اس وقت اسلام کی دعوت و تبلیغ کے جتنے پلیٹ فارم ہیں ،
سرِ دست دینی مدارس ایسا پلیٹ فارم ہیں جہاں مخاطب کی نفسیات کو سمجھنا قدرِ
آسان ہے۔ مروجہ ذرائع ابلاغ کو ملحوظ خا طر رکھتے ہوئے مدارس سے منسلک
افراد، اور مدارس انتظامیہ، ان اسلوب سے استفادہ حاصل کریے،اور اسلام کی
دعوت و تبلیغ کا پیغام لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کریے۔لیکن اس پلیٹ فارم کو
بھی جدید تقاضوں ، جدید ترین ذرائع ابلاغ سے استفادہ شرعی احکام کے دائرے
میں رہتے ہوئے کرنا ہوگا۔اور ابلاغ کے ہر میسر ذرائع کو استعمال میں لانا
ہوگا۔ جس میں چند خال خال مدارس ہی نمایاں کم کر رہے ہیں ، اور کثیر تعداد
مدارس کی اس فلیٹ فارم سے دور ہے۔
ملک میں 25ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں ۔ جن میں 20لاکھ طلباء و طالبات زیرِ
تعلیم ہیں۔ ملک کے بڑے صوبے، صوبہ پنجاب میں 14 ہزار 871، سندھ میں 6 ہزار
749، خیبر پختونخواہ میں ایک ہزار 386، بلوچستان میں 2 ہزار 704 ، اسلام
آباد میں 187، مدارس دینی تعلیم میں مصروف ہیں۔صرف سندھ کی بات کریں تو
تقریباََ دو درجن کے قریب بڑے مدارس ہیں، جن میں کئی ہزار طلباء و طالبات
تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد کی کفالت کے
بعد ، اور حکومتی کسی بھی قسم کی مالی معاونت کی عدم ادائیگی کے با وجود ،
دینی مدارس حکومت، اور قانون نافذ کرنے والوں کی آنکھوں میں کیوں کھٹکتے
ہیں۔آئے دن دینی مدارس کو دہشت گردی کا اڈا کہا جاتا ہے، دہشت گردوں کی
سرپرستی کا ملبہ دینی مدارس کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ
مدارس ہی دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں۔ اور اس مسلئے پے چند علماء کرام کے
مذمتی بیانات کے علاوہ دینی مدارس کا دفاع مضبوط دیکھائی نہیں دیتا، جس کی
وجہ سے مدارس عدم تحفظ کے سائے میں رہتے ہیں۔ اور سرکاری نمائندے اپنی من
مانیاں کرتے پھرتے ہیں۔
دینی تعلیم ،نظام و نصاب کی افادیت روز و روشن کی طرح عیاں ہے، مگر اس میں
’’ میڈیاوار ‘‘ بھی ناگزیر ہے۔ برٹش لاء نے متحدہ ہندستان میں رائج اسلامی
قوانین منسوخ کردیئے تھے۔ انگریزی دفتری زبان بن گئی تھی۔ اس طرح علماء
صلحاء کی ایک بڑی کھیپ معرکہ ہائے حریت 1831ء میں پیش پیش رہی۔ پھر 1857ء
کی جنگ آزادی میں انگریز نے پورا اسلامی نظام تہس نہس کر دیا۔ ان اقدامات
کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی اقدار و روایات سبوتاژ ہو گئیں۔پھر اس کے
بعد دینی مدارس کے متعلقین نے جو راستہ اپنایا تھا ، وہ اس میں سرخرو ہوئے،
اور نمایاں خدمات انجام دیں۔آئمہ مساجد ، خطباء ، حفاظ قرآن تیار کئے۔
مدارس نے حدیث نبوی ، فقہ اسلامی ، عربی ، فارسی زبانوں ودیگر متعلقہ علوم
کی حفاظت و تدوین کا بیڑا ٹھایا۔ اور درسِ نظامی کے اس نظام کو جسے انگریز
سبوتاژ اور سمندر برد کر چکا تھا ، نئے سِرے سے جلا بخشی ۔ اس کے ساتھ ساتھ
مسلمانوں کے عقیدہ و فکر کی حفاظت ، توحید و سنت کی سربلندی ، ، مسیحیت کے
فروغ کو لگام دی ۔ لیکن مدارس میں جس بات کونا گزیری حد تک محسوس کیا جاتا
ہے، وہ دور جدید کے ساتھ منسلک ہونے، وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے ، اور
علماء ، طلباء کو دنیا کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی ہے۔
ا س مقصد کے لئے جدید ترین ذرائع ابلاغ ، اور عصری تعلیم کی اہمیت کو
فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کے فضلاء جس مشن کو لے کر
نکلتے ہیں ، انہیں مخاطب کے نفسیات تک رسائی کا میسر ذریعہ نہیں ملتا، اور
نہ ہی وہ سر کاری اداروں اور بڑی پوسٹوں پر اپلائی کر سکتے ہیں ۔ جب کہ دین
کی دعوت و تبلیغ اور اسلام کی سربلندی کا یہی ایک مناسب پلیٹ فارم ہے، جس
سے دنیا کے سامنے مدارس کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں آں حضرت ﷺ کا
اسوہ ہمارے لئے رہنمائی کرتا ہے، کہ جناب ِ بنی کریم ﷺ وقت کے تقا ضوں کو
نظر انداز نہیں فرماتے تھے۔ مثلاََ : نبی علیہ السلام نے نبوت ا علان کیا
تو کفار کے چند لوگ آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہا ، ہم آپ کی دعوت توحید کی غرض
سمجھنا چاہتے ہیں ،اور اس کے مقا صد جاننا چاہتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’
میں جو تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں اگر تم اسے قبول کرو گے تو عرب پر
تمہاری حکمرانی ہوگی اور عجم تمہارے تابع ہوگا۔‘‘ یہ سردار اور اپنے قبیلے
کے چودھری لوگ تھے، انھیں قیامت ، جنت ، دوزخ انعام و اکرام ، موت و حیات ،
خیر سے کوئی سروکار نہیں تھا، اور نہ ہی یہ بات ان کی سمجھ میں آتی، لہذاٰ
آپ ﷺ ان سے ان ہی کی نفسیات کو سامنے رکھ کر بات کی۔اسی طرح غزوہ احذاب میں
جب قریش مکہ اور ان کے حلیف قبائل کو ناکامی ہوئی، محاصرہ ختم کرکے واپس
جانے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اب آئندہ قریش ہم پر حملہ نہیں کریں گے، بل
کہ اب یہ لوگ عرب قبائل میں ہمارے خلاف نفرت پیدا کریں گے، پھر وہی ہوا ادب
و شعر گوئی سے ہجو کے دور کا آغاز ہوا اور اس جنگ یعنی ’’ میڈیاوار ‘‘ کے
لئے تین حضرات نے خود کو پیش کیا ۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ ، حضرت عبد اﷲ بن
رواحہؓ ، اور حضرت کعب بن مالک ؓ ۔ اور اپنے دین ، نبی کی ہجو کرنے والوں
کو مدح و نعت کے ذریعے کرارے جوابات دئیے۔
اُس دورمیں جن تقاضوں کی ضرورت تھی، نبی علیہ السلام نے ان کو اپنایا ، اور
بھر پور استفادہ حاصل کیا ۔ اب یہ دور مشینری کا دور ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ
کا دور ہے ۔ سائنس و دنیاوی تعلیم کی عرف عام میں فوقیت کا دور ہے۔ اس بات
کی اہمیت کو بلکل بھی ردِ تخیل نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی تعلیمات میں
اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، ہم عصری تعلیم و دور جدید کی تمام ضرورتوں
سے صرفِ نظر کئے رکھیں۔ ابتدائی طلباء مختلف فن سیکھیں ، کتابت کریں ، خوش
خطی سیکھیں ۔ اردو ، عربی ، فارسی زبانوں پر عبور حاصل کریں۔ ان تمام
مذکورہ زبانوں کی کہانیاں پڑھیں ۔ ناول پڑھیں ۔ چھوٹی چھوٹی ابتدائی کتابیں
زیرِ مطالعہ رکھیں ۔ابتدا ء میں ان کاموں میں آپ کو بہت مشکل ہوگی، لیکن اس
سے آپ کا لہجہ درست ہوگا، اور زبان کی روانگی پیدا ہوگی۔اور یہ عمل تما م
زبانوں کو سیکھنے کے لئے نسخہ کیمایا ہے۔بڑے درجات کے طلباء اپنے تئیں
اضافی کورسز کریں ، کمپیو ٹر کے کورسز کریں ۔ سوفٹ وئیر چلانا سیکھیں۔
پرنٹنگ، ڈیزائیننگ، سوشل ایکٹویٹی ، ملٹی میڈیا ، انٹر نیٹ بروسنگ کریں ، آ
ج کے دور میں 99.99% لوگ انٹر نیٹ سے کام کرکے اپنا مشن جاری رکھیں ہوئے
ہیں۔ اسی طرح صحافت سیکھیں ۔ لکھنا پڑھنا اپنی زندگی کا مشغلہ بنائیں ۔
تحقیق و تدوین کے عمل سے گزریں ، اور بڑے سرکاری اداروں میں جانے کوشش
کریں۔ اس عزم کے کو لے کر نکلیں کہ اسلامی اقدارو اخلاق کی پاسداری کریں گے
اورانجینئر ، ڈاکٹر کے ساتھ متقی انسان بھی بنیں گے۔
|