اسلام ایک آفاقی اور عالمگیری مذہب ہے ،اسلام کی
تعلیمات تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں،اسلام صرف کسی خاص طبقے،تہذیب اور
رنگ و نسل کے لوگوں کو مخاطب نہیں بناتا بلکہ تمام انسانوں سے خطاب کرتا
ہے،وہ دین رحمت ہے۔چنانچہ لفظ اسلام کے معنی ہی سلامتی ہیں پھر اسلام جس
وحدہ لاشریک لہ کومعبود قرار دیتا ہے وہ رحمان و رحیم بلکہ ارحم الراحمین
ہے،اسلام جس ذات کو پیغمبر مانتا ہے وہ رحمۃ للعالمین ہے(وما ارسلناک
الارحمۃ للعالمین) اسلام کا قبلہ امن کا گہوارہ ہے،اسلام کے مہینہ کا آغاز
سلامتی کی دعاء کے ساتھ ہوتا ہے(اﷲم اہلہ علینا بالیمن والایمان والسلامۃ
والاسلام ربی وربک اﷲ) اسلام کی عبادت میں بھی امن و سلامتی کی دعائیں (السلام
علینا وعلی عباداﷲ الصالحین) مسلمان مرتا بھی ہے تو امن وسلامتی اور اطاعت
و فرماں برداری کی موت مرنی چاہتا ہے(توفنی مسلما)۔لہذا اسلام کے معنی،اس
کے مقاصد وتعلیمات،اس کا آغاز و ارتقاء اور اس کی اشاعت تمام ہی امن و
سلامتی کے ضامن ہیں،تو اس مذہب سے زیادہ امن وسلامتی کہاں ہوسکتی ہے۔
مخالفین کا پروپیگنڈہ
لیکن مخالفین اسلام طرح طرح کے پروپیگنڈے کرتے ہیں،اوربے جا الزامات کے
ذریعہ اسلام کو پرتشدد اور دہشت گرد مذہب قراردیتے ہیں جبکہ مسلمانوں کو
ظالم وجابر باور کرانے کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں،اور دنیا کی نظروں میں
اسلام کی شبیہ کو داغدار کرنے کی پیہم سعی میں مصروف ہیں۔وہ مختلف تاریخی
واقعات کو توڑمروڑ کر اور ان کو غیر واقعی انداز سے پیش کرکے اسلامی
تعلیمات سے جوڑتے ہیں،اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام میں وسعت و رواداری
نام کی کوئی چیز نہیں ہے،بلکہ اسلام تشدد و خونخواری کو پسند کرتا ہے ،قرآن
کریم کی متعدد آیات کو ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنی منشاء کے مطابق ان
کا مفہوم بیان کرکے اپنے ہم خیالوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کرتے
ہیں،جبکہ حقیقت اس کے بالکل خلاف ہے۔
قرآن کریم میں مذہبی رواداری
اﷲ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: یا ایہا الذین آمنوا کونوا قوامین ﷲ شھداء
بالقسط الآیۃ۔(سورہ مائدہ آیت نمبر ۸ ) ترجمہ:’’اے ایمان والوں! ایسے بن
جاؤ کہ اﷲ (کے احکام کی پابندی)کے لیے ہر وقت تیار رہو،اور کسی قوم کی
دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم نا انصافی کرو،انصاف سے کام
لو،یہی طریقہ تقوی سے قریب تر ہے اور اﷲ سے ڈرتے رہو ، اﷲ تعالی تمہارے کام
سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔اس آیت کریمہ کے اندر رواداری کو عدل کے مترادف
قراردیاجاتاہے،مطلب یہ ہے کہ مذہب،تہذیب،ثقافت،زبان یا رنگ ونسل میں اختلاف
رکھنے والے ہر شخص کے ساتھ خواہ ،وہ دوست ہو یا دشمن عدل و انصاف کا معاملہ
کریں،اس کے مذہب وغیرہ کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کیا
جائے،نہ کسی طرح کی زیادتی یا ظلم روا رکھا جائے۔
سورہ ہود آیت نمبر ۱۱۸ میں اﷲ فرماتے ہیں: ولوشاء ربک لجعل الناس امۃ
