سیاسی کارکن یا سیاسی غلام

گزشتہ دنوں ایک ضروری کام کے سلسلے میں سیاسی پارٹی کے دفتر جانا ہوا وہاں پہنچا تو مختلف سیاسی پارٹیوں کے 3,4 کارکن بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے ، سو میں نے بھی موقع دیکھا اور خوشگوار ماحول دیکھ کر وہاں بیٹھ گیا ،نوید صاحب جو کہ ایک سیاسی پارٹی کے سرگرم رکن ہیں موبائیل فون میں کافی دیر سے مصروف تھے اچانک ان کی آنکھوں میں چمک آئی اور ’’یا ہو ‘‘ کا نعرہ لگایا اور باری باری سب کی آنکھوں کے سامنے موبائیل کی سکرین کو لہرایا اور فاتحانہ انداز میں سب کو بتایا کہ میں نہ کہتا تھا کہ یہ مولانا فضل الرحمان کوئی ٹھیک بندہ نہیں ہے ۔سب نے حیرانگی اور استفسار بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھا کہ الہٰی ابھی تو یہ اچھا بھلا تھا کیا ہو گیا ہے، سب کی سوالیہ نظروں سے گھبرا کر بولے کہ یہ تصویر دیکھو مولانا فضل الرحمان حنا ربانی سے ہاتھ ملا رہے ہیں اس ملاّ کو اللہ ہی ہدایت دے ، ماحول یکسر تبدیل ہو گیا سب نے مولانا کو لعن طعن شروع کر دی اور یہ بھول گئے کہ عارف جو مولانا کا کارکن ہے وہ بھی درمیان میں بیٹھا ہے اس نے سراج الحق صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا کہ جماعت کے امیر بھی تو ایک ٹکٹ میں تین فلمیں دیکھ رہے ہیں آزاد کشمیر میں نون لیگ کے ساتھ اور کے۔پی۔کے میں پی۔ٹی۔آئی کے ساتھ شراکت دار ہیں ساتھ ساتھ بے حیائی کا رونا بھی رو رہے ہیں اور کرپشن کے خلاف ریلیاں بھی نکال رہے ہیں اور مذہبی پارٹی بن کر سعودی عرب سے امداد بھی لے رہے ہیں ،حکومتی مدت پوری ہونے سے دو چار ماہ قبل اسمبلی سے استعفے دے کر اپوزیشن کا شوق بھی پورا کر لیتے ہیں ،سائیں رفیق جس کو سب پیار سے سائیں ہی کہتے ہیں نون لیگی کارکن ہے اس نے عمران خان کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اپنے موبائیل کو ٹٹولا اور میں سے کافی تصویریں برآمد کر لیں اور بولا میرے پاس عمران کے خلاف ناقابل تردید ثبوت ہیں اور ’’ثبوت‘‘ دکھانا شروع کیے، کسی تصویر میں خان صاحب شراب پی رہے ہیں تو کسی میں عورتوں کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں ایک تصویر میں بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہے تھے تو ایک میں کتے کے اوپر سر رکھ کر سو رہے تھے سائیں رفیق کا کہنا تھا کہ عمران خان کی پاکستانی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں وہ مغربی تہذیب ہم پر تھوپنا چاہتے ہیں ، اتنا سننا تھا کہ قاسم کو طیش آگیا اور اس نے نعرہ لگانا شروع کر دیا جس کا جواب بھی وہ خود ہی دے رہا تھا ’گو نواز گو‘ ’’گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے‘‘ قاسم کا کہنا تھا اس کے قائد کے بارے میں مزید بات کی گئی تو وہ ابھی نواز شریف کے کارنامے کھول کر بیان کر دے گا اور اس نے نواز شریف کو راء کا ایجنٹ اور کرپشن کا سردار قرار دے دیا اور مریم نواز کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کا فخریہ انداز میں ذکر کیا میں نے معاملہ بگڑتے دیکھا تو وہاں سے کام کا بہانہ بنا کر نکل آیا بہارہ کہو کی گاڑی میں بیٹھ کر پورے رستے میں ان دوستوں کے سکول کے دن ذہن مین گردش کرنے لگے کہ کل یہ سکول میں کیسے اکٹھے جاتے دس روپے کی چیز خرید کر مل بانٹ کر کھاتے اور واپسی پہ ہنسی خوشی گپیں لگاتے گھر آتے تھے ،ان کو کیا معلوم تھا کہ بڑے ہو کر سیاسی پارٹیوں کے چنگل میں پھنس کر ایک دوسرے کو ہمیشہ شک بھری نظروں سے دیکھیں گئے اور اپنے سیاسی قائدین کی طرف داری میں وہ بچپن کی دوستیاں اور پرانی خاندانی راوایات کو بھول کر پورا دن تصویروں کو فوٹو شاپ کرتے رہیں گئے مجھے اپنے یہ سارے دوست سیاسی کارکن کم اور سیاسی غلام زیادہ لگے ، جن کے ذہنوں کو سیاسی پارٹیوں نے بے مول خرید لیا تھا اور یہ غلام دوست بھی اپنے آقاؤں کی محبت اور مخالفین کی نفرت میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں سب نے اپنی سیاسی ڈکشنریاں بنا لی ہیں جن میں نون لیگی کو ’پٹواری‘ تحریک انصاف والے کو ’یہودی ایجنٹ‘ جے۔یو۔آئی والوں کو ’مولانا ڈیزل‘ اور جے۔