دین اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی سے منور کیا ،استاد کو
عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ مقام عطا کیا ہے ،نبی کریمﷺ نے اپنے مقام و
مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا " مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "(ابن
ماجہ229)۔ دین اسلام نے استادکو روحانی باپ کا درجہ عطا کیا۔معلّم کے کردار
کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو
میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں ،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ،آدم ؑ کو
اﷲ تعالی نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔(البقرہ31)۔انسان کی تخلیق
کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا" رحمٰن ہی نے قرآن کی تعلیم دی،اس
نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی"۔(الرحمٰن)ذریعہ تعلیم قلم کو
بنایا "پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ
سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا"۔(العلق6)۔حضرت علی المرتضی ؓکا قول ہے کہ جس
نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے
یا بیچ دے۔(تعلیم المتعلم21)حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتناڈرتے
اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں۔حضرت یحییٰ
بن معین بہت بڑے محدث تھے امام بخاری ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا
جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام
ابو یوسف کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں
کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔(تعلیم المتعلم 22)ایک مشہور قول ہے کہ استاد
بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بنا دیتا ہے اپنی آج کی تحریر میں فاتح عالم
سکندر کا ایک واقعہ بیان کرتا جاؤں وہ واقعہ کچھ یوں ہے "ایک بار سکندراعظم
اپنے استاد محترم ارسطو کے ساتھ گھنے جنگلات سے گزر رہے تھے اچانک راستے
میں ایک نالہ آگیا جوکہ برسات کی وجہ سے طغیانی پر آیا ہوا تھا اب نالے سے
ایک شخص پہلے اور ایک بعد میں گزر سکتا تھا لہٰذا استاد اور شاگرد میں پہلے
نالہ پار کرنے پر بحث شروع ہو گئی اور سکندر پہلے نالہ پار کرنے پر بضد تھا
آخر ارسطو نے بحث کے بعد سکندر کو پہلے نالہ عبور کرنے کی اجازت دے دی یوں
سکندر نے پہلے اور ارسطو نے بعد میں نالہ عبور کیا ۔۔۔۔۔۔نالہ عبور کرتے ہی
ارسطو نے سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کیا تم نے پہلے نالہ عبور کرتے ہوئے
میری بے عزتی نہیں کی؟ سکندر نے بڑے احترام سے جواب دیا۔نہیں استاد محترم
ایسا بلکل نہیں ہے میں نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے کیونکہ اگر ارسطو رہے
گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں
کر سکتا"۔اشفاق احمد اپنی سوانح حیات میں ایک دلچسپ واقع بیان کرتے ہیں
کہ"اٹلی میں میرا ٹریفک چالان ہو گیا اور بہت زیادہ مصروفیات کی وجہ سے
چالان ادا نہیں کر سکا جس وجہ سے کورٹ جانا پڑاجج کے سامنے پیش ہوا تو جج
نے وجہ پوچھی میں نے کہا پروفیسر ہوں مصروفیات زیادہ تھیں ابھی میں نے اتنی
بات ہی کی تھی کہ جج نے اونچی آواز میں کہا A Teacher is in The Court یہ
لفظ سنتے ہی تمام لوگ کھڑے ہو گئے اور مجھ سے معافی مانگی اور میرا چالان
کینسل کر دیا اشفاق احمد آگے لکھتے ہیں کہ مجھے اُس دن قوم کی ترقی کا راز
معلوم ہوگیا"۔دنیا بھر میں استاد کا احترام کیا جاتا ہے لیکن ایک سروے کے
مطابق چائنہ واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ احترام استاد کا کیا جاتا ہے
ہمارے وطن پاکستان میں بھی استاد کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس حد تک نہیں
