کو بیماری کی حالت میں گھسیٹنااور اب جب پارٹی کی صدارت جاتی نظر آئی تو یہ گیم کھیلا گیا کہ کیوں نہ آئین میں ہی تبدیلی کردی جائے، تاکے اپوزیشن کا منہ بند ہوجائے، کوئی کچھ نہ کہہ سکے، اب اس آئینی ترمیم سے کیا ہوگا ، میاں صاحب پارٹی کی صدارت پر قانونی طور پر فائز ہوگے ۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہیں تو کیا ان کے احکامات چلتے ہیں، ان کی پالیسیوں پر عمل ہوتا ہے، دیکھا نہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مریکہ جانے سے قبل قبلہ وزیر اعظم نے نا اہل وزیر اعظم کی خدمات میں لندن جا کر حاضری دی اور اجاذت چاہی کہ حضور آپ کی اجاذت ہوتو بندہ امریکہ چلا جائے، اجازت ملی تو قبلہ وزیر اعظم امریکہ تشریف لے گئے۔ جب ملک کی وزارت اعظمی آپ کے کرسی پر نہ ہونے کے باوجود آپ کے احکامات کی تابع ہے تو پارٹی کی صدارت بھی آپ کے ہی تابع رہنی تھی۔ راتوں رات قانون میں ترمیم کر کے آپ نے ملک کی تاریخ میں ایک نئی مثال قائم کی جو ہمیشہ آپ کے کارنامہ کہلائے گی۔ ایسا کر کے آپ نے اپنے آپ کو اور نیچے گرالیا، ظاہری جیت آپ کی ہوئی لیکن یہ عمل کوئی قابل تعریف نہیں ۔ آج آپ نا اہل ہوئے،پارٹی صدارت پر اس قانون کی وجہ سے پھر سے صدر بن گے کل کوئی اور بھی آپ کی اس بیہودہ حرکت کا فائدہ اٹھائے گا وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ آپ نے کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی۔
نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے آئین میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے جس کے بعد کوئی بھی نااہل شخص جماعت کا صدر بن سکے گا۔ اجلت اور بے صبری کی انتہا دیکھیں کہ کل اسمبلی نے آئین میں ترمیم منظور کی، آج صدر مملکت نے دستخط کیے اور آج پارٹی کے جنرل کونسل اجلاس نے نواز شریف کوپارٹی کا صدر منتخب کر لیا۔ چلیے آپ صدر بن گئے، کیا نااہلی کی صورت میں آپ پارٹی کے کرتا دھرتا نہیں تھے، آپ کے وزیروں کی اوقات آپ نے دیکھ لی کیا ہے؟ رینجرز جو آپ کے وزیر داخلہ کے ماتحت ہے اس نے اپنے باس کو احتساب عدالت کے گیٹ پر ایسے روکا جیسے وہ چلتا پھرتا معمولی آدمی ہو۔ خالی بیان دینے سے کیا فائدہ کہ کٹھ پتلی بننے سے بہتر ہے مستعفی ہوجاؤں ، بیان کافی نہیں ، اتنے غیور ہو تو فوری مستعفی ہوجاتے۔ چھوڑدیتے وزارت ۔ لیکن ہائے ’مجھے کیوں نکالا‘‘، تم نے بھی یہی کہنا ہے تھا کہ ’میں نے کیوں استعفیٰ دیا‘ نون لیگ کے اندر کیا حالات ہیں اس کا اندازہ رعنا ثناء اللہ کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہتے ہیں ’’بطور وزیر داخلہ چودہدری نثار کا بھی یہی حال تھا جو احسن اقبال کا ہے‘‘۔ یہ لیجئے رعنا ثنا ء اللہ نے موقع کا فائدہ اٹھا یا اور پارٹی کے دونوں سینئر اور معتدل رہنماؤں کو ایک ہی لکڑی سے ہانک دیا۔ چودھری نثار نے تو اپنے ترجمان کے توسط سے رعنا ثناء کو جواب بھجوا دیا کہ ’کسی شخص کو خود ساختہ بیانات کی ضرورت نہیں‘۔ یہ تو ایک مثال ہے جو فوری طور پر سامنے آئی ورنہ نون لیگ میں ٹوٹ پھوٹ، تناؤ، کھچاو، رسہ کشی، سرد مہری، دیکھو پھر فیصلہ کرو کی پالیسی پر بہت سے رہنما عمل پیرا ہیں۔ نواز شریف پر فرد جرم موخر کر دی گئی ہے ، حسین اور حسن کی گرفتاری کا حکم عدالت نے دے دیا ہے جب کہ مریم نواز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کیے جاچکے ہیں۔ نواز شریف کے بعد کس کا نمبر آتا ہے ، یہ وقت بتائے گا لیکن احتساب کا پہیہ نواز شریف اور اس کی فیملی تک رکے گا نہیں، یہ اور بھی بہت سوں کو اپنے نیچے روندڈالے گا۔ جو لوگ اس کے نیچے آسکتے ہیں انہیں اس کی بھنک محسوس ہوچکی ہے انہوں نے دبے دبے الفاظ میں چیغ پکار، جوڑ توڑ، مک مکا، این آر او کی کوششیں شروع بھی کردی ہیں، ہاتھ پیر مار رہے ہیں کہ کسی طرح مک مکا ہوجائے اور احتساب کے ہوا کا جھونکا یہیں رک جائے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، بقول ڈاکٹر شاہدمسعود دبڑ دھونس ہوتا نظر آرہا ہے۔ قانون میں موجودہ تبدیلی کے خلاف بعض رہنماؤں نے عدالت جانے کا اعلان بھی کیا ہے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ترمیم نہیں کی جاسکتی بہت ممکن ہے کہ اعلیٰ عدالت نون لیگ کے اس اقدام کو دبڑ دھونس کر دے ۔ نون لیگ پھر کیا کرے گی؟ ویسے گھیرا تنگ سے تنگ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔خیریت و عافیت اسی میں ہے کہ پاکستان کے امیروں جنہوں نے بیرون ملک پاکستان کی دولت غیرقانونی طور پر جمع کی ہوئی ہے اسے غیر مشروط طور پر واپس ملک میں لے آؤ، عدالت سے معافی طلب کریں، قوم سے معزرت چاہیں، سیاست سے کنارہ کشی اختیار کریں، اپنی اولادوں کو آزادانہ طور پر سیاست کر نے دیں ۔آخر میں ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے اس مزاحیہ فقروں پر کالم کا اختتام کرتا ہے لوں۔’’آنے والی دو ترمیمیں: اگر نواز شریف کو جیل ہوئی تو جیل کو وزیر اعظم ہاوس میں تبدیل کیا جاسکے گا۔ اگر نواز شریف فوت ہوگئے تو انہیں قبر سے بطور وزیر اعظم اختیار ات استعمال کرنے کا پورا پورا حق ہوگا‘‘۔

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 57923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.