دین اسلام کامل واکمل ضابطۂ حیات ہے۔ہمارے معاشرتی
وانفرادی ارتقاء کامدارقانونِ اسلامی پرعمل کرنے میں ہے۔زندگی کے ہرشعبے سے
متعلق رہنمااصول موجودہیں۔اﷲ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:''آج میں نے تمہارے لئے
تمہارادین کامل کردیااورتم پراپنی نعمت پوری کردی اورتمہارے لئے اسلام
کودین پسندکیا ''۔(ترجمہ کنزالایمان،المائدۃ:۳)
دین اسلام نے دیگرشعبہ ہائے زندگی کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ فردکی شخصی
تعمیرپرزوردیاہے تاکہ انسان کی نجی،خاندانی اورتمدنی معاشرت ہرقسم کے سقم
وبیماری سے محفوظ رہے۔قوانین واحکام شریعت کونافذکرنے کے لئے سرکاردوجہاں
صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ کااسوہ ونمونہ ہمارے لئے مشعلِ راہ
ہے۔اسلام نے فردکااحترام کیااُسے اپنی مرضی سے پروان چڑھنے اورآزادانہ
زندگی گزارنے کی اجازت دی مگرکچھ حدودبھی مقررکئے۔معاشرتی ارتقاء اِنفرادی
وشخصی تعمیرمیں مضمرہے اوریہ اصول کسی ذی فہم وفراست سے پوشیدہ نہیں کہ
فردہی سے معاشرہ تکمیل پاتاہے۔معاشرے کے افرادباہم متعلق ہوتے ہیں اوران کے
اس تعلق کومختلف انواع واقسام کے اعتبارسے مختلف نام دئیے جاتے ہیں اوراس
سلسلے میں اہم ترین تعلق زوجین کابھی ہے۔اس کی اہمیت کااندازہ اس بات سے
ہوسکتاہے کہ یہی رشتہ قوموں میں باہم تعلق کاسبب بنااوربن رہاہے ۔اسلام
کامنشاء یہ ہے کہ جوافرادِمعاشرہ باہم ازدواجی رشتہ سے منسلک ہوجائیں تو ان
کے تعلق سے نکاح کوقائم رکھنے کی حتی المقدورکوشش کی جائے اوراُن کی باہمی
معاشرت ایسی ہوکہ جس سے انسانی معاشرے کاقصرِ رفیع تعمیروتشکیل ہوسکے۔اﷲ جل
مجدہٗ الکریم ارشادفرماتاہے:''وہ تمہاری لباس ہیں اورتم ان کے
لباس''۔(ترجمہ کنزالایمان:البقرہ۱۸۷-)
جس طرح لباس پردہ ہے عیوب ونقائص کوچھپاتاہے،زینت ہے جوحسن وجمال
کونکھارتاہے۔راحت ہے جوسردی وگرمی سے بچاتاہے،بعینہ میاں بیوی ایک دوسرے کے
لئے پردہ،زینت اورراحت ہوں تویقینا ملت اسلامیہ کاہرگھرجنت کی نظیربن جائے
گا۔اس کے برعکس اگرعدم موافقت ومخالفت کی کیفیت پیداہوجائے یاباہمی منافرت
جنم لے لے تواَربابِ حل وعقداس اختلاف وعدم ِاتفاق کی بیخ کنی کی بھرپورسعی
کریں۔اوراُنہیں ذہنی طورپریکجاکریں کیوں کہ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ
سے ابتداء ً عدم موافقت اورپھرباہمی منافرت وتنازعات کی کیفیت پیداہوجاتی
ہے۔جس کی وجہ سے یہ پاکیزہ رشتہ قائم رکھنامشکل بلکہ بعض اوقات ناممکن
ہوجاتاہے۔ہوناتویہ چاہئے کہ یہ رشتہ ازدواج قائم رہے لیکن جب قوی اندیشہ
ہوکہ عدم موافقت کی وجہ سے وہ باہم حدودُاﷲ قائم نہ رکھ سکیں گے اورنکاح کے
فوائدوثمرات فوت ہوجائیں گے تواسلام نے طلاق اوراس کے متعلقات کاایک
ایسامربوط نظام عطافرمایاہے کہ جس کے اپنے اصول وضوابط ہیں،ان میں بھی
انسان کی فَوزوفَلاح پوشیدہ ہے مگرافسوس!عوام الناس ،اپنی لاعلمی وجہالت کی
