اصغر کی توبہ

دیا خان بلوچ،لاہور
اصغر کی شرارتیں پورے محلے میں مشہور تھیں۔ چندماہ پہلے ہی وہ تیسری جماعت میں آیا تھا۔ پڑھائی میں اچھا تھا لیکن اس کی ایک بری عادت تھی اور وہ تھی کہ سب بچوں کے ساتھ لڑنا۔ ہر روز وہ کسی نا کسی سے لڑائی کرتا رہتا تھا۔ ٹیچر کی بات وہ ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا۔ کلاس میں پہلے سب اس کے دوست تھے لیکن اب سب نے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ دوستی ختم کر دی تھی۔احمد جو کے اس کا بہترین دوست تھا وہ بھی اب اس سے دور رہنے لگا تھا۔کیوں کہ اصغر نے اس کو بھی کھیل کے دوران بہت مارا تھا۔سکول کے بعد اصغر اکیڈمی جاتا تھا۔اکیڈمی سے آنے کے بعد وہ گھر کے ساتھ موجود میدان میں کھیلنے جاتا تھا۔لیکن یہاں بھی اس کے لڑنے کی عادت نے اسے سب سے الگ کر دیا تھا،اب تو اصغر کو سب پر غصہ بھی آنے لگا تھا۔جب کوئی بھی اسے اپنے ساتھ کھیل میں شامل نہیں کرتا تھا تو کسی نہ کسی کو مار کو بھاگ جاتا۔اب تو بچوں نے اس کی امی سے بھی شکایت کرنا شروع کر دی تھی۔اصغر کی امی اصغر سے بہت پیار کرتی تھیں انہوں نے اصغر کو بہت سمجھایا لیکن اصغر اگلے دن ہی ان سے کیا گیا وعدہ بھول جاتا تھا۔

اسی طرح دن گزرنے لگے۔ایک دن کیا ہوا کہ سکول میں سارے بچے بریک میں کھانا کھا رہے تھے۔اصغر بھی ہاتھ دھو کرآیا ،اس نے اپنا بیگ کھولا تو دیکھا کہ اس کا لنچ باکس نہیں تھا۔وہ بہت پریشان ہوا۔پھر اسے یاد آیا کہ امی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی انہوں نے کہا تھا کہ آج بابا جان سے پیسے لیتے جانا،لیکن اصغر تو باباجان سے پیسے لینا بھول گیا تھا۔آج تو اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا،اس کو بہت بھوک لگی تھی۔اس نے اپنی کلاس میں سب بچوں کو دیکھا ،سب ہنس رہے تھے ایک ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔صرف وہ ہی اکیلا بیٹھا تھا۔کسی نے بھی اس سے نہیں پوچھا تھا اور پوچھتے بھی کیوں اور کیسے؟ وہ تو سب سے لڑتا تھا۔اصغر کو بھوک تو لگی ہی تھی اب خود کو یوں سب سے دور دیکھ کر وہ اور بھی دکھی ہو گیا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔اصغر سر جھکائے رو نے لگاتھا۔اسی وقت احمد کی نظر اس پر پڑی اس نے اصغر کو روتے دیکھا تو اس کے پاس چلا آیا۔وجہ پتا چلی تو اس نے اصغر کاہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ لے گیا۔اصغر نے سب کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔وہ دل ہی دل میں بہت شرمندہ تھا اس نے سوچا کہ یہ سب کتنے اچھے ہیں ،لیکن ،میں ان سب سے لڑتا تھا اور مارتابھی تھا۔احمد نے کہا:اصغر ہم سب تم سے دوستی کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری ایک شرط ہے ۔اصغر نے پوچھا وہ کیا؟

اگر تم وعدہ کرو کہ آج کے بعد سے تم ہم میں سے کسی کو بھی مارو گے نہیں اور لڑائی بھی نہیں کرو گے۔اصغر نے کہا : میں آپ سب سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اب کسی کو بھی نہیں ماروں گا۔میں اپنے رویے پر بہت نادم ہوں اور آپ سب سے معافی مانگتا ہوں۔اب نے اصغر کو معاف کر دیااورسب نے اس سے ہاتھ ملایا،اس طرح سب اصغر کے دوبارہ سے دوست بن گئے تھے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.