وّاحدۃ وّ لایزالون مختلفین۔ اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو
ایک ہی طریقے کا پیرو بنا دیتا(مگر کسی کو زبردستی، کسی دین پر مجبور کرنا
حکمت کا تقاضا نہیں، اس لیے اپنے اختیار سے مختلف طریقے اپنانے کا موقع دیا
گیا) اور اب وہ ہمیشہ مختلف راستوں پر ہی رہیں گے۔اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ:
ہر شخص کے پیش ِنظر یہ بات رہنی چاہیے کہ مختلف طبقات میں جو مذہبی اور
فکری اختلاف ہے وہ فطری ہے،اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اس لیے فراخ
دلی کا مظاہرہ کیا جائے ،اور دوسروں کے مذہب، عقائدو نظریات وغیرہ کو
برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے،اور ان کے ساتھ مذہبی،سیاسی اور علمی
رواداری کا معاملہ کیا جائے۔
مخالفین کی طرف سے ایک الزام یہ دیا جاتا ہے کہ مذہب اسلام کی اشاعت
بزورِشمشیر ہوئی،جبکہ اس کی کوئی ثبوت نہیں ملتا، حقیقت یہ ہے کہ اسلام حسن
معاشرت، حسن اخلاق اور رواداری سے پھیلا ہے۔ قرآن کریم واضح اصول بیان کرتا
ہے: لا اکراہ فی الدین ، قد تبین الرشد من الغی۔ دین اسلام میں کوئی زور
زبردستی نہیں،ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہوکر واضح ہوچکا۔
مذہبی رواداری کے حوالے سے ایک بڑی کوتاہی ہماری طرف سے بھی ہورہی ہے،مذہبی
رواداری کی وہ روشن اور بین مثالیں جو ماضی میں ملتی ہیں ، موجودہ دور میں
بہت کم ہوگئیں ہیں۔اور ہم نے اسلام کے ایک اہم حکم اشاعت اسلام اور تبلیغ
دین کو بالکل ترک کر دیاہے۔اور الہ العلالمین اور رحمۃ للعالمین کو خاص قوم
مسلم کا رب اور نبی سمجھ لیا ہے،جبکہ اﷲ تمام کائنات کا رب اور آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم پوری انسانیت اور دنیا کے نبی ہیں، اس پیغام کو عام کیا جائے اور
دیگر اقوام کو اس کی دعوت دی جائے اﷲ جل جلالہ سب کے رب اور محمدِعربی ﷺ سب
کے نبی اور رسول ہیں،تو کچھ دوریاں کم ہوں گی اورآپسی فاصلے سمٹ جائیں گے۔
چنانچہ ایک شاعر رگھوپتی سہائے مسلمانوں سے اعتراض کرتے ہوئے گویا ہوتا ہے
کہ:
معلوم ہے تم کو کچھ محمد ﷺ کا مقام
وہ امت اسلام میں محدود نہیں ہے
ایک سکھ شاعر کنور مہیندر سنگھ بیدی اپنے اعتراض کو اس شعر میں بیان کرتا
ہے کہ:
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد ﷺپر اجارہ تو نہیں
لیکن مذہبی رواداری،حسن سلوک اور عدل وانصاف کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذاہب
کے درمیان فرق و امتیاز ہی کو مٹا دیا جائے۔اور مسلمان رواداری کے جوش میں
غیر مسلموں کے عقیدے اور مذہب کی تائید ہی شروع کردیں،یا اس عقیدے پر مبنی
مذہبی تقریبات اور تہوار میں شریک ہوکر یا ان کے شعار کو اپنا کران کے ساتھ
یکجہتی کا مظاہرہ کریں،جیسا کہ اس دور میں بہت سے ماڈرن اور روشن دماغ
مسلمان کربھی رہے ہیں۔اس سلسلے میں قرآن کریم نے جو دو ٹوک اور واضح طرز
اصول بتلایا وہ یہ ہے:لکم دینکم ولي دین(تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے
لیے میرا دین)۔ |