دنیا میں اسلام کے علاوہ بہت سے مذاہب ہیں اور اسلام سمیت
تمام مذاہب میں مذہبی تہوار منایا جاتا ہے ، شاید ہی ایسی کوئی قوم یا ایسا
کوئی مذہب ہے جس میں تہوار نہ منایا جاتا ہو۔ اپنے اپنے رنگ ڈھنگ میں سبھی
قوم تہوار مناتی ہے ۔ ہندوستان میں دیوالی کے موقع پر مٹھائی کھانے کھلانے
کی رسم بہت مشہور ہے ۔ ویسے ہندوستان کثیر الادیان، کثیراللسان اور کثیر
الاقوام ہے ۔ یہاں مختلف قسم کی بولیاں بولنے والے ، مختلف قسم کی تہذیب
ماننے والے اور مختلف قسم کے ادیان وملل پر چلنے والیلوگ پائے جاتے ہیں ۔
صرف مسلمانوں میں یہاں کئی فرقے ہیں اوران میں مسلکی اختلاف اس قدر شدید ہے
کہ اتنی شدت شاید پوری دنیاکے مسلمانوں میں کہیں نہیں پائی جاتی ۔ مسلمانوں
کے باہمی تنازعات کا یہ حال ہے تو پھر مختلف ادیان کے درمیان کیسامعاملہ
ہوگا سمجھ سکتے ہیں ۔صرف ہندو قوم کی شدت منافرت اور اسلام کے تئیں بعض
وعناد کی مثال دینا چاہتاہوں کہ یہاں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں بے
شمار علماء ، خطباء اور واعظین ہیں ۔ اپنے اپنے مسلک ومذہب کی ترویج واشاعت
میں رات دن کوشاں ہیں ، بڑے بڑے اجتماعات، کانفرنسیں، سیمنار، تبلیغی دورے
اورگشت وچلہ کشی ہوتی رہتی ہیں مگر کسی میں کیامجال کہ ہندؤں میں بھی تبلیغ
کرسکے؟ الا ماشاء اﷲ
اہل حدیث جماعت میں ایک شیر دل مرد آہن ڈاکٹر ذاکر نائک پیدا ہوا جنہوں نے
پورے ہندوستان کی ہندو قوم کو اپنے پررونق اسٹیج سے للکارا ، ہزاروں کو
حلقہ بگوش اسلام بھی کیا مگر ہند کی اکثریتی قوم ہندو اپنی کافرانہ طاقت کے
بل بوتے ان کے سامنے بند باندھنیاور انہیں دعوت اسلام سے روکنے میں کامیاب
ہوگئے، ان کے عالمی دعوتی ادارے پر پابندی عائد کردی گئی ۔ مجھے حیرت دعوت
حق کی روک اور ڈاکٹر صاحب کی بندش پہ کم اور مسلکی بغض وعناد میں ڈوبے عیار
ومکار علماء سوء پر زیادہ ہے جن میں سے بہت سے کھلے اور بہت سے درپرہ اپنے
ہی دین اسلام کی اشاعت روکنے میں شازشیں رچتے رہے اوربالآخر دیار ہند میں
غیرمسلموں میں تیزی پھیل رہی دعوت اسلام پہ بندش لگوانے میں کامیاب ہوگئے ۔کل
قیامت میں اﷲ تعالی کو ایسے علماء کیا جواب دیں گے ؟
ہندوستان میں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے حالات خراب سے خراب تر ہورہے
ہیں ، گائے حلال ہے مگر ذبح نہیں کرسکتے ، قربانی نہیں دے سکتے ، حالات کا
تقاضہ ہے کہ جس طرح اﷲ نے تبلیغ میں حکمت وبصیرت کو مدنظر رکھنے کا حکم دیا
ہے یہاں رہنے سہنے میں بھی مومنانہ فراست ، حکیمانہ طور طریق اور بصیرت
اندوز بودوباش اختیار کی جائے ۔ ہندوستانی علماء کے سامنے مسلم عوام دیوالی
کے موقع سے عام طور پر سوال کرتے ہیں کہ کفار کی دیوالی پہ ہم ان کی پیش کی
ہوئی مٹھائی کھاسکتے ہیں کہ نہیں؟ ۔ اس سوال کے جواب میں بعض علماء ان کی
مٹھائی کھانے سے سخت انداز میں منع کرتے ہیں اور بعض کے یہاں حکمت وبصیرت
کے مدنظر کھانے کا حکم ملتا ہے ۔ ذیل میں اسی مسئلہ کی مختصر وضاحت مقصود
ہے۔
غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے
سامنے آتے ہیں ۔
(۱) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے
کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(۲)دوسرینظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول
کرنا جائز ہے ۔
پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون
پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراﷲ کی عبادت
بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا
چاہئے جس میں غیراﷲ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراﷲ پہ نہ
چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری
نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا
حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں
مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری
ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور
مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی
مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے
اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ جانیں کہ اسلام امن و سلامتی اور الفت
ومحبت کا درس دیتا ہے اپنے اسی خوبی سے دنیا میں پھیلا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
اسلام غیرمسلموں کے ساتھ نرمی برتنے ، احسان وسلوک کرنے اور خاص طور سے
اسلام کی طرف مائل لوگوں کی تالیف قلب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ زکوۃ کا ایک
مصرف ایسے ہی قسم کے لوگ ہیں ۔اﷲ تعالی غیرمسلموں سے احسان کا حکم دیتے
ہوئے فرماتاہے :