وجہ سے اس نظام کے چشمۂ صافی سے سیراب ہونے سے محروم ہیں۔طلاق کے
ہتھیارکوبے دریغ استعمال کرنے کی وجہ سے معاشرے کاامن وسکون اوراعلیٰ
اقداررُوبَہ زوال ہے۔معاشرتی زندگی میں سخت بے چینی واضطراب کی کیفیت
برپاہے۔دلخراش اورجذبات کولہولہان کرنے والے بہت سارے واقعات ہمارے سامنے
ہیں ۔جنہیں دیکھ کریاجن کے تصورسے دل کانپ اُٹھتاہے اوررُوح پرغم واندوہ کے
بادل چھاجاتے ہیں۔
طلاق کالغوی معنی آزادکرنے اورجدائی اختیارکرنے کے ہیں۔طلاق کاشرعی معنی
مخصوص الفاظ کے ذریعہ رشتہ نکاح کوختم کردیناہے۔
طلاق کی حقیقت: رشتۂ نکاح اﷲ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے جس کے ذریعہ
دوخاندانوں کے درمیان یگانگت والفت پیداہوتی ہے اورانسان زناکاری وبدکاری
جیسی رذیل جرم کامرتکب ہونے سے محفوظ رہتاہے۔نیزانسانی معاشرہ بھی ان
برائیوں سے محفوظ رہتاہے۔اس لئے کہ اس نعمت کی بدولت جومحبت وخلوص
پیداہوتاہے اس میں سادگی ہوتی ہے جس کے سایہ تلے آنے والی نسلوں کے
کرداروعادات نکھرتے،سنورتے اوربنتے ہیں۔چنانچہ اسلام نے انسانی معاشرہ کی
اس خوبصورتی کوبرقراررکھنے کے لئے طلاق جیسی مبغوض وناپسندیدہ چیزکوبعض
ناگزیرحالات میں جائزرکھاہے۔کیوں کہ بسااوقات انسان کئی اسباب کی بناپرنکاح
جیسی عظیم نعمت کی برکات سے محروم رہ جاتاہے جن میں معاش کی تنگی،ایک دوسرے
کوپسندنہ کرنا،دومزاجوں کاآپس میں نہ ملنا،جنسی کمزوری کافقدان اوربرے
اخلاق شامل ہیں۔انسان اس نعمت سے صلہ رحمی ،محبت والفت اورہمدردی کے جذبات
حاصل کرنے کے بجائے کینہ،بغض وعداوت،اوردشمنی جیسی تباہ کن امراض
کاشکارہوجاتاہے۔زندگی رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے۔اس طرح ازدواجی زندگی
کے اس خوبصورت رشتہ کاشیرازہ بکھرجاتاہے۔انسانی زندگی کے اس نازک
موڑپرتفریق کی ضرورت پڑتی ہے۔شریعت مطہرہ نے ایسی پیچیدہ صورت حال میں طلاق
کوروارکھاہے تاکہ زوجین ایک دوسرے سے جدائی حاصل کرکے خوشحال زندگی
بسرکرسکیں اورایک مضبوط وتوانامعاشرے کی جڑیں کمزورنہ ہونے پائیں۔
دین اسلام نے طلاق کواستعمال کرنے کاایک تفصیلی قانون وضع کیاہے جوانسانوں
کو اُس کابے جااستعمال کرنے سے منع کرتاہے۔بلکہ اس اختیارکوایسی ناقابل
برداشت صورت حال میں روارکھاہے جس میں زوجین کاباہمی نباہ دشوارہوجائے،قرآن
مجیدنے زوجین کوطلاق کااستعمال کرنے سے پہلے اپنے اختلافات کوباہمی صلح
ومصالحت کے ذریعے ختم کرنے کاحکم دیاہے اورحتی الامکان اس سے بچتے رہنے کی
ترغیب دی ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں اختلافات کومٹانے کے کئی طریقے بیان کئے
گئے ہیں جن میں مردسے خطاب کیاگیاہے۔ ارشادہوتاہے:
''اورجن عورتوں کی نافرمانی کاتمہیں اندیشہ ہوتواُنہیں سمجھاؤ اوراُن سے
الگ سوؤاورانہیں ماروپھراگروہ تمہارے حکم میں آجائیں توان پرزیادتی کی کوئی
راہ نہ چاہو''۔(ترجمہ کنزالایمان:النساء۳۴-)
اس آیت مبارکہ میں نافرمان عورتوں کی اصلاح کامرحلہ بیان کیاگیاہے کہ اُسے
ناصحانہ طورپرسمجھایاجائے۔اگروہ اصلاح نہ کریں توان کے بستروں کوعلٰیحدہ
کردوجوایک عاقلہ عورت کے لئے اچھی سزاہے ۔اگریہ طریقے بھی مؤثروکارآمدنہ
ہوں توضربِ خفیف کواختیارکیاجاسکتاہے۔حجۃ الوداع کے موقع پرحضورنبی اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:''عورتوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے
ڈرو۔کیوں کہ تم نے ان کوایسے عہدکے ذریعے حاص کیاہے جوتمہارے اوراﷲ تعالیٰ
کے مابین ہے۔اورتم نے ان کی شرم گاہوں کوشریعت کے مطابق حلال کیاہے ان
پرتمہارایہ حق ہے کہ تمہارے بستروں پرکسی کونہ آنے دیں،جسے تم ناگوارسمجھتے
ہو،پس اگروہ ایساکریں توان کوایسامارنا ماروکہ جس سے ہڈی پسلی نہ
ٹوٹے،اورتم پران کی خوراک اورپوشاک واجب ہے''۔(صحیح مسلم،ج۲،ص۸۸۹،کتاب
الحج)
دوسرے مقام پراﷲ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتاہے:''اوراگرکوئی عورت اپنے
شوہرکی زیادتی یابے رغبتی کااندیشہ کرے توان پرگناہ نہیں کہ آپس میں (کسی
خاص طریقے پر)صلح کرلیں'' ۔(ترجمہ کنزالایمان:النساء،۱۲۸)
مگربسااوقات زوجین میں نزاع اورباہمی کشمکش اتناطول پکڑجائے کہ اصلاح کے یہ
طریقے کارگرثابت نہ ہوں۔توایسی ناگزیرصورت حال میں اسلام نے ازدواجی رشتہ
کوتوڑنے کے بجائے اصلاح کاایک اورطریقہ بتلایاہے۔چنانچہ
ارشادہوتاہے:''اوراگرتم کومیاں بی بی کے جھگڑے کاخوف ہوتوایک پنچ مردوالوں
کی طرف سے بھیجواورایک پنچ عورت والوں کی طرف سے یہ دونوں اگرصلح
کراناچاہیں گے تواﷲ تعالیٰ ان میں میل کردے گا بیشک اﷲ تعالیٰ جاننے
والاخبردارہے''۔(ترجمہ کنزالایمان:النساء۳۵-)
مذکورہ آیات طیبات سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ طلاق کے استعمال
سے پہلے اصلاح کے ان تمام مراحل سے گزرناضروری ہے تاکہ اس اختیارکابے
جااستعمال نہ کیاجائے اورحتی الامکان مصالحت کے ذریعہ باہمی تنازعات کوحل
کیاجائے۔اگران تمام طریقوں کوآزمانے کے بعدپھربھی معاملات صحیح نہ ہوں
توایسی صورت حال میں شریعت مطہرہ نے مردکوطلاق کی اجازت دی ہے۔ مگرساتھ
ساتھ یہ بھی باورکروادیاگیاہے کہ''حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ
چیزطلاق ہے''(سنن ابی داؤد،ص۳۱۵،کتاب الطلاق)
اسی طرح بہت ساری احادیث مبارکہ کے اندررسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
بلاوجہ طلاق لینے اوردینے پربڑی سخت وعیدیں بیان فرمائیں ہیں ۔جن میں سے
چنداحادیث طیبہ پیش کی جاتی ہیں۔
(۱)''حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا:جوعورت اپنے خاوندسے کسی سخت تکلیف کے بغیرطلاق کاسوال کرے
تواس پرجنت کی خوشبوحرام ''۔(سنن ابی داؤد،ص۳۲۲،کتاب الطلاق)
(۲)حضرت علی ؓسے مروی ہے کہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:''نکاح
کرواورطلاق نہ دوکیوں کہ طلاق سے اﷲ کاعرش ہل جاتاہے''۔(معارف
القرآن،ج۸،ص۴۹۲)
(۳)''اورحضرت محمودبن لبیدکہتے ہیں کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کواس
