مولانا قاری شبیر احمد عثمانی
ختم نبوت کاانکار یا اس میں کوئی تاویل کفر ہیختم نبوت کا عقیدہ سمجھنے اور
جاننے میں کسی بھی شخص کو کوئی دشواری یا اشکال نہیں ۔چنانچہ ہرزمانہ میں
تمام روئے زمین کے مسلمان حدیث ذیل کے الفاظ سے اس عقیدہ کو بخوبی سمجھتے
ہیں :ترجمہ:بے شک رسالتؐ ونبوت کا سلسلہ منقطع ہوگیا ،پس میرے بعد اب نہ
کوئی رسول ہوگا نہ کوئی نبی ۔‘‘(جامع الترمذی ج۲ص۵۱)
یہ حدیث شریف کا مذکورہ ذیل جملہ اس مسئلہ کو سمجھانے کیلئے ہر خاص وعام
شخص کیلئے کافی ووافی ہے :
ترجمہ:نبوت تو ختم ہوگئی اب تو صرف بشارت دینے والے خواب رہ گئے ہیں
۔‘‘(ترمذی ۲،ص۵۱)
ان ہر دو حدیثوں کے ظاہری الفاظ اور متبال معنی ختم نبو ت کے سوا اور کچھ
نہیں ہوسکتے کوئی بھی عالم وغیر عالم آدمی بغیر کسی ترددوتذبذب کے ان دو
احادیث کے الفاظ جانتا اور سمجھتا ہے کہ نبوت ورسالتؐ کا جو سلسلہ حضرت آدم
علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ختم ہوچکا ،اب
نہ کوئی نبی ہوسکتا ہے نہ رسول
ختم نبوت پر اعلان برسرمنیر:جب یہ عقیدہ ’’شہرت وتواتر ،کے اس مرتبہ کو
پہنچ چکا ہے کہ خود صاحب نبوت علیہ الصلٰوۃ والسلام برسرِ منیر ایک سو پچاس
مرتبہ بلکہ اس سے بھی زیادہ بار واضح اور غیر مبہم الفاظ (احادیث)میں مختلف
مواقع اور مجامع میں اس کا اعلان وتبلیغ فرماتے ہیں اور کبھی ادنیٰ اشارہ
بھی اس طرف نہیں فرماتے کہ اس میں کسی ’’تاویل‘‘ کا امکان ہے اور عہدِ نبوت
سے اب تک امتِ محمدیہؐ کا ہر فرد عہد بہ عہد اس عقیدہ کو سنتا ،سمجھتا اور
مانتا چلا آتا ہے۔ حتیٰ کہ ہر زمانہ میں تمام مسلمانوں کا اس پر ایمان رہا
ہے کہ ’’خاتم الانبیاء محمد صلی اﷲ علیہ وسلم )کے بعد اب کوئی نبی نہیں
ہوگا ‘‘ ۔
پنجاب کا ایک ملحد اور دعویٰ نبوت وعیسویت:لیکن تیرہ سو سال بعد پنجاب سے
ایک ملحد اٹھتا ہے جو ان تمام نصوص صحیحہ میں ،ماضی کے زندیقوں کی طرح نت
نئی تحریفیں اور تاویلیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ اﷲ تعالیٰ نے ’’ابن
مریم‘‘میرا نام رکھا ہے اور وہ ’’عیسیٰ ابن مریم ‘‘میں ہی ہوں جس کے آخر
زمانہ میں آسمان سے نازل ہونے کی پیش گوئی احادیث میں کی گئی ہے ۔اور وہ
یہودی جن کو ابن مریم قتل کریں گے اس سے مراد عہدِ حاضر کے وہ علماء اسلام
ہیں جو میری نبوت پر ایمان نہ لائیں اسلئے کہ وہ یہودیوں کی طرح ظاہر پرست
اور روحانیت سے محروم ہیں ۔‘‘
اس ملحد کی حقیقت:حالانکہ اس ملحد کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ ا گلے زمانہ کے
وہ ’’زندیق وملحد‘‘ جن کا نام ونشان بھی آج صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے وہ اس
