تربیت اور ڈسپلن!

 ایک ولیمے کی تقریب میں شرکت کرنا تھی، راستے سے ایک دوست کو ساتھ لینا تھا، دوست کا ایک درمیانہ سا نجی سکول ہے، یہی ان کا ذریعہ معاش ہے اور یہی مصروفیت۔ ایک گھنٹہ سے زیادہ کا سفر تھا، میں سکول ٹائم میں ہی دوست کے پاس پہنچ گیا، گیٹ سے اندر داخل ہوا تو ساتھ ہی پانچ چھ لڑکے دیوار کے ساتھ قطار میں کھڑے تھے، اندر دفتر میں دو ایک والدین موجود تھے۔ بات انہی باہر کھڑے بچوں کے بارے میں ہورہی تھی، والدین کا کہنا تھا کہ ان کے بچے بہت فرمانبردار اور اچھے ہیں، جبکہ سکول والوں کی رائے اس کے برعکس تھی۔ ان کا بیان یہ تھا کہ بچے کبھی سکول آتے ہیں اور کبھی نہیں آتے، (گھر والوں کے بقول وہ روزانہ سکول آتے ہیں) جس روز آتے ہیں، کلاس کا ناک میں دم کرکے رکھتے ہیں، ٹیچرز سے بدتمیزی کرتے ہیں، دوسرے بچوں کو تنگ کرتے ہیں اور ماحول کو تعلیم دوست ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب سارا دن کلاس میں ہنگامہ برپا رہتا ہے تو پڑھائی کیا خاک ہوگی؟ مگر والدین کو سکول میں تکلیف دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ آٹھویں کلاس میں سیگریٹ سلگایا گیا، یقینا ’سُوٹا‘ بھی لگایا گیا ہوگا، کوئی بھی لڑکا دوسرے کا نام بتانے کے لئے تیار نہ تھا۔
 
میرے دوست کی کیفیت یہ تھی کہ وہ خون کے گھونٹ پی رہا تھا، کیونکہ جس کرب سے وہ گزر رہا تھا، بچوں کے والدین اس بات کو ماننے پر تیار نہیں تھے۔ اس نے جیسے کیسے والدین کو روانہ کیا، کیونکہ دوسرے بچوں کے والدین نے بھی آنا تھا، ہر کسی سے الگ ملاقات ضروری تھی۔ ابھی دوسرے والدین نہ آئے تھے کہ کلاس سے (کلاس روم دفتر کے قریب ہی واقع تھا) ایک شور بلند ہوا، بچے بے ہنگم شور کررہے تھے، کسی کو کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی، شاید پیریڈ تبدیل ہوا تھا، لڑکوں کے مچائے ہوئے شور میں کمی تو واقع نہیں ہوئی تھی کہ اسی دوران شور میں ایک خاتون کی آواز کا اضافہ بھی ہوگیا، گویا کوئی اور ٹیچر کلاس میں پہنچ چکی تھیں۔ لڑکوں پر خاتون ٹیچر کا کنٹرول اسی قدر تھا کہ وہ بھی شور کرتی جاتی تھی اور لڑکے بھی اپنی دھن میں مگن تھے۔ میرا دوست اپنی کرسی پر بیٹھا بَل کھا رہا تھا، والدین کی موجودگی میں ہنگامہ آرائی سے وہ پریشان تھا۔ اتنے میں دوسرے لڑکے کے والدین آگئے، انہوں نے اپنے بچے کی خوبیاں نہیں بیان کیں، بلکہ سکول والوں کو ان کی مرمت کرنے کی اجازت بھی دی۔

والدین کو معاملات کی شدت سے آگاہ کرنے کے بعد ہم دونوں اکیلے تھے، دوست کا کہنا تھا کہ ہم بچوں کو سدھارنے کی بہت کوشش کرتے ہیں، انہیں نصیحتیں کرتے ہیں، احساس دلاتے ہیں، مثالیں دیتے ہیں، مگر لڑکے ہیں کہ مان کر نہیں دیتے، جذباتی لیکچر کا اثر چند منٹ تک بھی قائم نہیں رہتا، ہم جونہی کلاس سے باہر نکلتے ہیں، بچے اپنی ڈگرپر آجاتے ہیں۔ سکول کا مالک، ہیڈ ٹیچر اور دیگر پڑھانے والی لڑکیاں، سب ہی ان آٹھویں کلاس کے لڑکوں سے نہایت درجے تنگ تھے۔ بات شرارت سے شروع ہوتی ہے اور بدتمیزی تک پہنچ جاتی ہے، اب تو معاملہ بدتمیزی سے بھی آگے گزر گیا تھا۔ مجھے بھی سکول والوں کی بے بسی پر ترس آیا، میں نے کہا کہ اگر کلاس کے سب سے زیادہ شرارتی دوتین بچوں کی کچھ مرمت ہو جائے تو معاملات ہاتھ میں آسکتے ہیں، اس پر میرے دوست نے ٹھنڈی آہ بھری، آنکھیں بند کیں اور سر کو نفی کے انداز میں کچھ حرکت دی۔ پھر میری طرف متوجہ ہوا کہ بچوں کو قابو میں لانا ناممکن نہیں، مرمت کا فارمولا بہت کارگر ہے، مگر سرکاری سکولوں کے اساتذہ نے بے دردی سے بچوں کی پٹائی کا ایسا کلچر پیدا کیا کہ یہ مار ظلم کی شکل اختیار کرگئی، جس کے خلاف حکومت نے قانون بنا دیا کہ ’’مار نہیں پیار‘‘۔ اب اگر کوئی ہلکی سی مار کی شکایت بھی مل جائے تو معاملہ بہت سنجیدہ قرار دیا جاتا ہے اور بات بہت اوپر تک جاتی ہے۔ اگر مار اعتدال میں ہوتی تو ڈسپلن کی کہانی ہوتی، جزا اور سزا کے بغیر ڈسپلن قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ ہم اسی کشمکش میں وہاں سے روانہ ہوگئے، میں سکول والوں کی بے بسی اورحالات کے جبر کے بارے میں سوچنے لگا، اور یہ بھی کہ اگر والد صاحب سیگریٹ پیتے ہیں، تو اپنے آٹھویں کے لڑکے کو کیسے منع کر سکتے ہیں؟ اور ڈسپلن کے بغیر بچوں کی بے راہ روی کیا گُل کھلائے گی اور اساتذہ کا احترام کہاں سے تلاش کیا جائے گا؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472573 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.