کبھی ناموس رسالتﷺ پر حملہ،کبھی سود کے حق میں اقدام،کبھی
مخلوط میراتھن ریس،کبھی مخلوط نظام تعلیم،کبھی ملاں ازم کے نام پر اسلام کا
کلی انکار،کبھی یہودونصاریٰ کے حکم پر عاشق رسول ممتاز قادری کو پھانسی
کبھی پاکستان کے اسلامی تشخص پر حملہ ،تو کبھی زنا بررضا جائز، اب کی بار
قادیانیت نوازی کی حد کرتے ہوئے حلف نامے کی جگہ اقرار نامے کا آجانا ،یہ
سب عالم کفر کے مکروہ ہتھکنڈے ہیں جس کا مقصد اسلامی نظام کا راستہ روکنا ،اور
اسلام پسندوں کی سرگرمیوں توانائیوں کو جلسوں،جلوسوں،ہنگامی پروگراموں کی
نظر کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ۔مسلمان ایک ایشو سے فارغ ہوتے ہیں تو
دوسرا ایشو سامنے لا کھڑا کردیا جاتا ہے ،مسلمان احتجاج برائے احتجاج سے
آگے بڑھ ہی نہیں رہے ۔احتجاج کے بعد حکومتیں انھیں لالی پاپ دے دیتی ہیں کہ
کچھ نہیں ہو رہا تو سب خاموش ہو جاتے ہیں ،یہ سب کیا ہو رہاہے ؟یہ سب کیوں
ہو رہا ہے ؟ ان سب حربوں کا علاج کیا ہے ؟ کیا آپ نے کبھی سوچا؟سوچیں ضرور
سوچیں۔جو قومیں سوچتی ہیں انھیں زوال سے نکلنے کے راستے بھی مل جاتے ہیں ،اور
جو قوم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہتی ہے اسے ذلت ورسوائی،ناکامی کے سوا
کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ہمارا یقین وایمان ہے کہ ہر درد دل رکھنے والا مسلمان
ضروراس صورتحال پر پریشان ہوگا اور سوچتا ہوگا کہ اس سے نکلنے کا
کامیاب،آسان اور بہترین راستہ کیا ہے ؟
ہمیں بھی حالات کے تھپیڑوں نے سوچنے پر بہت مجبور کیا ،ہماے دل میں بھی
متعدد بار یہ خیال پیدا ہوا کہ اس پر بھی تحریر لکھی جائے اور اپنے
نظریات،سوچ،فکر کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے ،ہماری سوچ کے زاویے میں ایک
بات آئی کہ دنیا وآخرت کی کامیابی تو اﷲ نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کے
طریقوں(سنتوں) پر عمل کرنے میں رکھی ہے ۔اگر ہم اس سچے پیغام کو اپنے لئے
آئیڈیل بنالیں تو ہمارا ایمان ہے کہ قیامت تک مسلمانوں کو کبھی بھی ایسے
سنگین حالات کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔ ہمارے نزدیک موجو دہ حالات
یہودونصاریٰ کے صلیبی وصیہونی حملے ہیں،ان کا واحد،معیاری کافی وشافی علا ج
اسلامی نظام خلافت کا قیام ہے ،اوریہ بھی بشارت دی گئی ہے کہ جو اﷲ کے رسول
ﷺ کی ایک مردہ سنت کو زندہ کرے گا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا(الحدیث)آج
متروک سنتوں میں سے ایک اہم ترین سنت مسنون طریقے سے اسلامی نظام قائم کرنے
کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔قیام اسلامی نظام خلافت کے بعد عالم کفر کی یہ
بدمعاشیاں ،اوچھے ہتھکنڈے خود بخود بند ہوجائیں گے۔مگر سوال یہ ہے کہ
اسلامی نظام قائم کیسے ہو؟ ۔۔۔۔۔ اس کا آسان طریقہ قرآن مجید نے بتایا ہے
وہ یہ ہے کہ ( اﷲ کے مقابلہ میں قانون،آئین،حکومت،نظام بنا کر قائم کرنے
والے ہر)طاغوت کا انکار کرو پھراس کے بعدجو اﷲ پر ایمان لے آئے گا اس نے