جتنا استاد شاگرد کو محبت دیتا ہے ہر سال 5اکتوبر کو دنیا بھر میں عالمی
یوم اساتذہ منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد استاد کی عزت اور
معاشرے میں استاد کے کردار کو اجاگر کرنا ہے یوم اساتذہ مختلف ممالک میں
مختلف دنوں میں منایا جاتا ہے پہلی بار یہ دن دنیا بھر میں 5اکتوبر 1994کو
منایا گیا ۔ عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں استاد کو خراج تحسین پیش کیا
جاتا ہے شاگرد اپنے اساتذہ کو مختلف انداز میں محبت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں
۔ لیکن موجودہ دور میں اکثرسکولوں اور کالجوں میں تعلیم تجارت بن گئی اور
درس گاہیں تجارت کی منڈیوں میں تبدیل ہوچکے، جس کی وجہ سے یقیناََ ’’استاد‘‘
جیسی عظیم ہستی کی قدر ومنزلت بھی کم ہو کر رہ گئی ہے، قوم کے معمار وں اور
وطن عزیز کے نونہالوں کے ساتھ ناورا سلوک شروع ہوگیا، آج کل سکولوں میں
اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی اور بے ادبی کے واقعات روز رونماں ہورہے ہیں۔ ایک
طرف معاشرہ میں اور بالخصوص درس گاہوں میں اساتذہ کے گھٹتے ہوئے معیار کو
بلند کرنے کی ضرورت ہے، وہیں طلباء کے دلوں میں ان کی عظمت و اہمیت کو
بٹھانے کی ضرورت ہے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا اور
اپنے فرائض کو باخوبی انجام دینے کی بھی اشد ضروری ہے۔ استاد کو اﷲ تعالی
نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ قوم کے مستقبل کو تعمیر کرتا ہے، ملک وملت کے
سرمایہ کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے، ان کے ہاتھوں میں افراد کی زندگیاں
ہوتی ہیں، آنے والے طلباء میں اچھے، بااخلاق بھی ہوتے ہیں اور بداخلاق اور
ناسمجھ بھی، استاد جذبہ، خلوص کے ساتھ ِان پتھروں کو تراش کر ہیرے بناتا ہے
اگر استاد اپنی ذمہ داری کو فراموش کردے اور تن پروری اس کا بھی مقصد بن
جائے تو پھر نتیجہ یہ ہوگا کہ انسانیت کے لئے خیرخواہ افراد کا ملنا اور
محبتوں کے پیکروں کا فراہم ہونا مشکل ہوجائے گا۔پانچ اکتوبرکے دن کی مناسبت
سے اوکاڑہ میں اکثر سکولوں میں سلام ٹیچر ڈے کی تقریبات منعقد ہوئیں جن میں
گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج ،گورنمنٹ گرلز ماڈل ہائی سکول اور چند دیگر
پرائیویٹ سکولز کالجز بھی شامل ہیں گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن تھری ریمینگ
سکول میں سلام ٹیچر ڈے کی ایک اہم تقریب منعقد ہوئی جس سے مقررین نے خطاب
کرتے ہوئے کہا اس دن کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ استاد کے مقام و مرتبہ
کواجاگر کیا جائے اور اس کو وہ عزت و احترام دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے۔
استاد وہ مینارہ نور ہے جوبچے کی راہ کو (علم و ہدایت سے ) منور کر دیتا
ہے۔ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو بچے کو نہ صرف ایک اچھا طالب علم بنائے
بلکہ ایک اچھا انسان بھی بنائے تقریب کی مہمان خصوصی معروف سوشل ورکر سابق
سینئر نائب صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اوکاڑہ مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ تھیں
جبکہ مہمانان اعزاز میں گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن تھری ریمینگ سکول کی
پرنسپل مسز انیلہ طارق اور گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن سکینڈری سکول کے قائم
مقام پرنسپل احمد سعید اورچیف آرگنائزر "ماڈا" اوکاڑہ رجسٹرڈ صدر سٹی پریس
کلب رجسٹرڈ محمد مظہررشید چوہدری تھے جبکہ تقریب میں سکول کے اساتذہ نے بھر
پور شرکت کی تقریب کے اختتام پر بچوں نے اساتذہ کو اپنے ہاتھوں سے بنے کارڈ
دیے جبکہ پرنسپل مسز انیلہ طارق کی جانب سے اسٹاف کو گفٹ دیے گئے ٭ |