تحریک آزادی کشمیر ایک نظریاتی اسلامی تحریک کی حیثیت
سے ڈوگراہ راج کے خلاف برپا ہوئی ، جموں میں خطبہ عید کی بندش ہو ، پونچھ
میں توہین قرآن کا واقعہ ہو یا 13جولائی 1931ء اذان کی تکمیل میں بائیس
کشمیریوں کی شہادت یہ ایسے سنگ ہائے میل ہیں جو اس نظریاتی تحریک کے پس
منظر کو اجاگر کرتے ہیں اور پھر 1947ء کا مسلح جہاد جس کے نتیجے میں آزاد
جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ریاست کا ایک تہائی خطہ آزاد ہوا جس
کے دوران میں ریاست کے چپے چپے پر شہدء نے خون نچھاور کرتے ہوئے اس نظریاتی
رنگ میں مزید نکھار پیدا کیا ۔
قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ جہاں تحریک
پاکستان کا محض نعرہ نہیں ماٹو اور عنوان بنا ۔ وہیں اس عمل نے تحریک آزادی
کشمیر کو مزید مہمیز دی ۔ یوں کشمیریوں نے کلمے کے نام پر قائم ہونے والی
ریاست سے اپنے نظریاتی رشتہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ، کسی انقلاب کے لیے سب
سے بڑا چیلنج یہی ہوتا ہے کہ مسلط شدہ نظام کے خاتمہ کے بعد متبادل نظام
بالخصوص عدل و قانون کے دائرے میں کیا ہو ؟ یہ سوال قائدین تحریک آزادی
کشمیر کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت سے سامنے آیا جس کا حل متبادل شرعی
عدالتوں کے قیام کی صورت میں سامنے آیا ۔ تحریک آزادی کشمیر کے ایک مجاہد
اور عظیم دینی سکالر مولانا سید مظفر حسین ندوی مرحوم راوی ہیں کہ قائدین
کی طرف سے یہ ذمہ داری انہی کو سونپی گئی کہ آزاد علاقوں میں لوگوں کے باہم
دیگر مسائل یکسو کرنے کے لیے دینی سکالرز اور علماء کے اہتمام میں عدالتی
نظام تشکیل دیا جائے ، چنانچہ آزاد خطے میں دستیاب علمائے کرام سے خدمات
لینے کے علاوہ مولانا مودودی ؒ سے بالمشافہ ملاقات کرتے ہوئے دینی سکالرز
اور مربین کا اہتمام کیاگیا ۔ ان کے بقول مولانا اپنے قریبی رفقاء میں سے
چند اہم افراد کی ایک جماعت سید مظفر حسین ندوی کی معاونت کے لیے بھیجی جو
جہاد کی ساری تحریک کے دوران میں بلکہ بعد میں عدالتی نظام استوار ہونے تک
ان کے شانہ بشانہ رہی ۔ بعد میں جوں جوں ادارے بنتے گئے قضا کا نظام بھی
مختلف مراحل سے گزرا۔ اس نظام کی تاسیس تو بانی صدر سردار ابراہیم خان کے
زمانہ حکومت میں ہوئی جو خود بھی ایک بیرسٹر تھے لیکن بعد میں آنے والے
صدور بالخصوص کرنل علی احمد شاہ ، سید یوسف شاہ اور سردار عبدالقیوم خان نے
اپنے اپنے دور حکومت میں شرعی عدالتوں کی حوصلہ افزائی کی بالخصوص 1970ء کے
انتخابات میں سردار قیوم کو اسلامی نظام کے قیام اور جہاد کشمیر کے احیاء
کے نام پر بھرپور کامیابی ملی ۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے قضا اور افتاء
کے نظام کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی ، ان کاوشوں میں اس دور کے چوٹی کے
علمائے کرام بالخصوص حضرت مولانا محمد یوسف خان ، حضرت مولانا سید مظفر
حسین ندوی، حضرت مولانا یونس عصری اور حصرت مولانا فضل کریم جیسے جید علماء
اور تمام دینی حلقوں کا بھرپوررتعاون رہا ۔ مشاورت کے اس نظام میں پروفیسر