لا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ
وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا
إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ(الممتحنہ: 8)
ترجمہ: اﷲ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا
جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے لڑائی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے
دخل نہیں کیا، بیشک اﷲ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
تمام کافروں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وہ کافر جو بے ضررہوں،
یا اسلام کی طرف مائل ہوں ، یا مسلمانوں کی مدد کرنے والے ہوں ایسے لوگ
ہمارے احسان کے مستحق ہیں ۔
بعض کافروں نے عہد رسالت میں بھی اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ دیا ، تاریخ
اٹھاکر دیکھیں ، شعب ابی طالب کا تین سال کا ظالمانہ محاصرہ بعض کافروں کی
مدد سے ختم ہوا۔
اسی طرح اسیران بدر سے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لو کان المُطْعَمُ بنُ عَدَیٍّ حیًّا ، ثم کلَّمَنی فی ہؤلاء النُّتْنَی
لترَکْتُہم لہ.(صحیح البخاری:4024)
ترجمہ: اگر مطعم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندے قیدیوں کو رہا
کرنے کی درخواست کرتا تو میں انہیں اس کی خاطر رہا کردیتا ۔
مطعم بن عدی مشرک تھا لیکن اس نے رسول اﷲ ﷺکی اس وقت مددکی تھی جب آپ طائف
سے زخمی حالت میں واپس تشریف لائے ۔اس نے آپ ?کواپنی پناہ میں لیکر مکہ میں
داخل کیا ۔آپ ﷺنے اس کے احسان کا بدلہ اتارنے کیلئے یہ الفاظ ادا فرمائے
تھے ۔
آج بھی ایسیکفارہرجگہ موجود ہیں جو مسلمانوں کے لئے نفع بخش ہیں ، ہندوستان
میں اکثر مسلمان ظلم کے شکار ہیں اور دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ان میں
سے بعض مسلمانوں کوکافروں کی امداد مل جاتی ہے جبکہ مسلمان وکلاء ، مسلمان
وزراء اور مسلمان امراء ورؤساء ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہتے ہیں ۔
اس قسم کے اچھے لوگ کافر ہونے کے باوجود مسلمان کا درد محسوس کرتے ہیں
اورانہیں ظلم سے نجات کے لئے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس بات کو وہ مسلمان جس
کو کسی کافر نے مدد کی ہو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی
بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کیدنیاوی معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ
کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے قلبی دوستی
اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے۔ ان
سے ملنے جلنیاورمعاملات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ایسے ماحول میں کافروں
سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور
مسلمانوں کی قدر کرتاہو بلکہ مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ہو تحفہ قبول نہ
کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہیاور یہ اسلام کے حسن
سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں
غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع
ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام اور معاون ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ
سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا
چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل
نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔جیسے ہم مسلمان اپنی عیدوبقر
عید پہ کافروں کو تحائف دے سکتے ہیں بلکہ قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں اسی
طرح کافر پڑوسی، میل جول والا، معاملات والا، احسان وسلوک والا، اسلام کی
طرف رغبت رکھنے والا، مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ، اچھے اخلاق والا جسے
اسلام کی دعوت دی جاسکے وغیرہ سے ان کے تہوار دوالی پہ مٹھائی یا وہ تحفہ
اور کھانا قبول کرسکتے ہیں جو اسلام میں اصلا حلال ہو۔
ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ کفار کے تہوار پہ مبارک باد دینا جائز نہیں
ہے ، ان کے تہوار پہ خود تحفہ دنیا چائز نہیں ہے ، ان کے تہوار میں کسی کفر
وشرک والے کام پر تعاون کرنا چائز نہیں ہے اوران کے تہوار میں استعمال ہونے
والی مخصوص مذہبی اشیاء کی تجارت جائز نہیں ہے ۔
بعض علماء نے بھی تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے کی بات کی ہیجن شیخ
الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ بھی ہیں۔ ان کے علاوہ امام احمد بن حنبل
اور سعودی عرب کے مشہورعالم شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔ |