تحریر: حوریہ ایمان ملک، سرگودھا
بہت دنوں کی بات ہے کہ کسی ملک کے ایک انصاف پسند بادشاہ کا وزیر مرگیا۔ وہ
وزیر بہت عقل مند اور نیک انسان تھا، جو بادشا کو رعایا کی بھلائی کے لیے
اچھے مشورے دیتا تھا۔ بادشاہ اس کو بہت عزیز رکھتا تھا اور اس پر مکمل
بھروسا کرتا تھا۔ بادشاہ کو اس کی موت کا بہت افسوس تھا۔ بادشاہ کو ہی نہیں
اس ملک کے عوام کو بھی وزیر کی موت کا غم تھا۔
بادشاہ اپنے درباریوں میں سے کسی کوبھی اپنا وزیر بناسکتا تھا ، لیکن اس نے
فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک کے ہی کسی عقل مند آدمی کو وزیر بنائے گا۔ بادشاہ
اپنے ایک وفادار ملازم کے ساتھ رات کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کے حالات
جاننے کے لیے نکلتا تھا۔ اس طرح وہ ان کے مسائل سے واقفیت حاصل کرتا تھا۔
ایک بارآدھی رات کے وقت وہ شہر کی ایک گلی سے گزررہا تھاکہ اندھیرے کی وجہ
سے ایک آدمی سے ٹکرا گیا۔
بادشاہ نے پوچھا: تم کون ہو اور رات کے وقت یہاں کیا کررہے ہو؟
اس شخص نے جواب دیا: میں اس شہر کاایک شریف انسان ہوں اور بے وقوفوں کو عقل
مند بنانے کے گر سکھاتا ہوں۔
بادشاہ گھوم پھر کر اپنے محل پہنچا اور دوسرے دن اس نے حکم جاری کیا کہ شہر
میں رات کے وقت ہر شخص ہاتھ میں چراغ لے کر نکلاکرے۔ جو شخص ایسا نہیں کرے
گا، اسے سخت سزادی جائے گی۔
کچھ دنوں بعد بادشاہ رات کے وقت شہر کی ایک گلی سے گزررہاتھاکہ وہ ایک آدمی
سے ٹکرا گیا۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیااور اس نے پوچھاتم کون ہواور اس وقت
یہاں کیاکررہے ہو ؟
جناب ! میں اس شہر کاایک معززآدمی ہوں اوربے وقوفوں کو عقل سکھلاتا ہوں۔
بادشاہ نے پہچان لیا کہ یہ وہی شخص ہے، جو چنددن قبل اس سے ٹکرایا تھا۔
کیا تم نے بادشاہ سلامت کا حکم نہیں سنا کہ رات کے وقت ہرآدمی ہاتھ میں
چراغ لے کرنکلاکرے۔ تم نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل نہیں کی، اس لیے تم کو
سخت سزا ملے گی۔ بادشاہ نے غصے میں کہا۔
جناب والا ! میرے ہاتھ میں چراغ ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اس آدمی نے جواب
دیا۔
مگر یہ روشن کیوں نہیں ہے ؟
جناب والا ! بادشاہ سلامت کے حکم میں صرف اتنا ہے کہ ہر آدمی ہاتھ میں چراغ
لے کر چلے۔ یہ حکم نہیں دیا کہ اس میں تیل بھی ہواور وہ روشن بھی ہو۔
بادشاہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس آدمی نے پھر کہا: میرا خیال ہے کہ
بادشاہ کے دربار میں عقل مند وزیروں کا قحط ہے ،ورنہ ایسا حکم صادرکرنے سے
پہلے وہ بادشاہ سلامت کی توجہ دلاتے۔ میری دعا ہے کہ خدا ہمارے بادشاہ
سلامت کو ایک عقل مند وزیرباتدبیرعطا فرمائے۔
بادشاہ یہ بات سن کر دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ وہ اس آدمی کے ساتھ ساتھ
چلنے لگااور باتوں میں اس کے بارے میں ذاتی معلومات حاصل کرلیں۔
بادشاہ نے پوچھا: تمھارا پیشہ کیا ہے۔
اس نے جواب دیا: جناب والا ! میں ایک مدرسے میں استاد ہوں اور عقل مند
بنانے والی دو عظیم کتابوں کا حافظ ہوں۔ اس کے علاوہ بہت ساری ایسی کتابیں
پڑھ چکا ہوں جو انسان کو عقل مند بنا کر ان کوکامیاب انسان بناسکتی ہیں۔
میرے استاد نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر کوئی آدمی گلستان اور بوستان کی
حکاتیوں کو سمجھ کر پڑھے اور غور کرے تو ایک دن وہ عقل مند ترین انسان بن
کر کسی بادشاہ کے دربار میں جگہ پاسکتا ہے۔
باتیں کرتے کرتے اس عقل مند انسان کا گھرآگیا اور وہ رخصت ہوگیا۔ بادشاہ نے
اس کے مکان اور محلے کو ذہن نشین کرلیااور اپنے محل میں واپس چلاگیا۔
دوسرے دن بادشاہ نے اپنے شاہیوں کو حکم دیا کہ اس عقل مند انسان کو عزت کے
ساتھ ہمارے حضور پیش کیا جائے۔
بادشاہ اس کی گفتگواور عالمانہ باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور اس کو اپنا
وزیر بنالیا۔ اس وزیر نے بادشاہ کو بہت اچھے اور مفید مشورے دیے۔ بادشاہ نے
حکم دیا کہ شہر کے سارے باشندوں کو مفت چراغ اور تیل فراہم کیاجائے اور گلی
کوچوں میں رات کو روشنی کرنے کے لیے چراغ تھامے نوکر رکھے جائیں۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ استادوں کے علاوہ بھی شہر کے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ
شیخ سعدی کی کتابیں گلستان وبوستان ضرور پڑھے۔ |