عبداللطیف انصاری اور پروفیسر الیف الدین ترابی نے بھی گراں قدر خدمات سر
انجام دیں۔اسلام آبادکی اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کی روایتی رکاوٹوں کے
باوجود جید علمائے کرام کی مشاورت نے اہم سنگ میل طے کیے اور تحصیل اور
اضلاع کی سطح پر اسلامی فوج داری عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں جج
صاحبان کے ساتھ ساتھ قاضی صاحبان نے بھی منصب سنبھالا۔ 1975ء میں پیپلز
پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد اس نظام کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن
حضرت مولانا محمد یوسف خان نے بطور ممبر قانون ساز اسمبلی اور ممبر اسلامی
نظریاتی کونسل اس نظام کے تحفظ کے لیے ڈھال کا کردار ادا کیا۔
پاکستان میں نظام مصطفیؐ کی تحریک کے پس منظر میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت
کے اسلامی اقدامات کی بھی آزاد خطے میں توسیع ہوتی رہی ۔یوں 80ء کی دہائی
میں ہائی کورٹ کی سطح پر شریعت اپیلٹ بنچ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نوے کی
دہائی میں سردار عبدالقیوم خان کی حکومت نے ایک ایکٹ کے ذریعے شریعت کورٹ
قائم کی جو ایک شرعی اپیلٹ کورٹ کے اختیارات کی حامل تھی لیکن بد قسمتی سے
اس عرصے میں اور اس کے بعدپے درپے شریعت کورٹ کے جو ججز مقرر ہوئے ان کا
شریعت کے ساتھ تعلق اور قانونی صلاحیت کے حوالے سے بڑے سوالات پیدا ہوئے
اور یہ تاثر عام ہوا کہ یہ مقدس ادارہ محض سیاسی بنیادوں پر کچھ لوگوں کو
نوازنے کے لیے قائم کیا گیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں ایسی
شہرت کے حامل افرا د کی تقرریوں کو عدالت عالیہ و عظمی میں چیلنج کیا گیا
جن کے فیصلوں کی رو سے ان حضرات کو فارغ کرنے کے علاوہ حکومت کو ہدایت کی
گئی کہ وہ تقرری کا واضح طریقہ کار مقرر کرے۔قانون سازی کرتے ہوئے پورے
پراسیس کو شفاف بنیادوں پر استوار کرے ۔ اگر یہ قائم ہونی ہے تو اس کی واضح
حدود کا تعین کیا جائے ، نیز اب جبکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسلامی
تعزیراتی قوانین پینل کوڈ کا حصہ بنادیے گئے ہیں تو ایسی صورت میں شریعت
کورٹ کی جوازیت کیا ہوگی ؟ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کی روشنی میں حکومت نے
ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے چیف جسٹس ہائی کورٹ اور دو سینئر
ججز کے علاوہ ایک عالم جج پر مشتمل شریعت کورٹ قائم ہوئی جس کے اختیارات
میں محض کسی فرد یا حکومت کی طرف سے کسی قانون کو قرآن و سنت کے مطابق یا
عدم مطابق قرار دینے کی حد تک محدود کر دیے گئے ۔ماتحت فوجداری عدالتوں کی
سماعت ہائی کورٹ کو منتقل کر دی گئی ، آرڈیننس میں جہاں جہاں شریعت کورٹ کی
اصطلاح تھی اسے ہائی کورٹ سے تبدیل کر دیا گیا ۔ حکومت کے موقف کی رو سے
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا یہ حل ممکن تھا بہر حال دینی حلقوں میں اسی حوالے
سے ایک سنگین اضطرات پیدا ہوا کہ شاید حکومت شریعت کورٹ کے علاوہ قضاء کے
نظام کو بھی بتدریج تحلیل کرنا چاہتی ہے اسی پس منظر میں مولانا سعید یوسف
خان امیر جمعیت العلمائے اسلام آزاد جموں وکشمیر نے ایک آل پارٹیز کانفرنس
کا انعقاد کیا جس میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کے علاوہ سیاسی
جماعتوں کی قیادت نے شرکت کی ۔ کانفرنس میں خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا
گیااور ایک اعلامیہ کے ذریعے حکومت کو خبردار بھی کیا گیا کہ کوئی ایسی
کارروائی جو ان اداروں کی تحلیل کا باعث بنے جو سال ہا سال کی کاوشوں کے
نتیجے میں قائم ہو چکے ہیں برداشت نہیں کی جائے گی ۔ نیز راقم کی سربراہی
میں ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی کہ اس سلسلے میں حکومت سے مذاکرات کر کے اس
مسئلے کو حل کیا جائے ۔ کانفرنس کے دو روز بعد اسمبلی کا اجلاس بھی منعقد
ہونا تھا چنانچہ میں نے فی الفور وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان سے
ملاقات کی اور کانفرنس کی روئیداد بیان کی اور یہ تجویز دی کہ اگرچہ مسلم
لیگ اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی کر سکتی ہے لیکن اس کے نتیجے
میں اس موقع پر ایک خلفشار کا پیدا ہوناحکومت کے لیے بھی اور تحریک آزادی
کے لیے بھی کسی طور پر سود مند نہ ہوگا لہٰذا علماء اور مشائخ سے مشاورت کا
اہتمام کیا جائے ۔ حکومت اپنا موقف رکھے اور ان کی تجاویز اور تحفظات کو
بھی سنا جائے ۔ ان کی درست اور جائز بات کو تسلیم کرنے میں حکومت کی نیک
نامی میں اضافہ ہوگا ورنہ ہر محراب و منبر سے حکومت کے خلاف ایک مورچہ لگے
گا جس کا اس اہم موقع پر خطہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیرا عظم نے تجویز سے
اتفاق کیا اور وزیر قانون جناب راجہ نثار خان بھی شریک مشورہ رہا۔اس سلسلے
میں پیر علی رضا بخاری سے بھی مشاورت ہوئی۔بہر حال باہم مشاورت سے طے پایا
کہ آرڈیننس سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کیا جائے اور تمام جید علماء کرام مشائخ
اور ماہرین قانون کو اس مجلس کے زیر اہتمام بھرپور سماعت کیا جائے ۔چنانچہ
وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان اور حضرت مولانا سعید یوسف اور دیگر
علمائے کرام سے مشاورت سے شرکاء کی ایک فہرست مرتب کی گئی ۔ سیکرٹری اسمبلی
چوہدری بشارت اور ان کے عملے کو ہدایت کی گئی کہ وہ ان تمام شرکاء سے رابطہ
بھی کر لیں اور ضروری میٹریل بھی پہنچا دیں ۔یوں چیئرمین سلیکٹ کمیٹی ایم ۔
ایل ۔ اے حمد رضا قادری ایڈووکیٹ کی صدارت میں کمیٹی روم میں یہ اجلا س
منعقد ہوا ۔ وزیرا عظم بھی پورا دن شریک اجلاس رہے ۔ ان کے علاوہ وزیر
قانون راجہ نثار احمد اور اراکین کمیٹی میں راقم کے علاوہ سردار میر اکبر
خان وزیر جنگلات ، چوہدری مسعود خالدایم ۔ ایل ۔اے ، علی رضا بخاری ایم ایل
اے ،چوہدری شہزاد محمود ، محترمہ نسیمہ وانی ، عبدالماجد خان ، صغیر احمد
خان شریک ہوئے ۔علاوہ ازیں علماء و مشائخ اور ماہرین قانون میں سے مندرجہ
ذیل حضرات شریک اجلاس رہے ۔ مولانا سعید یوسف امیر جمعیت علمائے اسلام آزاد
کشمیر مہتمم دارالعلوم پلندری، پیر عتیق الرحمن صدر جمعیت علمائے جموں
وکشمیر ضلع میر پور ،مولانا دانیال شہاب الدین مدنی ناظم اعلیٰ جمعیت
اہلحدیث آزاد کشمیر ،مفتی کفایت حسین نقوی ممبر اسلامی نظریاتی کونسل مظفر
آباد، مولانا عبید اﷲ فاروقی چیئرمین علماء مشائخ کونسل آزاد جموں وکشمیر ،
صاحبزادہ سلیم چشتی چیئرمین زکوٰۃ کونسل آزاد جموں وکشمیر ، مولانا امتیاز
صدیقی مہتمم جامع مسجد ہڈا باڑی ضلع باغ، مفتی محمد رویس خان ایوبی ضلع
مفتی( ریٹائرڈ) ضلع میرپور ، سردار اعجاز افضل خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
،راجہ محمد حنیف خان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ و سپریم کورٹ آزاد کشمیر ، راجہ
سجاد احمد ایڈووکیٹ ہائی کورٹ و سپریم کورٹ آزاد کشمیر ، مشتاق احمد جنجوعہ
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ و سپریم کورٹ آزاد کشمیر ۔
سیکرٹری انصاف و پارلیمانی امور ادریس تبسم اور ان کا عملہ بھی بھرپور
تیاری سے شریک رہا ۔اجلاس میں سیکرٹری قانون نے بریفنگ رکھی اور مختلف
مراحل کا تفصیلی پس منظر بیان کیا ۔ علمائے کرام نے بھی بھرپور موقف رکھا ،
بالخصوص مولانا سعید یوسف ، مفتی قاضی محمد اویس ،صاحبزادہ عتیق الرحمن ،
امتیاز صدیقی ، علامہ برکاتی ، مفتی محمد حسین ، صاحبزادہ سلیم چشتی ، عبید
اﷲ فاروقی نیز ماہرین قانون میں سے سردار اعجاز افضل خان نے سپریم کورٹ کے
فیصلے کی روشنی میں بڑے اہم سوالات اٹھاتے ہوئے موجودہ شکل میں آرڈیننس کی
روشنی میں قانون سازی کے سنگین مضمرات کا جامع احاطہ کیا۔ ان کے علاوہ
سینئر وکلاء راجہ حنیف ، مشتاق جنجوعہ ، سجاد راجہ نے بھی بھرپور طور
پراپنا نکتہ نظر پیش کیا ۔ تاریخی پس منظر اور پیش کردہ آرڈیننس کی تمام
جزئیات پر اجلاس میں بحث و تمحیص کے بعد اس پر اتفاق رائے ہوا کہ
O ہائی کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل شریعت اپیلٹ بنچ قائم ہوگا
O پندرہ سالہ اسلامک ریسرچ میں تجربہ اور ایک فقہیہ اور مجتہد کی سطح پر
علمی رتبہ رکھنے والی علمی شخصیت بطور عالم جج کا تقرر عمل میں لایا جائے
گا۔
O فوجداری مقدمات اپیلٹ بنچ یا ڈویژن بینچ جو بھی سماعت کرے عالم جج اس کا
حصہ ہو۔
O نیز نزاعی امور میں قوانین کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے بارے میں بھی
یہ بینچ فیصلے کرے گا ایسے کسی مقدمہ کی سماعت کے موقع پر عالم جج اس بینچ
کا حصہ ہوگا۔
O سپریم کورٹ کے موجودہ تین مسلم ججز پر مشتمل شریعت اپیلٹ بنچ ہوگا ، جو
سپریم کورٹ کی سطح پر متعلقہ مقدمات کی سماعت کرے گا۔
یوں یہ قانون سازی سابقہ شریعت کورٹ سے زیادہ موثر اور باوقار انداز سے
ہوئی جسے تمام پارلیمانی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا ۔ قبل ازیں
سلیکٹ کمیٹی کے لیے بھی اپوزیشن کی طرف سے دو ممبران صغیر چغتائی اور
عبدالماجد خان نے بھی بھرپور اور مثبت کردار ادا کیا ۔ مسلم کانفرنس کے صدر
سردار عتیق احمد خان جواس حوالے سے تحفظات کا شکار تھے نے بھی اپنے خطاب
میں اطمینان کا اظہار کیا اور وزیر اعظم اور تمام اسمبلی ممبران کو مبارک
