آئین پاکستان کے آرٹیکل 199میں اس امر کو یقینی بنایا گیا
ہے اگر کوئی مناسب remedyکا حصول ممکن نہ ہواور ہائی کورٹ اگر مطمن ہو جائے
تو پھر 1) وہ متاثرہ شخص کی درخواست پر حکم جاری کرسکتی ہے کہA) کسی بھی
شخص کو وفاق پاکستان،صوبہ کے معاملات یالو کل اتھارٹی کے معاملات کے حوالے
سے اسے کسی بھی امرکو کرنے سے روک سکتی ہے جس کو وہ مجازنہ ہو یا قانون اُس
کو اجازت نہ دیتا ہو۔اور عدالت عالیہ کسی بھی امر کو کرنے کے حکم دے سکتی
ہے اگر قانون اُس امر کی اجازت دیتا ہو B)اور یہ کہ عدالت عالیہ اپنی حدود
علاقائی میں قائم فیڈریشن آف پاکستان، صوبہ یالوکل اتھارٹی کے معاملات کے
حوالے سے کسی امر کو قانونی یا غیر قانونی قراردے سکتی ہے۔2)کسی بھی شخص کی
درخواست پر عدالت عالیہ حکم جاری کرسکتی ہے کہA)کہ عدالت عالیہ کی حدود میں
اگر کسی شخص کو کسی نے اپنی قبضے میں رکھا ہے اُس کو عدالت عالیہ کے سامنے
پیش کیا جائے۔تاکہ عدالت مطمئن ہو سکے کہ شخص کو غیر قانونی قبضے یا غیر
قانونی طریقے سے نہ رکھا ہو۔B)عدالت عالیہ اپنی علاقائی حدودمیں کسی پبلک
سرونٹ سے یہ استفسار کرسکتی ہے کہ وہ کس قانون یا قاعدئے کے مطابق اس
حکومتی سیٹ پر کام کر رہا ہے۔3)کسی بھی متاثر ہ شخص کی طر ف سے درخواست کی
بنا پر عدالت عالیہ کسی بھی شخص اتھارٹی بشمول حکومت کے اختیارت کی بابت
انسانی حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی کی بابت اپنی علاقائی حدود میں مناسب
قانون کولاگو کروانے کے لئے حکم جاری کرسکتی ہے۔تاہم عدالت عالیہ کسی بھی
مسلح افواج کے شخص کے خلاف یاکسی بھی ایسے قانون کے متعلق جو کسی مسلح
افواج شخص کے متعلق ہو کوئی حکم صادر نہیں فرما سکتی۔خواہ اس کی ملازمت سے
متعلقہ ہویا کسی بھی معاملے سے متعلقہ ہو جو ا س کی ملازمت سے متعلق
ہو۔عدالت عالیہ کوئی بھی ایسا interimآرڈر کرسکتی ہے کہ اگر کسی معاملے میں
جو کہ کسی عوامی کام سے متعلق ہو ایسا کا م جو کسی نفرت کو ہوادے یا کوئی
ایسا کام ہو جو مفاد عامہ کے مخالف ہو یا ریاستی جائیداد کے مفاد کے خلاف
ہو۔تاہم عدالت تب تک کوئی حکم صادر نہ فرمائے گی جب تک اُس شخص نے متعلقہ
دفتری ریکاڈ کو اپنے ساتھ ہونے والے امر مانع کے متعلق آگاہ نہ کیا
ہو۔1)عدالت عالیہ کے پاس حبس بے جاکے حوالے سے اختیارات ہیں۔2)اسی طرح
عدالت عالیہ کے پاس بنیادی حقوق پر عمل درآمد کے لئے بھی اختیارات
ہیں۔متاثرہ شخص سے مراد یہ ہے کہ ایسا شخص عدالت عالیہ سے رجوع کرسکتا ہے
جس کو ذاتی طور پر مالی طور پر یا جائیداد کے حقوق کے حوالے سے کوئی بھی
اگر متاثر ہوا ہے وہ عدالت عالیہ سے رجوع کر سکتا ہے گو یارٹ کر نے کے لئے
متاثرہ شخص کا خود ہونا ضروری ہے سی ایل سی 766-2008کے مطابق ہائی کورٹ کے
اختیارات آرٹیکل 199آئین پاکستان کے حوالے سے صرف حکومتی اداروں کے متعلق
نہیں نہیں ہے بلکہ کسی بھی شخص یا ادارے کے متعلق ہائی کورٹ سماعت کرسکتی
ہے۔عدالت عالیہ کی حدود غیر معمولی معاملات کے متعلق ہے۔یہ کوئی اضافی
سہولت نہ ہے۔بلکہ اگر کسی فورم پر انصاف مل رہا ہو تو پھر اُسی فورم سے
رجوع کیا جائے۔ایم ایل ڈی 1621-2004کے مطابق عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ جب
تک لوئر کورٹس یا لوئر فورم رجوع نہ کیا جائے اُس وقت تک عدالت عالیہ کا رخ
نہ کریں۔2005SCMR445 کے مطابق عدالت عظمی نے قراردیا کہ آرٹیکل 199کے تحت
درخواست دائر کرنے کا حق صرف ذاتی یا شخصی نوعیت کا ہے یہ ایسا شخص صرف اس
صورت میں ہی اپنے حق کے لئے عدالتی عالیہ یا عدالت عظمی میں رجوع کرسکتا ہے
جب کوئی شخص اس کاکام کرنے سے انکار کردے صرف اسی صورت میں نہیں کہ حق حاصل
ہو بلکہ انصاف پر مبنی حق کا وجود بھی ہو۔ کیونکہ جب تک درخواست کی بنیاد
پر حق کو Establishedنہ کیا ہو۔ اُس وقت تک آٹیکل 199کے تحت حکم جاری نہیں
کیا جاسکتا ہے۔یہ ضروری ہے کہ پولیس کو اگر درخواست دائر کی جائے کہ ایف
آئی اردرج کریں یہ پو لیس کا فرض ہے کہ وہ کیس رجسٹر کرئے۔آرٹیکل 199کے
مطابق یہ بات بہت واضع کردی گئی ہے۔کہ ہائی کورٹ کی یہ Liabiltyنہیں ہے کہ
وہ ہر کیس میں رٹ جاری کرئے۔یہ بات اہم ہے کہ عدالت عالیہ اس امر کو پیش
نظررکھتی ہے کہ وہ رٹ کو منظور کرئے یا مسترد کرئے crpcسکیشن 22اے22بی میں
سیشن جج اور ہائی کورٹ کے جج کے پاس اختیارات سیکشن 154 crpc کے تحت پولیس
آفیسر کے اختیارات ہیں آئین کے مجوزہ آرٹیکل 199کے حوالے سے اگر تنقید ی
جائزہ لیا جائے تو یہ ایک ایسا Reliefہے جس کے اثرات تیسری دنیا کے سماجی
ڈھانچے میں اہمیت کے حامل ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لئے
خاص طور پر عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکٹانا پڑتا ہے۔موجودہ وڈیرہ
شاہی،جاگیردارنہ راج سرمایہ درانہ سماجی ماحول میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ
آئین پاکستان کے آرٹیکل 199کے تحت متاثرہ شخص Reliefحاصل کرنے کے لئے ہائی
کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے درحقیت اسلام کے عادلانہ نظام اور ہر کسی کو فوری
Reliefکے حوالے سے اس آرٹیکل کے تحت عمل درآمد گی بڑی اہمیت کی حامل
ہے۔موجودہ دور میں جب میڈیا کی وجہ سے اطلاعات کی فراہمی میں برق رفتاری
آئی ہے وہاں اطلاعات کی نچلے طبقے تک بلاروک ٹوک فراہمی ایک سماجی تبدیلی
کی نوید بھی ہے۔ذراتصور میں ملاحظہ فرمائیں۔سرکاری اداروں میں کرپشن اقربا
ہروری جس عروج پر ہے اور سرکاری محکموں میں جس طرح من مانیا ں کی جاتی
ہیں۔ان حالات میں اگر عدالت عالیہ کے اختیارا ت برائے رٹ بھی نہ ہوں تو پھر
انسانی حقوق کی پامالی کی کیا حالت ہے۔جس طرح کے سماج میں ہم رہ رہے ہیں ان
حالات میں پولیس سیاسی بنیاد وں پر خصوصا جس عوام الناس کا حشر کرتی ہے اور
جس طرح ہمارے ملک کی پولیس وڈیروں جاگیرداروں کی باندھی بنی ہوئی اگر
22Aاور22Bسی آرپی سی کے تحت اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 199عدالت عالیہ
کوئی Reliefنہ دے تو پھر تھوڑا بہت انصاف جو معاشرے میں ہوتا نظر آتا ہے وہ
بھی مفقود ہوجائے گوکہ ہمارے معاشرے میں انصاف کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں
ہیں۔لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترداف سول سوسائٹی
وکلا،اساتذہ،مزدور،ڈاکٹر زِ،صحافیوں کی بدولت ایسا لگتا ہے کہ اس دھرتی پر
انسان بھی بستے ہیں۔ہائی کورٹ نے حبس بے جااور پولیس کی طرف سے ایف آئی
آرنہ درج کرنے کی بابت اپنے اختیارت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو بھی تفویض
کررکھے ہیں۔لیکن یہ بات مشا ہدے میں آئی ہے کہ پولیس ہائی کورٹ کے احکامات
سے ڈر کر کوئی عملی قدم اُٹھا لیتی ہے لیکن ڈسڑکٹ اینڈ سیشن ججون کے
احکامات کی پرواہ نہیں کوئی اس ضمن میں آئی جی صاحبان اگر اپنے کردار ادا
کریں تو مناسب ہوگا۔یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ سوسائٹی ارتقائی منازل کی تکمیل
میں سر گرداں ہے لیکن جس قوم یعنی مسلمان قوم کے ہم فرد ہیں ہماری تکمیل تو
نبی آخر محمدﷺ نے سا ڑھے چودہ سوسال قبل فرمادی تھی۔ |