یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ماضی کی حکومتوں نے
اس ملک کو اغیار کی جنگوں میں جھونکے رکھا سانحہ نائن الیون کا انتقام لینے
کے لیے جب امریکی حکومت نے افغا نستان پر اپنی توپوں کا رخ کرتے ہوئے
چڑھائی کی تو اس وقت پاکستان کی حکومت کو اس انتقامی کارروائی میں امریکا
کاساتھ دینے کااعلان نہیں کرنا چاہیے تھا ،یہ ہی وہ فیصلہ ہے جس نے پاکستان
کی خودمختاری کو داؤ پر لگادیا،جس کی قیمت ہم چند لاکھ ڈالروں کے عوض
ہزاروں جانوں کی قربانیوں کی صورت میں آج تک چکارہے ہیں۔ دیکھاجائے تواس
وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ایک نائن الیون کے انتقامی
معاملے میں امریکا کے لیے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرنے کو ہی
موردالزام نہ ٹھہرایا جائے بلکہ اس بات کو بھی یاد رکھا جائے کہ پاکستان
میں قائم ہونے والی تمام ہی حکومتوں نے افغانستان کے امن کے لیے ان کی
حکومتوں کا بھرپور ساتھ بھی دیا ہے ،1979میں جب سوویت یونین نے افغانستان
پر حملہ کیا تو جنگی ماحول کے دوران 25لاکھ سے زائد افغانیوں نے پاکستان کے
سرحدی علاقوں میں پناہ حاصل کی، پاکستان نے افغانستان سے محبت اور وعدے کے
مطابق اپنے ملک کے دروازے لاکھوں افغانیوں کے لیے کھول دیئے تھے۔دونوں
ملکوں کی اسقدر قربانیوں کے باوجود بھی ان ممالک میں محبت اور بھائی چارے
کی فضاء دشمنوں کو راس نہیں آئی ۔ کیونکہ بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے
اس نے اپنی خفیہ ایجنسی را کی کی مدد سے افغانستان کی سرزمین کو استعمال
کرنا شروع کیا اور وہ یہاں سے بیٹھ کر پاکستان کے امن کو ثبوتاز کرنے
لگا۔جس نے پاکستان میں دہشت گردی کی ایسی فضاء کو فروغ دیا جس کے بارود کی
مہک ابھی تک اس ملک میں موجود ہے ،جغرافیائی لحاظ سے یہ معاملات ایسے ہیں
کہ پاکستان اور افغانستان کا استحکام ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے ، ایسے
میں افغانستان کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ دینی
والی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے اڈوں کاخاتمہ کرے اور یہ کہ افغانستان اپنی
سرزمین کو پاکستان کے امن کو غیر مستحکم کرنے والوں سے پاک کرے ۔ جبکہ
پاکستان کے پاس اس طرح کا کوئی مقام یا ملک نہیں ہے جس پر رہتے ہوئے وہ
بھارت کے ناپاک ارادوں کا جواب اسی انداز میں دے سکے ۔دیکھا جائے تو آج کا
افغانستان اب ماضی کی نسبت قدرے مختلف ہے ،افغانستان کی قوم میں پاکستان سے
محبت کاجو جزبہ موجود ہے اسے موجودہ حکمرانوں کے تلخ رویوں کے ساتھ
جوڑناکسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے بھلاہمیں افغانستان کی قیادت سے کتنا ہی
اختلاف ہو مگر افغانستان کی عوام میں جو جزبہ حب الوطنی اور بہادری سے جینے
کا عزم ہے وہ قابل ستائش ہے سخت مشکلات کے باوجود بھی افغانستان کی عوام نے
کبھی اپنے حوصلوں کو نہیں چھوڑا یہ ہی وہ سخت جان قوم کی نشانی تھی کہ
انہوں نے 2010کو دنیا کے سپر پاور امریکا اور نیٹوافواج کو گھٹنے ٹیکنے پر
مجبور کردیا جو اب جنگی حربوں سے زیادہ سازشوں پر اترا ٓیاہے ۔جبکہ اس قبل
اسی سرزمین پر1989میں سویت یونین جیسی اندھی طاقتوں کو شکست سے دوچار
کیا،موجودہ صورتحال میں افغانستان اور پاکستان میں دونوں ممالک کے لیے
ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے ملک میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پرالزام
تراشیوں پر گریز کرتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں میں رہتے ہوئے ان انتہا پسند