ایک مضبوط سہارا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں "(البقرہ:256)
اﷲ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے اس پر عمل کیا تو کفر کی تمام طاقت زمین
بوس ہوگئی بلکہ اسلام کی قدم بوسی کرنے پر مجبور ہوگئی ۔آج بھی مسلمانوں کو
سنت رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے اسلامی نظام قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی
،باطل،انسان ساختہ،غیر فطری،غیر اسلامی نظاموں کے ذریعے کبھی اسلام غالب
نہیں آسکتا اور نہ ہی کفر کی مکروہ سازشیں ختم ہو سکتی ہیں۔آج کے مسلمانوں
کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے بجھے ہوئے چراغوں سے روشنی ڈھونڈنے کی بجائے ،اسلام،اﷲ
،رسولﷺ،قرآن وسنت،صحابہ کرامؓ کی ہدایت سے لبریزروشن چراغوں سے روشنی حاصل
کریں ،آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کے سامنے سنت نبویﷺ کے مطابق
اسلامی نظام قائم کرنے کا شرعی طریقہ پیش کیا جائے ۔نبی ٔ اکرم ﷺ نے کامیاب
انقلاب اسلامی برپا کرکے دنیا کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دیا ،وہ سنت،طریقہ
کیا تھا ؟آج سب مسلمان علمائے کرام نبی ٔ اکرم ﷺ کی تمام سنتوں پر قائم
رہنے کا درس دیتے ہیں۔آج کی نسل کا سوال یہ ہے کہ نبی ٔ اکرم ﷺ نے کس طریقہ
سے اسلام کو غلبہ عطاء فرمایا وہ طریقہ ہی سنت ہے ۔اس سنت کو عام مسلمانوں
کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا جارہا ؟قرآن مجید فرقان حمید کی مندرجہ بالا
آیت کریمہ مسلمانوں کو واضح الفاظ میں حکم دے رہی ہے کہ کسی انسان ساختہ
نظام کو قبول نہ کرنا یہی سب سے بڑا شرک،طاغوت ہے ۔مگر آج کے مسلمان انسان
ساختہ نظاموں کو قائم ودائم رکھ کر اس کو سہارا دے کر ،یہودونصاریٰ کے
عزائم کی تکمیل کرکے اسلام کا غلبہ چاہتے ہیں ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا کیوں
کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی یہ سنت ہرگز نہیں ہے ۔ہم سنت رسول اﷲ ﷺ کو ترک
کرکے کامیابی کے خواب دیکھ رہے ہیں جو سراسر بیوقوفی ہی بیوقوفی،غلامی ہی
غلامی،ذلت ہی ذلت کے سوا اور کچھ نہیں۔اے مسلمانوآؤ! اسلامی نظام قائم کرنے
کیلئے سنت رسول ﷺ پر عمل کرنے کا عزم کرتے ہوئے قیام اسلامی نظام کیلئے رخت
سفر باندھیں۔
بہت سے لوگ بڑے احمقانہ انداز میں یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اس دور میں طاغوت
سے انکار اور اسلامی نظام حیاء ممکن ہی نہیں جو کہ سراسر جھوٹ ہے قرآن اور
اسلام قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے ایک آئین ،رہنماء کی حیثیت رکھتے
ہیں ،جس کے بارے میں فرمان باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ (اے پیغمبر) اس قرآن
کے نزول کے بعد اگر تم اس سے روگردانی کرو گئے (اس کے علاوہ کوئی اور
نظام،آئین،نظام زندگی،شریعت،قانون،مذہب) کی پیروی کرو گے تو(میں رب قسم کھا
کر کہتا ہوں کہ ) تمہارا کوئی حامی وناصر ،مددگار نہیں ہوگا۔(البقرہ:120)
|