چوہدری عرفان اعجاز ٬ اوکاڑہ
دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد بھوک و پیاس کی وجہ سے ابدی نیند سو جاتے
ہیں ایک سروے کے مطابق 1990 کے بعد سے، دنیا میں بھوکے لوگوں کی تعداد 200
ملین سے زائد ہے جس کی بڑی وجہ عالمی آبادی میں اضافہ اور غذا کی پیداوار
میں کمی بتائی جاتی ہے اسی سروے میں ایک اور بات بتائی گئی ہے کہ795ملین
لوگ اب بھی رات کوبھوکے سو جاتے ہیں اور 1.2 بلین لوگوں کو غذائیت کا کھانا
بھی نہیں مل رہا ہے جو انہیں زندہ رہنے اور پھیلانے کی ضرورت ہے لیکن اس
عمل کو روکنے کے لیے عالمی طور پر بے شمار اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں
ایک مقصد یہ بھی ہے کہ 2030تک دنیا بھر سے خوراک کی کمی کے اہداف ختم کرنا
ہے عالمی یوم خوارک کے موقع پر اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو
پاکستان میں بھی کافی حد تک خوراک کی قلت کا سامنا رہتا ہے اور اس کی سب سے
بڑی وجہ ماہرین یہ بیان کرتے ہیں کہ پاکستان میں دوسرے ممالک کی نسبت فی
ایکڑ پیداوار کم ہے جو کہ خوراک کی قلت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ماہرین زراعت
کے مطابق مستقبل میں پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ
کسی بھی وقت ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں شعبہ زراعت میں کسانوں کی جدید
طریقہ افزائش پیداوار سے نا واقفیت ہونا بھی ہے ابھی چند دنوں پہلے پاکستان
میں پیاز اور ٹماٹر کی قلت کا سامنا رہا عوام کاخیال تھا کہ منافع خور اپنی
جیبیں مزید بھرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا بلکل درست نہیں گزشتہ سال ٹماٹر کی
فصل کو بھاری نقصان ہواجس وجہ سے قلت کا سامنا کرنا پڑا ۔انٹرنیشنل سینٹر
آف کیمیکل اینڈ حیاتیاتی سائنسز (کے یو) ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری اپنے ایک
بیان میں کہتے ہیں کہ "ملک سخت قحط کی طرف آ رہا ہے کیونکہ پانی کی قلت کی
وجہ سے آبپاشی کی قلت کم ہو رہی ہے اورپاکستان کے زراعت شعبے نے متعلقہ
حکام کی توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ کھانے کی حفاظت کو یقینی بنانا،
مجموعی مالیاتی ترقی کو پیدا کرنے، غربت کو کم کرنے اور صنعتی بنانے کی طرف
تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے"اقوام متحدہ نے غذا کی کمی کو
مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے تعاون سے ہر سال
16اکتوبر کو دنیا بھر میں عالمی یوم خوراک منانے کا اردہ کیا اس دن کو
منانے کا بنیادی مقصد عوام میں خوراک کی کمی کو پورا کرنا اور عوام میں
خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنے کا طریقہ کار واضح کرنا ہے شعبہ زراعت میں
بہتری لانے کے لیے سب سے زیادہ اہم عمل پانی کی وافر مقدار ہوتی ہے لیکن
اگر پانی کی بات کی جائے تو پانی لوگوں کو پینے کے لیے میسر نہیں ہے پانی
کی قلت کی مناسب سے واٹر ایڈ نامی ایک غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم کے
اعداد و شمار کے مطابق چھ کروڑ تیس لاکھ دیہاتیوں کو، جو کہ برطانیہ کی
مجموعی آبادی سے زیادہ تعداد ہے، پینے اور روزمرہ کے استعمال کے لیے صاف
پانی میسر نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی، انفراسٹرچکر کی عدم
دستیابی اور دشوار گزار علاقوں میں آبادی ہے واٹر ایڈ رپورٹ نے مزید کہا ہے
کہ چین دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں چار کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کو صاف
پانی دستیاب نہیں ہے۔ اس کے بعد تیسرے نمبر پر افریقی ملک اتھوپیا اور
نائجیریا ہے جہاں چار کروڑ لوگ اس بنیادی سہولت سے محروم ہیں پانی شعبہ
زراعت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حثیت رکھتا ہے کیونکہ جب فصل کو بروقت پانی کی
فراہمی نہیں ہوگی تو فصل کی پیداوار بھی نہیں ہوگی اور پھر منڈی میں شے
نہیں پہنچے گی جس سے عوام میں اس چیز کی فراہمی نہیں ہوگی وہ عمل خوراک کی
کمی کا باعث بن سکتا ہے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی ایک
رپورٹ کے مطابق دنیا میں 34 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس اپنے شہریوں کے لیے
کافی خوراک موجود نہیں ہے اور ان میں سے تقریباً سب ممالک کا تعلق براعظم
افریقہ سے ہے۔گزشتہ سال دسمبر میں ان ملکوں کی فہرست میں سوئزر لینڈ کے
شامل ہونے سے خوراک کی کمی کا شکار ملکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔اقوام
متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی رپورٹ میں خوراک کی کمی کی وجہ غیر
معمولی موسمیاتی سرگرمی النینو سے پیدا ہونے والی خشک سالی اور دنیا کے کئی
علاقوں میں سیلابوں اور جنگ کو قرار دیا گیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
النینو کے سبب خشک سالی کی وجہ سے رواں سال جنوبی افریقہ، وسطیٰ امریکہ اور
جزائر غرب الہِند میں فصلوں کی پیداوار میں واضح کمی ہوئی ہے۔ اگر عالمی
یوم خوراک پر اس بات کا عہد کیا جائے کہ تمام ممالک اپنے ملک کے شہریوں کی
خوراک کو پورا کریں اور پھر دوسرے ممالک میں اپنی اشیاء کو بھیجیں،زرعی
زمینی کو سیلابی کٹاؤ سے محفوظ بنایا جائے اور اس بات کا خاص خیال رکھا
جائے کہ زرعی زمین سیم و تھور سے پاک ہو اس عمل سے خوراک کی قلت کو کافی حد
تک روکا جا سکتا ہے اور آخر میں اس بات کے ساتھ اختتام کہ کھانے پینے کی
اشیاء کو ضائع نہ ہونے دیں جیسا کہ آجکل کے دور میں شادی بیاہ کے اوقات میں
دیکھنے کو ملتا ہے اور یہی اسلام کا سنہری اصول ہے کہ خوراک کو اپنی ضرورت
کے مطابق محفوظ کیا جائے نہ کہ دوسروں کی حق تلفی کرکے اس کے حصے کی خوراک
کو ذخیرہ کر لیا جائے ٭٭٭ |