امریکی اھداف اور قومی ترجیحات

امریکا کے اسٹرے ٹیجک مقاصد اور اہداف بالکل واضح ہیں۔ اس کا اصل مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ امریکا، پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جو ٹرائی اینگل اسلوب ۱۹۵۰ء کی دہائی سے قائم تھا، اسے بش کے دور میں درہم برہم کردیا گیا اور اسے پاکستان اور بھارت کے امریکا تعلقات کے ربط ختم کرنے (de-hyphenization) کا عنوان دیا گیا حالانکہ اصل مقصد بھارت سے اسٹرٹیجک شراکت کا قیام تھا جسے ۲۰۰۶ء میں ایک واضح شکل دے دی گئی ہے اور پاکستان کے تمام خدشات و تحفظات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اوباما صاحب کو نومبر ۲۰۱۰ء میں ہونے والا چار ممالک کا دورہ جس میں بھارت سرفہرست ہے امریکی حکمت عملی کا علامتی اظہار ہے، اس راستے میں پاکستان کہیں بھی نہیں ہے البتہ اشک شوئی کے لیے کہا جارہا ہے کہ ۲۰۱۱ء میں پاکستان کا دورہ کیا جائے گا مگر امریکا نے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں:
۞ اشتراکِ مقاصد و اقدار ۞ مشترک مفادات ۞ درج بالا مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے ذرائع اور طریق کار پر رضامندی ۞ طویل المدت، مستقل اور دیرپا پالیسیاں اور پروگرام ۞ باہمی اعتماد

اگر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو ان دونوں ممالک کے باب میں یہ پانچوں چیزیں مفقود ہیں۔

امریکا کا مقصد اپنے عالمی غلبے کو باقی رکھنا اور کم از کم اکیسویں صدی کے اوّلین نصف میں اپنی عالمی بالادستی کا تحفظ اور ہر متبادل قوت کو اپنے گھیرے میں لینا ہے۔ اس وجہ سے وہ دنیا کے ۱۴۸ممالک میں اپنی فوجیں رکھے ہوئے ہے اور سیاسی اور معاشی معاہدات کے ذریعے اپنی گرفت کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر یہ سارا منظرنامہ اس کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہوگیا تھا، اسے اس نئی جنگ اور اس کی بنیاد پر کون کس کے ساتھ ہے؟ کے فلسفے کی روشنی میں عالمی سیاست کا دروبست قائم کیا گیا ہے۔ اس میں ناٹو کے لیے ایک نیا کردار تراشا جارہا ہے۔ اسرائیل، شرق اوسط کا اہم ترین کھلاڑی ہے۔ ایشیا کو اپنی گرفت میں رکھنے اور چین کے گرد گھیرا مضبوط کرنے کے لیے امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ وجود میں آئی ہے۔

ان امریکی مقاصد میں سے کوئی بھی ہدف پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ایسی عالمی بساط پر ہم کوئی کھلاڑی نہیں۔ چین سے ہمارا تعلق حقیقی اسٹرے ٹیجک نوعیت کا ہے، جب کہ ہمارے سارے تنازعات کا تعلق بھارت سے ہے۔ افغانستان اور ایران سے متعلق ہماری سرحدات تاریخی اعتبار سے محفوظ ترین تھیں اور سارے خطرات صرف بھارت کی طرف سے تھے۔ امریکا کی حکمت عملی ہمیں شمال اور شمال مغرب میں اُلجھانا ہے اور بھارت کے لیے برعظیم ہی میں نہیں جنوبی، شرقی اور وسطی ایشیا میں بھی کردار کو فروغ دینا ہے۔ اس فریم ورک میں امریکا اور پاکستان کے عالمی مقاصد میں کوئی مطابقت نہیں۔

جہاں تک مفادات کا تعلق ہے امریکا کا مسئلہ تیل اور دوسرے معاشی وسائل پر تسلط اور اپنی مصنوعات اور سرمایے کے لیے منڈیوں کا حصول ہے۔ اس کی نگاہ میں کسی بھی ملک اور خاص طور پر پاکستان، ایران، کوریا، عراق یا کسی بھی عرب ملک یا اسلامی ملک کی نیوکلیر صلاحیت ایک خطرہ ہے۔ہر ایسی معاشی صف بندی جو دنیا کے ان ممالک میں خودانحصاری کی کیفیت پیدا کرسکے، امریکا اور عالمی سرمایہ دارانہ سامراج کے مفادات کے خلاف ہے، جب کہ عالمی تجارت کی راہوں کے کھلے ہونے کے ساتھ پاکستان، عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک کا مفاد اس میں ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ بنیادی ضروریات اور ٹکنالوجی کے میدان میں امریکا اور مغرب پر ان کا انحصار کم ہو۔ وہ خود اپنے وسائل کو اپنی ترجیحات اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرسکیں۔

یہاں بھی امریکا، مغرب کے سامراجی ممالک اور پاکستان، دوسرے مسلمان اور تیسری دنیا کے ممالک کے مفادات سے متصادم ہیں۔ پھر پاکستان کے فوری مسائل اور مفادات ہیں، جن کا تعلق مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین، پانی کا مسئلہ، خوراک میں خودانحصاری، معاشی ترقی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کی حفاظت اور پرورش ہیں۔ یہاں بھی پاکستان اور امریکا کے مفادات میں فاصلے زیادہ اور قربت کم اور واجبی ہے۔

یہی معاملہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ہے، جس کی سب سے بھاری قیمت پاکستان، افغانستان اور عراق نے ادا کی ہے۔ امریکا کے جتنے فوجی اور شہری افغانستان اور عراق میں ہلاک ہوئے ہیں، ان سے کہیں زیادہ پاکستانی فوجی اور عام شہری محض امریکا کی جنگ میں شرکت کی سزا میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ معاشی اور فوجی امداد کا بڑا چرچا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر جانی نقصان کو نظرانداز کردیا جائے (گو ایسا کرنا ایک سنگین جرم ہوگا) اور صرف معاشی پہلو کو لیا جائے تو امریکا نے جو ۱۹بلین ڈالر گذشتہ نو سال میں دیے ہیں ان میں ۱۱بلین ڈالر ان اخراجات اور خدمات کی مد میں ہیں، جو پاکستان نے امریکی افواج اور ضروریات کے لیے انجام دی ہیں، اور جسے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کہتے ہیں، جب کہ اس جنگ میں شرکت کا جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے، وہ وزارتِ خزانہ کے ہر اعتبار سے کم سے کم ترین پر تخمینوں کے مطابق بھی ۴۳ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، اور خود ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے اس وقت ڈھائی ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔ یہ وہ خرچہ ہے جو حکومتِ پاکستان، اسٹیٹ بنک سے قرض لے کر کرچکی ہے، اور جس کی وجہ سے وہ اس وقت اسٹیٹ بنک کی ۱۸۵ ارب کی مقروض ہے، اور جس پر ۲ ارب روپے ماہانہ سود بھی حکومتِ پاکستان کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نفع کا سودا ہے یا صریح نقصان کا۔ یہ صورت حال مفادات کے اشتراک کی تصویر پیش کرتی ہے یا ان میں تصادم اور تناقض کی۔

تیسرے نکتے کا حال بھی ذرا مختلف نہیں۔ معاشی تعاون اور سرمایہ کاری میں اشتراک کے چند منصوبوں کو چھوڑ کر، زیادہ معاملات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان اشتراکِ عمل کے جو پروگرام ہیں، وہ نمائشی زیادہ اور حقیقی کم ہیں۔ پھر ان تعلقات میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ وقتی اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بدل جانے والے ہیں۔ برابری کی بنیاد پر توازنِ قوت کے تفاوت کی وجہ سے معاملات مرتب کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ لیکن کم از کم مقدار میں بھی ایک دوسرے کی آزادی، عزتِ نفس، قومی مفادات، نظریاتی اور تہذیبی اختلافات بلکہ احترام کا بھی فقدان ہے، اور تعلقات اور منصوبوں میں کوئی تسلسل اور دوام نہیں۔ آج دوستی میں گاڑھی چھن رہی ہے اور کل پابندیاں مسلط کردی جاتی ہیں، تمام منصوبوں کو بیچ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دفاعی سسٹم کے باب میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ دفاعی تنصیبات سے متعلق فاضل پُرزوں اور مرمت تک کی سہولت کو منقطع کردیا جاتا ہے، جس سے ملک کی سلامتی کو شدید خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ مختلف عذرات کی بنیاد پر پاکستانی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی۔ جہاں تجارتی تعلقات ہیں وہاں بھی ایسی ہی امتیازی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے خلاف ہیں۔ اپنے پسندیدہ ممالک کو اور جہاں ضرورت محسوس ہو تحفظ دیا جاتا ہے، لیکن دوسروں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے قومی مفاد کی روشنی میں انھی حربوں کو استعمال کریں۔ اس طرح تیسرے اور چوتھے دونوں نکات کے سلسلے میں بھی اتفاق کے نکات کم اور محدود اور اختلاف کے وسیع ہیں۔

رہا معاملہ باہمی اعتماد کا تو اس کا دُور دُور تک وجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ لالچ اور خوف ہی کارفرما قوتیں ہیں۔ اعتماد، ایثار اور شراکت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ ان حالات میں ہمارے ارباب حل و عقد کی جانب سے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کے دعووں کو خودفریبی کے سوا کس نام سے پکارا جاسکتا ہے۔ ہم پاکستان اور امریکا کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں، لیکن یہ تاریخی تجربات اور زمینی حقائق کی بنیاد ہی پر ہوسکتے ہیں۔ امریکا ایک سوپر پاور ہے اور اس سے تصادم بلاشبہہ مفاد میں نہیں۔ بہت سے معاملات میں تعاون کے ہزاروں راستے نکالے جاسکتے ہیں، جس میں دونوں کے لیے بھلائی اور نفع ہو۔ عالمی تجارت کے اسی اصول پر فروغ پاتی ہے۔ چھوٹے ممالک کی بھی اسٹرے ٹیجک اہمیت ہوسکتی ہے اور پاکستان کو یہ حیثیت حاصل ہے۔ مختلف ممالک باہمی رضامندی اور باہمی لین دین کے معروف اصولوں کی روشنی میں سب استفادہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حقائق کو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔ ایک دوسرے کے جائز مفادات کو سامنے رکھ کر آزاد مرضی سے معاملات طے کیے جائیں۔ پستول تان کر یا رشوت اور دھونس جماکر ایک پارٹی دوسرے پر اپنی راے مسلط نہ کرے اور کمزور ممالک میں اپنے طفیلی عناصر کو حکمران بنا کر ان کے ذریعے قوم کی تمناؤں، عزائم اور مفادات کے برعکس پالیسیاں مسلط نہ کی جائیں۔

ہر ملک اور قوم کی اپنی ترجیحات اور ضرورتیں ہیں اور آزادی، عزتِ نفس، نظریاتی اور تہذیبی تشخص اور سیاسی اور معاشی مفادات ہر ایک کے لیے اہم ہیں۔ اس لیے انصاف اور تعاون باہمی کی بنیاد پر تو سب سے تعلقات خوش گوار رہ سکتے ہیں اور یہی مطلوب ہے۔ امریکا سے تعلقات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ جبر اور مجبوری کی حد تک تو کچھ عرصے کے لیے چل سکتا ہے لیکن نہ وہ دیرپا ہوسکتا ہے اور نہ اس کے نتائج سے خیروفلاح کی توقع کی جاسکتی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ایک سوپرپاور ہوتے ہوئے اور دنیا کے مختلف علاقوں اور ممالک میں بعض اچھے اور مفید کام کرنے کے باوجود بھی دنیا کے ممالک کی ایک عظیم اکثریت کے عوام میں اس کے خلاف بے زاری، نفرت اور مخالفت کے جذبات کیوں موجزن ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ع
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

بلاشبہ امریکی نظامِ حکومت، معاشرے اور تمدن میں بہت سی چیزیں مثبت بھی ہیں، جن میں تمام کمزوریوں اور مفاد پرست عناصر کے سارے کھیل کے باوجود بڑی حد تک دستور اور قانون کی حکمرانی کا ایک نسبتاً قابلِ بھروسا نظام موجود ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دوسرے مسلمان، عرب، میکسی کن اور خود ایفرو امریکی حضرات کے باب میں کی جانے والی کھلی کھلی ناانصافیوں اور تعصب کے مظاہر بھی موجود ہیں۔ اسی طرح شخصی، سیاسی اور معاشی آزادی کی روایات، تعلیم، تحقیق، ایجاد و اختراع، معاشی اور سیاسی میدانوں میں بڑی حد تک ترقی کے مواقع کی موجودگی اور فراہمی، خوش حال معاشرے کا قیام اور احتساب کا نظام مثبت پہلو ہیں، جن کا اعتراف نہ کرنا حق و انصاف کے منافی ہوگی۔ پھر اپنی قوم سے قیادت کی وفاداری اور بحیثیت مجموعی قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دینا قابلِ قدر پہلو ہے۔ اسی طرح جیساکہ ہم نے عرض کیا باہمی مفاد کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور حتیٰ کہ عسکری تعاون کی گنجائش بھی موجود ہے۔

امریکا پر ہماری تنقید کی بنیادی وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں ہیں جو ہمارے مسلم اُمہ کے اور دنیا کے مظلوم عوام کے مفاد کے خلاف، اور اس کے اپنے جہانگیری اور سامراجی مقاصد اور عزائم کے حصول کے لیے اس نے اختیار کی ہیں۔ بین الاقوامی میدان میں اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کرنے اور ان کے مفادات کو بے دردی سے کچلنے کا ذریعہ ہیں۔ یا پھر وہ منافقت اور دو رنگی ہے، جو قول و عمل کے تضاد یا انسانوں، گروہوں اور اقوام کے درمیان امتیازی سلوک اور سفاکانہ رویوں کا مظہر ہیں۔ اگر امریکا کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور اپنے مفادات کے لیے کام کرے تو یہی حق ہم کو اور دنیا کی دوسری اقوام اور اہلِ مذہب کو بھی حاصل ہے۔ بین الاقوامی امن اور انصاف کسی ایک کو دوسرے پر اپنی راے قوت، جبر اور دھوکے سے مسلط کرنے کا حق نہیں دیتے۔ دوطرفہ تعلقات صرف افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کے حقوق اور مفادات کے احترام سے حاصل ہوسکتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مفقود ہے۔

(پروفیسر خورشید احمد کے اشارات سے اقتباس )
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520253 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More