باد پیش کی ۔وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان نے علمائے کرام اور مشائخ
عظام کو بھرپور یقین دہانی کرائی کہ حکومت قرآن و سنت کے مغائر نہ کسی
قانون سازی کی جرات کر سکتی ہے اور نہ موجود دینی ادارے اور اسلامائزیشن کے
عمل کو کوئی گزند پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے بلکہ ان اداروں کو مزید مستحکم
اور باوقار بنانا ہمارا ہدف ہے ۔ اپوزیشن اور حکومتی بنچوں سے ممبران نے
بہت اچھے ماحول میں بحث میں حصہ لیا اور اتفاق رائے سے قانون سازی کے عمل
کی تکمیل کی تحسین کی ۔
راقم نے ایوان بالخصوص علماء اور مشائخ کا شکریہ ادا کیا اور جنہوں نے ایک
رابطہ کار کی ذمہ د اری دے کر سخت آزمائش میں ڈال دیا تھا ،وزیر اعظم اور
وزیر قانون اور ان کی ٹیم کا بھی شکریہ ادا کیا ،جنہوں نے راقم کی تجاویز
کو پذیرائی بخشتے ہوئے کشادہ دلی کے ساتھ دینی حلقوں کی تجاویز سنیں اور
انہیں قبول کیا ۔ راقم نے یہ بھی کہا کہ قوانین پر عمل درآمد اصل چیلنج ہے
۔ حکومت ، اپوزیشن ممبران اسمبلی اور ریاست کی ساری مشینری کی ذمہ داری ہے
کہ انفرادی اور اجتماعی دائروں میں قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل درآمد کرتے
ہوئے خطے کو ایک ایسا اسلامی اور فلاحی معاشرہ بنائیں جہاں عدل اجتماعی کی
ہر سطح پر جھلک نظرآئے ۔ یہ ماڈل معاشرہ تحریک آزادی کشمیر کے لیے ایک امید
کی کرن بن سکتا ہے اور پاکستان کے لیے بھی ایک رول ماڈل بن سکتا ہے۔
سینئر وزیر حکومت چوہدری طارق فاروق نے بحث سمیٹتے ہوئے یقین دہانی کرائی
کہ اسلامائزیشن کے عمل کو مزید مستحکم کیا جائے گااور علماء کرام و مشائخ
عظام کی آراء کو کسی بھی سطح پر نظر انداز نہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے قانون
سازی کو اسمبلی کا ایک تاریخی کارنامہ قرار دیا۔ کمیٹی کے صدر حمد رضا
قادری نے بہت حسن تدبیر سے کارروائی کو اختتام تک پہنچایا ۔ مزید یکسوئی
پیدا کرنے کے لیے طے پایا کہ وزیر اعظم کمیٹی کے ممبران اور جید علمائے
کرام کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے قوم نوید سنائیں جس کا بہت
اچھا اہتمام ہوا ۔ یوں بحمدﷲ ایسے موقع اس نظریاتی قانون سازی ک اہتمام
جہاں تحریک آزادی کشمیر کے لیے تقویت کا باعث بنے ۔ وہیں پاکستان میں
نظریاتی قوتوں کے لیے بھی ایک حوصلے کا پیغام ہے یہ آزاد کشمیر اسمبلی کو
ہی سعادت حاصل ہے کہ ختم النبوت سے لے کر اسلامی قانون سازی کے اہم مراحل
پہلے آزاد کشمیر اسمبلی میں ہوئے اس کے بعد پاکستان میں اس کی تقلید کی گئی
۔ اﷲ کرے اس کے اثرات وہاں بھی مرتب ہوں ۔
آزاد جموں وکشمیر کے علماء اور مشائخ ، سیاسی قیادت ممبران اسمبلی مبارک
باد کے مستحق ہیں کہ حسن تدبیر سے ایک اہم مسئلہ حل کرتے ہوئے اخلاص اور
سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے قومی مسائل پر پیش
رفت سے ہم کامیابی کے نئے سنگ میل طے کر سکتے ہیں ۔اس حوالے سے عبوری آئینی
ایکٹ 1974ء میں ترامیم کے ذریعے مزید بہتری لانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ |