الشیخ جامی رحمہ اللہ سے ایک سوال پوچھا گیا کہ وہ کون سی کتابیں
ہیں جو ایک دین کے طالب علم کو عقیدہ، تفسیر، حدیث اور اسکی فقہ کے حوالے سے پڑھنی
چاہیے؟ الشیخ رحمہ اللہ نے تفصیلا جواب دیا:
پہلا رسالہ جو میں آپ کو نصیحت کروں گا، کہ جو علم حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھائے
وہ"الاصول الثلاثۃ" ہے، اس کے بعد ارکان، واجبات اور شروط صلاۃ سیکھے. اور یہ اس
کتاب سے سیکھیں جو ایک ہی کتاب میں مرکوظ ہوں اور اس کے ساتھ "قوائد الاربع" بھی
ہوں. اسکے ساتھ بہتر ہے کہ لا الہ الا اللہ کی شرائط اور نواقض لا الہ الا اللہ بھی
یاد کرے.
یہ ضروری ہے کہ وہ ان مسائل کو یاد کرے، اور اس کے بعد، ان کو طلاب العلم کو سنائے.
تاکہ علم کو بندوں کے منہ سے سنے نہ کہ صرف کتابوں سے. اس کے بعد اگر وہ کشف
الشبہات یاد کر لے تو اچھا ہے. اگرچہ، ایک طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کو
یاد کرے عقیدہ کے باب میں. خصوصی طور پر توحید عبادت اور توحید حاکمیت ان کے صحیح
اصلوب میں جو کتاب التوحید میں ہے، یعنی اللہ کا حق اسکے بندوں پر.
یہ عظیم کتاب ہے. یہ عبارت ہے اللہ تعالی کی کتاب کی آیات سے اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے اور اہل علم کے آثار سے. اللہ نے اس کتاب میں بہت
زیادہ فائدہ رکھا ہے. ہم اپنے نوجوانوں کو اس کی طرف مائل ہونے کی نصیحت کرتے ہیں (کہ)
وہ اس کو یاد کریں اور فہم سمجھیں (اچھی طرح). اور اسکی شرح کو پڑھیں حتی کہ ان کو
اس عقیدہ کے باب میں یقین ہوجائے
اسکے بعد توحید اسماء والصفات کے باب میں، اس طالب علم کے لئے جس میں علم کی شدید
طلب ہو، وہ الواسطیہ کو یاد کرے یا اس کو پڑھے اور سمجھے. پھر (وہ آگے بڑھے) وہ
کتابیں جو "مجموع شیخ الاسلام" کے نام سے ہیں. ان رسائل میں بہت اہم موضوعات ہیں جو
ایک طالب العلم کے پڑھنے کے لئے ضروری ہیں. اگر طالب علم ضروری سمجھے (اور پڑھے)
دیگر تصانیف اسماء والصفات کی تفصیل میں تو پڑھے"شرح طحاوی".
جیسا کہ شرح طحاوی کے مولف نے زیادہ مواد اپنی کتاب کا "الشیخ الاسلام ابن تیمیہ"
اور ان کے شاگرد ابن القیم اور ابن کثیر کی کتابوں سے لیا ہے.یہ جامع اور مفید کتاب
ہے. جہاں تک تفسیر کی بات ہے تو ایک چھوٹے طالب علم کو تفسیر عبد الرحمن السعدی سے
ابتدا کرنا چاہیے. کیونکہ یہ مختصر ہے، اور ان کا منہج معروف ہے، یعنی سلفی منہج ہے
(سلفی وہ ہے جو دین قرآن و السنتہ اور صحابہ، تابعین اور اتبعہ تابعین سے صحیح
اسناد سے لے-
اگر ایک طالب علم اصطلاح اور لغت عربی سے واقف ہے، اور ایسا مدرس حاصل کرتا ہے جو
سلفی (وہ شخص جو قرآن والسنتہ علی منہج السلف پر ہو) ہو تو وہ طالب علم (اس مدرس سے)
فتح القدیر پڑھے جو امام شوکانی کی تصنیف ہے. میں نے یہ احتیاط اور شرائط رکھی ہیں
کیونکہ امام شوکانی کے علم اور اچھے لکھنے کے باوجود کہ جس میں فتح القدیر اور نیل
الاوتار شامل ہیں،انہوں نے پھر بھی نصوص باری تعالی میں تاویل کی.
تو وہ (طالب علم) ان سے دھوکہ نہ کھا جائے، اسے چاہئے کہ اس کتاب کی تفسیر کسی سلفی
(جو اپنا عمل قرآن والسنتہ علی منہج السلف سے کرے) مدرس سے پڑھے،کیونکہ یہ استاد
اسے کتاب اللہ کے معنی سمجھنے میں معاون ہوگا. وہ اس کو صحیح اعراب اور مفصل انداز
میں بلاغت کرے گا. اسکے بعد جو تفسیر ہمارے نزدیک مشہور ہے وہ "تفسیر ابن کثیر" ہے.
اس میں کوئ مسئلہ نہیں کہ کچھ مختصر طور پر اس کا مطالعہ کرے یا اس کو مختلف حصوں
میں تقسیم کرے
اس کے بعد الشیخ جامی رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم:
اگرچہ، جو کچھ میں نے کہا، یہ کافی نہیں ایک طالب علم کے لیے کہ وہ اپنے مطالعہ پر
انحصار کرے بلکہ وہ رجوع کرے اہل علم کی طرف.اسی طرح، اس سے قبل کے ہم ختم کریں (اپنی
بات). یہ بات ضروری ہے کہ علم تفسیر کو پڑھا جائے.علوم تفسیر میں تجوید (قرآن پڑھنے
کا طریقہ) ہے. علوم تفسیر میں عربی لغت کو جاننا ہے. یہ سب علوم تفسیر میں شامل ہے
اسکے بعد وہ حدیث پڑھے. وہ احادیث کو حفظ کرے، جیسا کہ ہم نے کل رات ذکر کیا، وہ
اربعین النووی سے ابتدا کرے، پھر عمدت الاحکام اور بلوغ المرام. پھر وہ ان کتابوں
کی شرائط کو پڑھے اور ان کو جانے. ان کتابوں کو وہ ان سے پڑھے جو ان پر تخصیص رکھتے
ہیں. جہاں تک فقہ کی بات ہے،اگر ایک طالب علم وسیع ہونا چاہتا ہے، اور اہل علم کے
اختلافات سے واقف ہونا چاہتا ہے، تو پھر وہ مذاہب اربعہ کے متن کو حفظ کرے (جو سندا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک صحیح سند سے ثابت ہو). وہ اپنے نفس کو ایک مذہب تک
مکید و تمسک میں نہ رکھے. کیونکہ صحیح فقہ وہ ہے جو اس نے عمدۃ الاحکام اور بلوغ
المرام میں پڑھا. اور یہ فقہ السنۃ ہے اور امام شوکانی کی چند کتب میں ہے.اس بات کو
ذہن میں رکھتے ہوئے کہ بغیر تعصب کے کسی ایک خاص شخص یا کسی خاص مذہب کے وہ (طالب
علم) صرف علم حاصل کرے
الشیخ محمد امان الجامی رحمہ اللہ کے اس بیان کے متن کو عربی زبان میں یہاں ضرور
سماعت فرمائیں اور ترجمہ میں غلطی ہو تو تصحیح ضرور فرمائیں، جزاکم اللہ خیرا
|