عناصر کو ختم کیا جائے ۔جبکہ افغانستان اس نیک نیتی کے جزبے میں پہل اس طرح
سے کرسکتاہے کہ وہ سب سے پہلے ڈیورڈ لائن کی اہمیت کو سمجھے اور اسے
متنازعہ بنانے سے بھی گریز کے،عراق ،شام اور یمن جیسے ملکوں میں بھی
ریڈلائنز کا قانون موجود ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستا ن اور افغانستان
آج تک اپنے ریڈ لائنز کی پاسداری میں گومگو کا شکار نظر آتے ہیں،یہ سب
جانتے ہوئے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ان دونوں ممالک کی صحت کے لیے
درست نہیں ہے۔ایسے میں افواج پاکستان کی ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے دی
جانے والی قربانیوں کا اعتراف ہر خاص وعام کی زبان پر عام ہے حال ہی میں
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے افغانستان کا ایک روزہ دورہ ایسے حالات میں کیا
کہ کچھ عرصہ بعد افغانستان کے حوالے سے روس میں ایک کانفرنس کا انعقاد
منعقد ہونے جارہاہے جس میں بتایا جارہاہے کہ پچاس سے زائد ملکوں کے مندوبین
کی شرکت ہوگی ،اس کے علاوہ افغانستان سے متعلق امریکا کی نئی پالیسی کے
اعلان کے تناظر میں آرمی چیف کا دورہ افغانستان انتہائی اہمیت کا حامل مانا
جارہا ہے ، پاکستا ن میں قائم سول حکومت اس وقت حکومت بھی خود اور اپوزیشن
بھی خود کے فارمولے پر عوام کے مسائل سے مکمل طورپر جان چھڑائے ہوئے ہیں
حکمرانوں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے پاک افغان معاملے پر حالیہ دھمکی آمیز
بیان کا بھی مثبت انداز میں جواب نہ دیا گیا ہے بلکہ عوام کے بے جا اثرار
پر کچھ تلخ لہجہ بناکر بات کرنے والے وزیردفاع خواجہ آصف بھی اپنے بیان کی
طرح جھاگ کی مانند بیٹھ گئے ہیں جس سے معلوم پڑتا ہے کہ حکومت نے ڈونلڈ
ٹرمپ کے بیان کا جواب جہاں بہت لیٹ دیا وہاں وہ بیان مجبور ی میں اور عوام
کا غصہ وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے لیے دیا گیا ،لازم ہے کہ حکومت کی یہ
حرکتیں ان ہی کے خلاف جارہی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ جو ں جوں وقت گزررہاہے
حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہاہے ۔حال ہی میں ماضی کی تلخیوں کا
خاتمہ کرنے کے لیے آرمی چیف کا دورہ کابل دونوں ممالک میں جاری کشیدہ
صورتحال کو بہتر سمت میں لانے میں کامیاب ہوگیاہے ، امید ہے کہ آرمی چیف کا
دورہ افغانستان دونوں ممالک میں امن کی فضاء قائم کرنے میں بہت بڑی تبدیلی
کا پیش خیمہ ثابت ہوگاجس کے مثبت اثرات بھی بہت جلد سامنے آنے شروع
ہوجائینگے۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر باجودہ کا کہنا تھا کہ دونوں
ممالک میں کشیدگی کا خاتمہ باہمی گفت و شنید میں ہی پوشیدہ ہے،دونوں
رہنماؤں نے سیاسی وفوجی تعلقات کو بہتر کرنے کے ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹر کا
راستہ روکنے پر بھی اتفاق کیا ، افغان صدر اشرف غنی اور د یگر عسکری حکام
سے اجتماعی اور ون ٹو ون ملاقاتوں میں ماضی کی غلط فہمیوں کو دور کیا گیا ۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں جنگوں کارحجان اور مسافروں سمیت
تجارتی آمدو رفت کو روکنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا سیکورٹی ریزن پر
ایسا کرنا درست ضرورہوسکتاہے مگر تاحیات ایسا کرنا کسی بھی پڑوسی ملک کے
ساتھ اچھا رویہ نہیں سمجھا جاتا،ہمیں آرمی چیف کے اس دورے سے امید رکھنی
چاہیے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان جزبہ خیر سگالی کا عمل دونوں ہی
ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو ۔# |