آئی والوں کو ’ منافق‘ کے لقب سے نوازا گیا ہے، اپنے قائدین کی محبت میں ایسے گن گاتے ہیں کہ جب لیڈران خود یہ باتیں سنتے ہیں تو ان کو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ان ہی کی شان بیان کی جارہی ہے ؟ اور مخالفین کے بارے میں ایسی واہیات بکتے ہیں کہ شیطان بھی شرما جاتا ہے کہ میرے چیلے تو مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ محترم قارئین! ذرا غو ر کریں کہ ان سیاسی لیڈران کی محبت اور نفرت میں ہم اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ دوسرے کی زبان سے بھی ہر صورت میں اپنے قائد محترم کی تعریف ہی سننا چاہتے ہیں اور کوئی مخالفت کرے تو اس کو اسلام اور پاکستان کا غدار اور یہودی ایجنٹ بنا دیتے ہیں۔ اگر آپ اپنے قائد کی شان بیان کر رہے ہیں تو آپ نظریاتی کارکن ہیں اور مخالف اپنے لیڈر کی تعریف کرے گا تو وہ ذہنی غلام کہلائے گا۔ سوشل میڈیا پر ان نام نہاد سیاسی غلاموں نے اتنا جعلی مواد ڈال دیا ہے کہ اصل چیز بھی نقل لگتی ہے کسی کا سر کاٹ کر کس پر اور کسی کے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھما دینا اور کسی کو عورت کے پہلو میں پہنچا دینا ،ہانگ کانگ کو پشاور اور بیجنگ کو لاہور بنا دینا ، میدان عرفات کو سیاسی جلسہ گاہ میں بدل دینا ،کرسیوں کے اوپر بندے بٹھا دینا یا ان کو غائب کر دینا اور جانوروں اور کتوں کے چہرے گردن پر لگا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ کیا سیاسی پارٹی یا قائد اتنا اہم ہو گیا ہے کہ ہم اپنے پرانے تعلقات ، رشتوں ،دوستوں اور برادری کو بھول جائیں گئے؟ کیا ہماری روایات اور ثقافت دم نہیں توڑ رہی ایک ہی خاندان کے لوگ سیاسی چنگل میں پھنس کر ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارہ نہیں کرتے، پہلے شادی بیاہ میں ہلے گلے اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے جاتے تھے اب شادی یا فوتگی میں جاتے ہیں تو سیاسی کہانیاں لے کر جاتے ہیں اور سیاسی پوائنٹ سکور کرنے جاتے ہیں ،کئی دفعہ تو ایسی باتیں کرتے کرتے ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور دشمنیوں اور تلخیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے خاندان کے خاندان ٹوٹ گئے ہیں ، سیاسی غلاموں سے اچھے تو ان کے لیڈران ہیں جو ایسے موقعوں پر خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں اور کم از کم لوگوں کے سامنے ہی ایسی غیر مہذب گفتگو سے پرہیز کرتے ہیں ایک ساتھ کھانا کھا کر تصویریں بنا کر ایک ہی گاڑی میں بیٹھ کر بھی چلے جاتے ہیں ، اور ہم پیچھے ان کے لیے لڑتے رہتے ہیں ۔ محترم قارئین ! باتیں کڑوی ضرور ہیں لیکن یہ سچ ہے سب سیاسی کارکن اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا کل ہمارے گلی محلے میں کوئی مسئلہ ہو تو نواز شریف،عمران، فضل الرحمان،یا سراج الحق حل کرنے آئیں گئے یا ہمارے محلے کے بزرگ یا رشتہ دار اس کو حل کریں گئے ؟ کیا کل شادی کے موقع پر آپ کے بچپن کے دوست اور رشتہ دار شادی کی رونقیں دوبالا کرنے اور ہاتھ بٹانے آئیں گئے یا اس کے لیے بھی سیاسی لیڈران آئیں گئے جن کے پاس اپنے گھر کے لیے بھی ٹائم نہیں ہوتا، کیا کل کسی فوتگی پر قبر کھودنے ،مہمانوں کو بٹھانے اور غم بانٹنے سیاسی سپورٹر اور لیڈر آئیں گئے یا وہی سکول کے دوست اور آپ کے رشتہ دار یہ کام کریں گئے؟ یہ سوچنے کی باتیں ہیں آپ بھلے کسی سیاسی پارٹی کو سپورٹ کریں، نعرے لگائیں ، چندہ دیں ، ووٹ دیں لیکن خدارا صرف سیاسی کارکن ہی بن کر رہیں سیاسی غلام نہ بنیں ، پرانی راوایات نہ چھوڑیں ،آپس میں دشمنیاں نہ پیدا کر یں یہ نہ ہو کہ کل شادی کے موقع پر اکیلے بیٹھے ہوں یا جنازے کو کندھا دینے کے لیے کرائے کے بندے منگوانے پڑیں۔

محترم قارئین باتیں بہت ہیں لیکن ادھوری اس لیے چھوڑ رہا ہوں کہ آپ اپنے دماغ سے بھی سوچیں کہ کیا واقعی آپ سیاسی کارکن ہیں یا سیاسی غلام ؟ ابھی بھی وقت ہے اپنے اپنے گھر کو لوٹ آئیں اور صرف سیاسی کارکن ہی بن کر رہیں ۔

 

Shahid Mehmood
About the Author: Shahid Mehmood Read More Articles by Shahid Mehmood: 23 Articles with 20993 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.