آدمی کے بارے میں بتلایاگیاجس نے اپنی بیوی کوایک ساتھ تین تلاقیں دی تھیں
توآپ ﷺ غضبناک ہوکرکھڑے ہوگئے اورفرمایاکیااﷲ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ
کھیلاجاتاہے درآنحالیکہ میں تمہارے درمیان ہوں؟ایک شخص کھڑاہوااورعرض کیاکہ
یارسول اﷲ ﷺ کیامیں اس آدمی کوقتل نہ کردوں''۔(مشکوٰۃ :ص۲۸۴)
(۴)اسی طرح حضرت معاذ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:''کہ ائے
معاذاﷲ تعالیٰ نے روئے زمین پرجتنی چیزیں پیداکی ہیں ان میں سے اس کے نزدیک
سب سے زیادہ پسندیدہ چیزغلام ولونڈی کوآزادکرناہے اوراﷲ تعالیٰ نے روئے
زمین پرجتنی (حلال)چیزیں پیداکی ہیں ان میں سے اس کے نزدیک سب سے زیادہ بری
چیزطلاق دیناہے''۔(مشکوٰۃ:ص۲۸۴،باب الخلع والطلاق)
مذکورہ بالااحادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوگئی کہ طلاق اﷲ تبار
ک وتعالیٰ اوراس کے رسول ﷺ کے نزدیک کتنی بری چیزہے۔مگرافسوس ان لوگوں
پرجوچھوٹی چھوٹی باتوں پرطلاق کے اختیارکوبے جااستعمال کرتے ہیں اوراپنی
بیوی بچوں کی زندگی کے آئینے کوپارہ پارہ کردیتے ہیں پھرشرمندہ ہوکردوبارہ
بیوی سے نکاح کرنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کے اس رویے سے اس بات
کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ بھی طلاق کوپسندنہیں کرتے ہیں۔
ایک مجلس میں تین طلاق کا وقوع: اگرکوئی شخص اپنی بیوی کویکبارگی تین
طلاقیں دے دیں تواُن کاوقوع ہوگایانہیں؟۔مثلاً کسی نے اسے عملی
طورپریکبارگی تین طلاقیں دے دیں تویقینا تین ہی واقع ہوں گی اوراس کی عورت
اس پرحرام ہوجائے گی یہاں تک کہ حلالہ کے مراحل سے نہ گزرجائے ۔ اس
پراکثرصحابۂ کرام،ائمہ اربعہ امام اعظم ابوحنیفہ،امام مالک،امام شافعی،امام
احمدبن حنبل اورجمہورعلماء ومحدثین اہل سنت والجماعت کااجماع واتفاق
ہے۔چنانچہ امام نووی کابیان ہے:''قال الشافعی ومالک وابوحنیفۃ
واحمدوجماھیرالعلماء من السلف والخلف یقع الثلاث'ترجمہ:امام شافعی،امام
مالک،امام ابوحنیفہ،امام احمداورجمہورعلماء سلف وخلف کے نزدیک (اگرکسی نے
تین طلاقیں دے دیں تو)تین طلاق واقع ہوجائیں گی''۔(شرح نووی علیٰ
مسلم،ج۱،ص۴۷۸)
اہل سنت والجماعت کااس مسئلہ پراس درجہ اتفاق رہاہے کہ ایک محدث کوخیال
ہوگیاکہ (ایک مجلس میں)تینوں طلاقوں کے واقع ہونے میں کسی کاکوئی اختلاف ہی
نہیں ہے۔اصل میں ایک مجلس میں تین طلاقوں کاایک شمارکیاجاناکچھ لوگوں
کامذہب ہے۔انہیں میں سے کچھ جدیدعصری علوم سے واقف اوراحکام شرعیہ سے نابلد
لوگوں نے اختیارکرنے کی سعی لاحاصل کی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن
کریم،صریح احادیث مبارکہ اورحضرات صحابۂ کرام کے متفقہ فتاوی سے یہ بات
مکمل طورپرثابت ہے کہ ایک مجلس میں اگرکسی نے تین طلاقیں دیں توتین ہی واقع
ہوں گی نہ کہ ایک اوریہی حق ہے۔
قرآن مجیدمیں فرمایاگیا:''الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان......
فان طلقھافلاتحل لہ من بعدحتی تنکح زوجاغیرہ الخ''یہ طلاق دوبارتک ہے
پھربھلائی کے ساتھ روک لیناہے یانکوئی (اچھے سلوک)کے ساتھ
چھوڑدیناہے،پھراگرتیسری طلاق اُسے دے دی تواب وہ عورت اُسے حلال نہ ہوگی جب
تک دوسرے خاوندکے پاس نہ رہے''۔(ترجمہ کنزالایمان :البقرہ۲۲۹،۲۳۰)
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح طورپرمعلوم ہوتی ہے کہ طلاق کی تعدادکاتعلق
مجلس سے نہیں ہے بلکہ اس بات سے ہے کہ کتنی بارطلاق دی جاتی ہے
۔اگردوبارطلاق دے تودوطلاق واقع ہوگی،تین باردے توتین طلاق واقع ہوگی ایک
نہیں۔
ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین طلاقیں پڑجاتی ہیں جیساکہ ابن ماجہ ابواب
الطلاق باب من طلق ثلٰثاًفی مجلس واحدمیں ہے کہ فاطمہ بنت قیس فرماتی ہیں
کہ مجھے میرے شوہرنے یمن جاتے وقت تین طلاقیں دیں ان تینوں کوحضورنبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم نے جائزرکھا۔(سنن ابن ماجہ ،ص۱۴۵،قدیمی کتب خانہ کراچی)
اس میں شبہ نہیں کہ ایک دم تین طلاق دینابہت ہی بُرااورسخت جرم ہے
ایساکرنانہیں چاہئے لیکن اگرکوئی حماقت اورغلطی سے برطریقۂ خلاف سنت ایک دم
ہی تین طلاقیں دے دے توبلاشبہ اس نے بہت براکیامگرطلاقیں بہرحال واقع
ہوجائیں گی اوراس طرح طلاق دینے والاگنہگاربلکہ ظالم ہے۔چنانچہ
فرمایا:''جوکوئی اﷲ کی حدیں توڑے یعنی ایک دم تین طلاق دے دے توبے شک اس نے
اپنی جان پرظلم کیا''۔(الطلاق،۱)کیوں کہ اکثرایساہوتاہے کہ انسان ایک دم
تین طلاق دے کربعدمیں سخت نادم اورپریشان ہوتاہے اورپھرناجائزاورغلط طریقے
اختیارکرتاہے۔اس آیت میں یہ نہ فرمایاکہ ایک دم تین طلاق دینے والے کی واقع
نہ ہوں گی بلکہ فرمایاایساکرنے والاظالم ہے اگراس سے ایک ہی واقع ہوتی تووہ
ظالم کیسے ہوتا؟۔
لہٰذاجولوگ تین طلاق کوایککہتے ہیں اُنہیں اپنی جہالت سے بازآتے ہوئے غلط
مسائل بتاکرلوگوں کوگناہ عظیم میں مبتلاکرنے ، اُنہیں گمراہ کرنے سے
گریزکرناچاہئے اس لئے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے :
''تواس سے بڑھ کرظالم کون جواﷲ پرجھوٹ باندھے کہ لوگوں کواپنی جہالت سے
گمراہ کرے،بے شک اﷲ ظالموں کوراہ نہیں دیکھاتا''۔(پارہ ۸،الانعام،۱۴۴)
طلاق کی صورتیں: شریعت کے اعتبارسے طلاق دینے کاجوطریقہ ہمیں حضوراکرم ﷺ کی
تعلیمات سے ملتاہے وہی طریقہ درحقیقت عمدہ اوربہترین ہے۔حضوراکرم ﷺ کے
دورمیں صحابہ کرام نے بھی اسی کواپنایا۔اس طریقے کے مطابق طلاق دینے کی تین
صورتیں ہیں۔(طلاق احسن،طلاق حسن اورطلاق بدعی)۔
(۱)طلاق اَحسن: احسن طلاق دینے کامطلب یہ ہے کہ مرداپنی بیوی کوایسے
طہریعنی حیض آنے کے بعدپاک حالت میں جس میں اس نے اس سے جماع نہ کیاہوایک
طلاق دے۔اورپھراس کوعدت گزرجانے تک چھوڑے رکھے۔ایسے طریقے کواحسن یعنی بہت
بہترقراردیاگیاہے۔یہ طلاق دیگراقسام طلاق کی نسبت قابل ترجیح اس لئے ہے کہ
اس میں مردکوبھی زیادہ نادم نہیں ہوناپڑتاکیوں کہ وہ عدت کے اندرہی رجوع
کرسکتاہے،نیزعورت کے حق میں بھی نقصان دہ نہیں کہ اس کی بھی عقل ٹھکانے
آجائے اوروہ اپنے خاوندکے ساتھ حسن سلوک کرنے لگے۔
(۲)طلاق حسن: طلاق حسن دینے کاطریقہ یہ ہے کہ خاونداپنی مدخولہ بیوی کوایسے
طہرمیں طلاق دے کہ جس میں اس سے صحبت نہ کی ہو۔پھردوسرے طہرمیں دوسری
اورتیسرے طہرمیں تیسری دے یعنی تین طہرمیں تین طلاقیں۔اوریہی بہترطریقہ ہے۔
(۳)طلاق بدعی: طلاق بدعی وہ طلاق ہے جس میں طلاقِ احسن اورحسن کاطریقہ
اختیارنہ کیاگیاہو۔یعنی بدعی وہ طلاق ہے جس میں بیک وقت ایک سے زائدطلاقیں
دے دی جائیں۔یاعورت کوایسے طہرمیں طلاق دے دیناکہ جس میں عورت سے ہم بستری
کی ہو۔یاحیض کی حالت میں طلاق دے دینا۔شرعی لحاظ سے طلاق دینے کی یہ صورت
بہت ناپسندیدہ ہے۔اس سے طلاق توہوجائے گی مگرطلاق دینے والاگنہگارہوگا کیوں
کہ اس نے وہ طریقہ اختیارنہ کیاجسے اسلام میں بہترکہاگیاہے۔
حلالہ کیاہے؟: حلالہ یہ ہے کہ مطلقہ ثلٰثہ عورت عدت پوری کرنے کے بعدکسی
اورشخص سے نکاح ِ صحیح کرے اوریہ شخص اس عورت سے صحبت بھی کرے۔پھراس شخص کی
طلاق یاموت کے بعدعورت عدت پوری کرکے شوہراول سے نکاح کرسکتی ہے۔حدیث شریف
میں حلالہ کرنے والے اورحلالہ کروانے والے پرجولعنت آئی ہے اس کامطلب یہ ہے
کہ ایجاب وقبول میں حلالہ کی شرط لگائی جائے۔اوراگرایجاب وقبول میں حلالہ
کی شرط نہیں لگائی جائے توکوئی قباحت نہیں بلکہ اگربھلائی کی نیت ہوتومستحق
اجروثواب ہے۔مگرافسوس ہے آج اس بات کاکہ مغربی تہذیب وتمدن کے سایہ میں
چلنے والے لوگ حلالہ جیسے احسن طریقے کوزناقراردیتے ہیں یہ ان کی کم عقلی
ونافہمی کی دلیل ہے،یہ ساری چیزیں قرآن وسنت سے ثابت ہیں۔اسلام کاکوئی
قانون ودستورایسانہیں ہے کہ جس کے لئے کوئی دلیل موجودنہیں ہے۔اسلام میں
جتنے بھی قوانین رائج ہیں یاجاری وساری ہیں وہ سب قرآن وحدیث اوراقوال ائمہ
سے ثابت شدہ ہیں۔اگرکوئی شخص طیش میں اپنی بیوی کو تین طلاق یعنی طلاقِ
مغلظہ دیتاہے اورپھراُسی عورت سے دوبارہ نکاح کرناچاہتا ہے توعورت
بغیرحلالہ کے اس کے لئے حلال نہیں ہوگی ،توگویایہ اس عورت کی سزا نہیں ہے
بلکہ اس مردکی سز اہے جوبغیرسوچے سمجھے اپنی بیوی کوغصے کی حالت میں طلاق
دے دیتاہے اورپھراس پرنادم وشرمندہ ہوتاہے کہ اس کے بسترپرسونے والی عورت
بعدطلاق دوسرے مردکے بسترپرسوتی ہے ۔لہٰذااس سے ناعاقبت اندیش مردوں کوعبرت
ونصیحت حاصل کرناچاہئے اورایسی مذموم حرکت سے بازآناچاہئے۔ |