بلا شبہ پاکستانی نوجوان صلاحیتوں میں دنیا کے کسی بھی
حصے میں رہنے والے نوجوانوں سے کم نہیں ہیں۔ تا ہم اس کے باوجود ملکی ترقی
کے لیے نوجوانوں سے جو فائدہ اٹھانا چاہئے ہم ابھی تک وہ نہیں اٹھا سکے۔
پاکستان دنیا کی ترقی کی رفتار کے مقابلے میں انتہائی سست روی کا شکار ہے۔
اس سست روی کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ
تمام شہریوں کو ملازمت سمیت دیگر معاملات میں برابر حقوق کی عدم فراہمی اور
ہماری نوجوان نسل کا تعلیم اور مثبت معاملات کو چھوڑ کر منفی رجحانات کی
طرف راغب ہونا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی ہو یا کھیل کا میدان، میڈیکل ہو یا انجنئرنگ ، ہر شعبے
میں پاکستانی نوجوانوں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
تا ہم اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ گزشتہ دو
دہایؤں میں ہماری نوجوان نسل تعلیم سے دور ہو رہی اور نشے جیسی لعنت کا
شکار ہو رہی ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ تعلیمی اداروں اور گلی گلی میں
دستیاب اس لعنت کے بڑھنے پر تمام متعلقہ ادارے پریشانی اور افسوس کا اظہار
کرتے تو نظر آتے ہیں لیکن نشے کے ناسور کے خاتمے کے لیے تسلی بخش اقدامات
کا فقدان نظر آتا ہے جس کے باعث مسقبل کی معمار ہماری نوجوان نسل تباہی کے
دہانے تک پہنچ چکی ہے۔
اگر نوجوانوں کا ایک طبقہ منشیات اور دیگر منفی رجحانات سے بچ نکلنے میں
کامیاب ہو بھی جا تا ہے تو ملازمت کے بہتر مواقع نہ ہونے کے باعث ملکی ترقی
میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے بیرون ملک جا کر اپنا مسقبل سنوارنے کی
کوششوں میں لگ جاتا ہے۔ اس اہم ترین مسئلے پر توجہ نا دینے کی وجہ سے آج
پاکستان کے لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان لڑکے لڑکیاں دوسرے ملکوں میں خدمات
سرانجام دے رہے ہیں اور پاکستان انکی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے محروم
ہے۔
اگر پاکستان کے اندر ملازمت کے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں اور تعلیمی سطح
پرجس شعبے میں پڑھے لکھے افراد کی ضرورت ہو اس میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں
کو تربیت دی جائے تو زیادہ بہتر طریقے سے معاشی ترقی میں نوجوانوں کے کردار
کو ابھارا جا سکتا ہے۔ ہماری جامعات اور دیگر تعلیمی ادارے مسلسل ڈپلومہ
ملوں کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ زمہ داران کو سوچنا ہوگا کہ
کارووباری سوچ کے تحت چلائے جانے والے تعلیمی ادارے کیسے ملک کی تقدیر
بدلنے والی نسل پیدا کر سکتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ ٹیکنیکل ٹریننگ سے بھی
نوجوان نسل کو بہتر روزگار کے مواقع مہیا کیے جا سکتے ہیں۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد ان پڑھ ہونے کے باعث وہ افراد ملکی و معاشرتی ترقی
میں مثبت کرادر کرنے کی بجائے بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ جہاں تعلیم کی شرح میں
اضافے کے لیے اقدامات ضروری ہیں وہیں انویسٹمنٹ کے لیے دوستانہ ماحول پیدا
کر کے ملک میں چھوٹے کارخانے اور فیکٹریاں لگانے کی حوصلہ افزائی کی جانی
چاہئے تا کہ ان پڑھ نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع میسر آ سکیں جس کی بدولت
ان پڑھ نوجوان نسل کو روزگار مہیا کر کے انہیں مثبت شہری بنایا جا سکے جو
کہ بلا شبہ ملک کی معاشی و معاشرتی بہتری کی جانب اہم قدم ثابت ہوگا۔
نوجوانوں کو اپنے ذاتی کاروبار کی طرف راغب کرنے کے لیے بھی اقدمات کرنے کی
اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کیے
جائیں کہ وہ آسانی سے اپنا کاروبار شروع کر سکیں اور پہلے چند سال ٹیکس
چھوٹ کے ذریعے کاروبار میں اضافہ کر سکیں۔ ہمارے ملک میں کاروبار کرنے کے
حوالے سے درپیش مشکلات کے باعث انٹر پرینورشپ کا رجحان کافی حد تک کم ہے۔
جب ہم ملکی ترقی اور نوجوان نسل کی بات کرتے ہیں تو اس کا اہم ترین جزو
خواتین ہیں جنہوں نے ہمیشہ ملک اور معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کیا
ہے۔ کام کرنے کی جگہ کو خواتین کے لیے محفوظ ترین بنا کر زیادہ سے زیادہ
خواتین کو قومی ترقی کے دھارے میں لایا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے پیش کیے
گئے پائیدار ترقی کے گولز میں بھی صنفی برابری کو اہم حیثیت دی گئی ہے جس
کو مد نظر رکھتے ہوئے کارپوریٹ سیکٹر کی جانب سے خواتین کے لیے ملازمت کے
زیادہ مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے عملی اقدامات بھی سامنے آ رہے ہیں تا ہم
اس حوالے سے بڑی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں بحیثیت قوم اپنے رویوں میں
مثبت تبدیلی لانا ہوگا۔
ہم جتنی جلدی اس بات کے طے کر لیں گے کہ نوجوان نسل کی بہتر تربیت کے ذریعے
ہی انکو ملک کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کا اہل بنا سکتے ہیں اتنی جلدی ہم
باقی قوموں پر برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے۔ اگر ہمیں معاشی ،
معاشرتی، سیاسی، جمہوری، ثقافتی سطح پر مثبت ترقی کی منزلیں کامیابی سے طے
کرنی ہیں تو پھر نوجوانوں کو صرف ووٹر اور کھوکھلے نعروں کے پیچھے سوشل
میڈیا پر جنگنجو کی طرح دیکھنے کی بجائے مسقبل کے معمار کی حیثیت سے دیکھنا
ہوگا۔ |