میت کی طرف سے رمضان کے چھوٹےہوئے روزوں کی قضا

میت کے روزوں کی چند اقسام ہیں ۔
پہلی قسم : ایسا میت جس نے قصدا رمضان کا کوئی روزہ ہی نہیں رکھا اور وہ نہ نماز کا پابند رہاہے اور نہ ہی روزوں کا ۔ ایسے مریض کے چھوٹے ہوئے روزوں کی کوئی قضا اور کوئی فدیہ نہیں ہے کیونکہ وہ تارک صلاۃ اور تارک صوم ہے جس کا حکم کافرکا ہے ۔
دوسری قسم : ایسا میت جو نمازوروزہ کا پابند ہو(فرضیت صوم وصلاۃ کا قائل ہو) مگر غفلت وسستی کی وجہ سے اس نے رمضان کے چند روزے عمداچھوڑا ہو صحیح قول کے مطابق اس کے روزوں کی قضا وارثین کے ذمہ ہے ۔
تیسری قسم : ایسا میت جو دائمی بیمارہو یا کبر سنی کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو ہر روزہ کے بدلے اسے زندگی میں ہی فدیہ دینا چاہئے تھا مگر اس وقت کسی وجہ سے نہیں دے سکا تو وفات کے بعد اس کے وارثین میت کے مال میں سے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو نصف صاع اناج صدقہ کرے ۔
چوتھی قسم : ایسا میت جسے وفات سے پہلے اچانک رمضان میں مرض لاحق ہوگیا اوراسی مرض میں مبتلا ہوکر وفات پاگیا اسے روزہ قضا کرنے کی مہلت نہیں ملی تو ایسے مریض کی جانب سے وارثین پر نہ روزہ ہے ، نہ فدیہ کیونکہ میت معذور ہے خواہ میت سے رمضان کے پورے روزے چھوٹے ہوں یا آخر کے چند ۔ یہی حکم حیض ونفاس کی حالت میں چھوٹے روزے اور بعد میں اس کی مہلت نہ پانے کا بھی ہے یعنی قضا کی مہلت نصیب نہ ہوئی وفات ہوگئی۔
پانچویں قسم : ایسا میت جس نے رمضان میں سفر یا بیماری یا حیض یا نفاس یا حمل یا رضاعت یا کسی اور عذر کی وجہ سے چند روزہ چھوڑا ہواور رمضان کے بعد اس کی ادائیگی کی مہلت ملی مگر کسی وجہ سے قضا نہیں کرسکا تو وفات کے بعد میت کے وارثین میں سے کوئی ایک یا چاہیں تو سبھی مل کر میت کے چھوٹے ہوئے روزے رکھ لیں یہ جائز ومشروع ہےتاہم یہ بات بھی علم میں رہے کہ اگر فدیہ بھی دے دیا جائے تو کفایت کرجائے گا۔ اسی طرح یہ بھی حکم ہے کہ اگرمیت کے رشتہ داروں میں سے کوئی روزہ نہ رکھ سکتا ہو یا روزہ رکھنے والا کوئی موجود نہ ہو تو بھی فدیہ دے دیا جائے گا۔
چھٹی قسم : میت کے ذمہ کفارات کے روزے ہوں تو اس کی بھی قضا کی جائے گی۔
ساتویں قسم : میت کے ذمہ نذر کے روزے ہوں تو بلااختلاف اس کی قضا دینی ہوگی ۔
آٹھویں قسم : میت کی طرف سے عام نفلی روزے نہیں رکھے جائیں گے یعنی میت کے ایصال ثواب کے لئے نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے ۔
نویں قسم : ایسا آدمی جس نے رمضان کا چند دن پایا ان میں روزہ رکھا اور پھر درمیان میں فوت ہوگیا تو فوت ہونے کے وقت سے لیکر رمضان کے اخیر تک جو روزہ میت نہیں رکھ سکا اس کی قضا نہیں ہے کیونکہ میت کے رمضان کے یہ دن پائے ہی نہیں اور رمضان کا روزہ اس کے لئے ہے جو رمضان پائے ۔
اوپر آپ نے میت کے روزوں کی نو اقسام کا علم حاصل کیا ان میں سے بعض اقسام ایسی ہیں جن میں میت کی طرف سے روزوں کی قضا ہے اور بعض اقسام میں روزوں کی قضا نہیں ہے ۔ اب یہاں یہ بات جان لیں کہ میت کی طرف سے رمضان کے چھوٹے روزوں کی قضا سے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے ، بعض کے نزدیک میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے رمضان کے روزوں کی قضا کرنی ہے جبکہ بعض اہل علم نے روزوں کے بجائے فدیہ دینے کی بات کہی ہے ۔
دلائل کی روشنی میں میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے فرض روزوں کی قضا کا جواز اور اس کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے لہذا چند دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔ اللہ کا فرمان ہے : فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ(البقرۃ:184)
ترجمہ : اورجوکوئی مریض ہو یا پھر مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔
یہ آیت بتلاتی ہے کہ جب آدمی کو چھوٹے روزے کی مہلت (ایام اخر) ملے تو قضا کرے اور مہلت ملنے کی باجود قضا نہ کرسکا تو میت کا ولی قضا کرے ۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس میت کو اپنے روزوں کی قضا کی مہلت نہیں ملی اس کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا یا فدیہ وارث پہ نہیں ہے ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : من مات وعليه صيامٌ, صام عنه وليُّه.( صحيح البخاري:1952، صحيح مسلم:1147)
ترجمہ: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔
یہاں ولی سے مرادسرپرست ووارث یعنی باپ ، بھائی ، بیٹا، چچا زاد بھائی یا قریبی رشتہ دارمیں سے کوئی بھی ہے۔ یہ حدیث اپنے معنی ومفہوم میں عام ہے جو نذر اور فرض روزوں کو شامل ہے ۔ اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ میت کے ذمہ اگر نذر کے روزے ہوں تو اس کا وارث قضا کرے گا اختلاف صرف اس میں ہے کہ میت کے فرض روزے جو رمضان کے ہیں اس کی قضا کرے گا کہ نہیں ؟۔
مذکورہ حدیث کی صحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ بخاری ومسلم کی ہے ۔ اسی طرح صحیحین کی یہ روایت بھی دلیل ہے :
جاء رجلٌ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أمي ماتت وعليها صومُ شهرٍ . أفأقضيهِ عنها ؟ فقال " لو كان على أمكَ دَيْنٌ ، أكنتَ قاضيهِ عنها ؟ " قال : نعم . قال " فدَيْنُ اللهِ أحقُّ أن يُقضى " .(صحيح مسلم:1148)
ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ کے پاس آ کر کہا: اے اللہ کے رسول! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے ہیں، کیا میں اس کی طرف سے قضا کروں؟ تو آپﷺ نے فرمایا:اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا اس کی طرف سے تو ادا نہ کرتا، کہاں ہاں ۔ تو نبی نے کہا کہ اللہ کاقرض قضا کئے جانے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
شھر کے لفظ سے غالب گمان یہی ہے کہ سائل نے اپنی ماں کے چھوٹے ہوئےرمضان کے روزے کی بابت ہی سوال کیا ہو کیونکہ رمضان کا روزہ ایک مہینہ کا ہوتا ہے جس کی یہاں صوم شھر سے تعبیر کی گئی ہے۔ ان احادیث کے علاوہ مسند احمد کی ایک روایت میں صاف لفظ رمضان کے روزوں کی قضا کا ذکر ہے ۔
أتتهُ امرأةٌ فقالت : إنَّ أمي ماتت وعليها صومُ شهرِ رمضانَ أَفَأَقْضِيهِ عنها قال : أرأيتُكِ لو كان عليها دَيْنٌ كنتِ تقضيهِ قالت : نعم قال : فَدَيْنُ اللهِ عزَّ وجلَّ أَحَقُّ أن يُقْضَى( مسند أحمد)
ترجمہ: ایک عورت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی، میری امی فوت ہوگئی ہیں ، ان پررمضان کے ایک مہینے کے روزے ہیں ، کیا میں ان کی طرف سے قضاکروں ؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتی؟ تو انہوں نے کہا ۔ہاں ۔ آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
بعض محدثین نے رمضان کا لفظ نقل کرنے والوں کی خطا قرار دیا ہے مگر علامہ احمد شاکرنے مسند احمد کی تحقیق میں اس لفظ کو ثابت مانا ہے اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیں :( المسند ،تحقیق احمد شاکر: 5/141)
یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی وارد میں ہے مگر وہاں رمضان کا لفظ نہیں ہےصوم شھر آیا ہے اور پہلے بتلا چکا ہوں کہ صوم شھر سے بظاہر رمضان ہی مراد ہے۔ اس حدیث سے ظاہر ا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعہ ہوگا ایک مرتبہ عورت نےرسول اللہ ﷺ سے سوال ہو اور دوسری مرتبہ مرد نے سوال کیا ہو۔اگر رمضان کا لفظ ثابت مان لیا جائے جیساکہ بعض نسخون میں ہے تو پھر اختلاف کی گنجائش ہی نہیں رہتی ،مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ میت کے چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزے قضا کئے جائیں گے ۔ متقدمین ومتاخرین علماء میں سے بہت سے اسے موقف کے قائل ہیں مگر بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ میت کی طرف سے رمضان کے روزوں کی قضا کے قائل نہ تھے بلکہ فدیہ دینے کے قائل تھے ۔ نیچے ان ادلہ کا جواب دیا جارہاہے جن سے استدلال کرتے ہوئے میت کی طرف سے فرض روزوں کی قضا کا انکار کیا جاتا ہے ۔
مانعین کے چند ادلہ اور ان کے جوابات
پہلی دلیل اور اس کا جواب : "من مات وعليه صيامٌ, صام عنه وليُّه "والی روایت نذر سے متعلق ہےجیساکہ اس روایت کی راویہ حضرت عائشہ سے دوسری حدیث میں رمضان کے روزوں کی قضا کی نفی ہے ۔ وہ اثر اس طرح سے ہے : عن عَمرةَ: أنَّ أمَّها ماتَت وعليْها مِن رَمضانَ فقالَتْ لعائشةَ: أقضيهِ عنْها ؟ قالَت: لا، بَل تصدَّقي عنْها مَكانَ كلِّ يومٍ نصفَ صاعٍ على كلِّ مسْكينٍ۔
ترجمہ: عمرہ سے روایت ہےکہ ان کی ماں فوت ہوگئی، اس پر رمضان کے روزے باتی تھے، اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ، کیا میں اپنی ماں کی طرف سے ان کی قضائی دوں ؟ آپ نے فرمایا، نہیں ، بلکہ ہر روزے کے بدلے کسی مسکین پر ایک صاع گندم صدقہ کر۔
جواب : اولا "من مات" والی روایت نبی ﷺ کا فرمان ہے جوکہ عام ہےنیز اس میں میت کے چھوٹے ہوئے ورزوں کے متعلق قاعدہ بیان کیا جارہاہے اور دوسری روایت فرمان رسول نہیں ہے بلکہ اثر ہے ، اثر پہ حدیث کو ترجیح دی جائے گی اور اس حیثیت سے بھی ترجیح دی جائے گی کہ یہ ایک صحابیہ کی فہم ہے جو فرمان رسول کے نیچے ہے۔ساتھ ہی اثر کے متعلق شیخ البانی نے لکھا ہے کہ اس کی سند کو ترکمانی نے صحیح مگر بیہقی اور عسقلانی نے ضعیف کہا ہے اور اس کی دوسری کوئی سند نہیں ہے۔ (احکام الجنائز :215)
دوسری دلیل اور اس کا جواب : حدیث میں ہے کہ میت کی طرف سے کوئی نہ نماز پڑھے اور نہ ہی روزہ رکھے ۔
لا يصومُ أحدٌ عن أحدٍ ولا يصلي أحدٌ عن أحدٍ(مشکوۃ)
ترجمہ: کوئی کسی کی طرف سے نہ روزہ رکھے اور نہ کوئی کسی کی طرف سے نماز پڑھے ۔
جواب : پہلی بات یہ ہے کہ یہ روایت منقطع ہے جیساکہ شیخ البانی نے کہا ہے ۔ (تخریج مشکوۃ المصابیح : 1977)دوسری بات یہ ہے کہ بعض محدثین نے موقوفا صحیح کہا ہے جیساکہ مبارک پوری رحمہ اللہ تو اس کےدو جواب ہوں گے ۔ پہلا جواب یہ ہوگا کہ یہ زندہ آدمی کے متعلق ہے کہ کوئی زندہ آدمی کسی زندہ آدمی کی طرف سے نہ روزہ رکھے اور نہ ہی نماز پڑھے۔ دوسرا جواب یہ ہوگا کہ کوئی زندہ آدمی میت کی طرف سے نفل نماز نہ پڑھے اور نفل روزہ نہ رکھے ۔
تیسری دلیل اور اس کا جواب : ابن عمر کی رائے یہ ہے کہ میت کی طرف سےرمضان کے روزوں کی قضا نہیں ہے ۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينٌ(ترمذی: 6441، ابن ماجہ:1757)
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص اس حال میں فوت ہو جائے کہ اس کے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر دن ( کے روزے ) کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیا جائے۔
جواب : یہ روایت ضعیف ہے اس سے استدلا ل نہیں کیا جائے گا۔ دیکھیں :(ضعيف ابن ماجه:347، تخريج مشكاة المصابيح:1976، ضعيف الجامع:5853، ضعيف الترمذي:718)
یہاں ایک اہم نقطہ سمجھ لیں کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے "باب من مات وعلیہ صیام رمضان قد فرط فیہ" (باب: جس شخص کے ذمے کوتاہی کی وجہ سے رمضان کے روزے باقی ہوں اور وہ قضا اداکیے بغیر فوت ہو جائے( کے تحت ذکر کیا ہے جبکہ اس روایت میں رمضان کا لفظ نہیں صیام شھر کا لفظ ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اوپر ذکر کردہ مسلم شریف کے الفاظ صوم شھر سے مراد رمضان کے روزےہی ہیں جس کی قضا کا حکم دیا ہے اور یہ حکم نبوی ﷺ ہے اس حکم کے سامنے کسی کی فہم یا قیاس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
چھوتھی دلیل اور اس کا جواب :ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ ہے کہ میت کی طرف سے رمضان کا روزہ قضا نہیں کیا جائے گا، دلیل یہ ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِذَا مَرِضَ الرَّجُلُ فِي رَمَضَانَ، ثُمَّ مَاتَ وَلَمْ يَصُمْ, أُطْعِمَ عَنْهُ، وَلَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ, قَضَى عَنْهُ وَلِيُّهُ .(ابوداؤد:2401)
ترجمہ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جب کوئی شخص رمضان میں بیمار ہوا اور پھر فوت ہو گیا اور روزے نہ رکھ سکا ہو تو اس کی طرف سے کھانا کھلا دیا جائے ، اس پر قضاء نہیں ہے ۔ اگر اس نے نذر مانی تھی تو اس کا ولی قضاء دے ۔
جواب :اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح ابوداؤد میں شمار کیا ہے ۔ یہ بھی اثر ہے اور ایک صحابی کی اپنی فہم ہے ، ظاہر سی بات ہےکہ فرمان رسول کے ہوتے ہوئے کسی قول کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔
اگر مسئلہ یہ ہے کہ کوئی رمضان میں بیمار ہوگیا اور اسی بیماری میں وفات ہوگئی تو اس کی قضا نہیں ہے نہ ہی کفارہ ہے جیساکہ اوپر بیان کیا کردیا گیا ہے ، اس اثر میں بھی اسی بات کا ذکر ہے ، رہ گئی فدیہ دینے کی بات تو یہ میت کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا جو متعدد دلائل سے ثابت ہے ۔ ان کے علاوہ مزید کچھ اور دلائل پیش کئے جاتے ہیں مگران سے استدلا ل کمزور ہونے اور خوف طوالت کی وجہ سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔
خلاصہ کلام اور راحج قول یہ ہے کہ میت کی طرف چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزے قضا کئے جائیں گے ،یہ مسئلہ منصوص اور جائزو مشروع ہے ۔ نبی ﷺ نے اسے میت کا قرض قرار دیا ہے اور قرض کی ادائیگی اسی شکل میں ادا کرنا اولی ہے جس شکل کا قرض ہے یعنی میت کے ذمہ روزہ کا قرض باقی ہے تو اس کے وارثین روزہ کی قضا دے کر اس قرض کو اتارے ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اضافہ کرتا ہوں اگر میت کے وارثین میں سے کوئی روزہ نہ رکھ سکےیا نہ رکھنا چاہے یا روزہ رکھنے والا کوئی موجود ہی نہ ہو تو فدیہ ادا کردیا جائے۔آخری بات یہ جان لیں کہ ایسی کوئی مرفوع حدیث نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ رمضان کے روزوں کی قضا نہیں ہے البتہ صحیح مرفوع احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کے چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزوں کی قضا ہے ۔ اس مسئلہ کے ساتھ سب سے اوپربیان کردہ میت کے روزوں کی اقسام کی بھی دھیان رہے ۔

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 320 Articles with 350232 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.