حد سے گذر جانے کو ’افراط‘ اور حدسے اُتر جانے کو
’تفریط‘ اور حدود کے درمیان رہنے کو ’اعتدال‘یا میانہ روی سے تعبیر کرتے
ہیں،جو کہ اسلام میں عین مطلوب ہے ، یعنی نہ تقوے کے نام پر افراط ہو اور
نہ مصلحت کے نام پر ہواے نفس سے کام لیا جائے ۔دین داری،مال داری اور اور
محتاجگی وغیرہ تمام حالتوں میں اعتدال کا دامن تھامے رہنے کی ہدایت کی گئی
ہے اور یہ اسلام کا گویا خاصہ ہے ۔نظامِ اسلام میں اب نہ کسی کمی بیشی کی
گنجائش ہے اور نہ زیادتی و انتہا پسندی کی، بلکہ دینی ودنیوی تمام امور میں
اعتدال اور میانہ روی ضروری قرار دی گئی ہے ، جس میں فی زمانہ کوتاہی عام
سے عام تر ہوتی جا رہی ہے ۔اپنے مسلک و موقف کو دوسروں پر تھوپنا،دوسروں کی
بات سمجھنے کی کوشش نہ کرنااور کم ظرفی و تنگ نظری کا مظاہرہ کرنا وغیرہ سب
کچھ اسی بے اعتدالی کا ثمرہ ہے ۔ جب کہ ارشادِ ربانی ہے :(مفہوم)اور زیادتی
وبے اعتدالی نہ کرو، یقین جانو کہ اﷲ تعالیٰ بے اعتدالی کرنے والوں کو پسند
نہیں کرتا۔( البقرہ:190)اس لیے مباحات کی اول شرط اعتدال ہے اور ظاہر ہے جو
شخص فضولیات میں مشغول ہوگا وہ عادتًا وہ ضروریات میں ضرور کوتاہی کرے گا،
بنا بریں جتنے بھی مباحات ہیں ان سب کی کثرت مُضر ہے ، اور اعتدال کے ساتھ
ان میں اشتغال درست ہے بلکہ نافع ہے ، خصوصاً جب وہ اشتغال کسی مصلحت پر
مبنی ہو۔
قرآنِ کریم نے امتِ محمدیہ کو خیر الامم قرار دینے کی وجوہ متعدد آیتوں میں
بیان فرمائی ہے ،من جملہ ان کے امتِ محمدیہ کے خیر الامم ہونے کی بڑی وجہ
اس کا اعتدالِ مزاج ہونا ہے ۔(معارف القرآن)ارشادِ ربانی ہے :اور(مسلمانو)
اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر
گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے ، اور جس قبلے پر تم پہلے کار بند تھے
اسے ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ
کون رسول کا حکم مانتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھرجاتا ہے ؟ اور اس میں شک
نہیں کہ یہ بات تھی بڑی مشکل لیکن ان لوگوں کے لیے(ذرا بھی مشکل نہ ہوئی)
جن کو اﷲ نے ہدایت دے دی تھی۔ اور اﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمھارے ایمان کو
ضائع کردے ، درحقیقت اﷲ لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، بڑا مہربان ہے ۔
(البقرۃ:143)
لفظ ’وَسَطَ‘ بہ فتحِ سین، بہ معنی اوسط ہے اور خیر الامور اور افضل اشیاء
کو وسط کہا جاتا ہے ۔ترمذی میں بہ روایت ابو سعید خدری، آں حضرت صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم سے لفظ وسط کی تفسیر عدل سے کی گئی ہے ، جو بہترین کے معنی
میں آیا ہے ۔اس آیت میں امتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی ایک
امتیازی فضیلت وخصوصیت کا ذکر ہے کہ وہ ایک معتدل امت بنائی گئی۔ اس میں یہ
بتلایا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے مسلمانوں کو وہ قبلہ عطا کیا جو سب سے اشرف
و افضل ہے ، اسی طرح ہم نے امتِ اسلامیہ کو ایک خاص امتیازی فضیلت یہ عطا
کی ہے کہ اس کو ایک معتدل امت بنایا ہے ، جس کے نتیجے میں ان کو میدانِ حشر
میں یہ امتیاز حاصل ہوگا کہ سارے انبیاء علیہم السلام کی امتیں جب اپنے
انبیاء کی ہدایت و تبلیغ سے مکر جائیں گی اور ان کو جھٹلا کر یہ کہیں گی کہ
ہمارے پاس نہ کوئی کتاب آئی نہ کسی نبی نے ہمیں کوئی ہدایت کی، اس وقت امتِ
محمدیہ انبیاء علیہم السلام کی طرف سے گواہی میں پیش ہوگی اور یہ شہادت دے
گی کہ انبیاء علیہم السلام نے ہر زمانے میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے لائی ہوئی
ہدایت ان کو پہنچائیں اور ان کو صحیح راستے پر لانے کی مقدور بھر پوری کوشش
کی۔ مدعیٰ علیہم امتیں امتِ محمدیہ کی گواہی پر یہ جرح کریں گی کہ اس امتِ
محمدیہ کا تو ہمارے زمانے میں وجود بھی نہ تھا، اس کو ہمارے معاملات کی کیا
خبر، اس کی گواہی ہمارے مقابلے میں کیسے قبول کی جاسکتی ہے ؟امتِ محمدیہ اس
جرح کا یہ جواب دے گی کہ بے شک! ہم اس وقت موجود نہ تھے مگر ان کے واقعات و
حالات کی خبر ہمیں ایک صادق مصدوق رسول نے اور اﷲ کی کتاب نے دی ہے ، جس پر
ہم ایمان لائے اور ان کی خبر کو اپنے معائنے سے زیادہ وقیع اور سچا جانتے
ہیں، اس لیے ہم اپنی شہادت میں حق بہ جانب اور سچے ہیں۔ اس وقت رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم پیش ہوں گے اور ان گواہوں کا تزکیہ و توثیق کریں گے کہ
بے شک! انھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے ، اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور میری
تعلیم کے ذریعے ان کو یہ صحیح حالات معلوم ہوئے ۔(معارف القرآن) |