’’روحانیت ‘‘ میں (اگریہ ’’بے دینی ‘‘ہی روحانیت ہے )اس ملحدسے بہت بڑھ چڑھ
کر اور غیر معمولی قوتوں کے مالک تھے ۔
مرزا جیسے جھوٹے مدعیان نبوت کا انجام:یادرکھیے !اﷲ تعالیٰ نے مذکورہ ذیل
آیت میں مرزا غلام احمد جیسے بے دینوں اور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے
المناک انجام اور رسواکن حشر کا حال بیان فرمایا ہے :ترجمہ:اس شخص سے بڑھ
کر ظالم کون ہے (۱)جو اﷲ پر جھوٹا بہتان لگائے (کہ اس نے مجھے نبی بنایا
ہے) ۔
(۲)یا جو دعویٰ کرے کہ میرے پاس وحی بھیجی گئی ہے (اورمیں صاحب وحی نبی
ہوں)حالانکہ اس کے پاس قطعاًکوئی وحی نہیں بھیجی گئی ہو۔(۳)اور جو شخص یہ
دعویٰ کرے کہ جیسا کہ کلام اﷲ نے نازل کیا ،میں بھی نازل کرسکتا ہوں ۔ اے
مخاطب! اگر تو اس منظر کو دیکھے جب یہ ظلم کرنے والے سکرات موت کی حالت میں
ہوں گے اور (موت کے )فرشتے ان سے ہاتھ بڑھائے کہہ رہے ہوں گے :لاؤ نکالو
اپنی جانیں ،آج تم کو اﷲ پر ناحق بہتان لگانے اور اسکی آیات پر ایمان لانے
سے تکبر (اور انکار)کرنے کی پاداش میں رسوا کن عذاب دیا جائے گا
‘‘(الانعام: ۹۳)واضح ہوا کہ مرزا غلام احمد ان تمام دعوؤں کا صاف اور صریح
الفاظ میں جگہ جگہ اپنی تصانیف میں دعویٰ کرتا ہے اور یہی اس کا انجام ہے ۔
مرزا غلام احمد کے بعدمرزائیوں میں پھوٹ اور لاہوری قادیانی کی تقسیم
اس بے دین کے جہنم میں رسید ہونے کے بعد اس کے دُم چھلوں میں پھوٹ پڑ گئی
اور ہر گروہ اپنی اپنی بنسی ،اپنا اپنا راگ الاپنے لگا ،چنانچہ ایک گروہ
(لاہوری مرزائی )تواس کی ا مت سے بالکل ہی الگ ہوگیا اور اس نے دعویٰ کیا
کہ :’’مرزا غلام احمد نبی نہ تھا ،نہ کبھی اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ
رسول اﷲ کے بعد کوئی نبی ہوسکتا ہے ،بلکہ وہ تو مہدی آخر الزماں تھا اور
(پناہ خدا )مسیح محمدی تھا (یعنی وہ عیسیٰ جو امت محمدیہ میں آنے والے ہیں
)۔‘‘
دھوکا: یہ محض ایک فریب ہے اور دھوکہ جس کا مقصد صرف مسلمانوں کے بغض اور
عداوت و نفرت اور بے زاری سے بچنا اور مسلمانوں کو مرزا غلام احمد اور اپنی
جماعت سے مانوس کر کے خود کو اور مرزا کو مسلمان ثابت کرنے کی آڑ میں سیدھے
سادے مسلمانوں کو شکار کرنا تھا ،لیکن (مسلمان اس دھوکے میں نہیں آسکتے ان
کا ) متفقہ فیصلہ اور فتویٰ ہے کہ ’’جو شخص مرزا غلام احمد کو بلا تردد
وتذبذب کافر نہ مانے وہ بھی کافر ہے ۔‘‘
اس ملحد نے اپنی تحریروں اور کتابوں میں جگہ جگہ نہ صرف ’’نبی ‘‘بلکہ
’’رسول‘‘ اور ’’صاحب شریعت رسول‘‘ ہونے کے ایسے بلند وبانگ دعوے کیے ہیں کہ
آج تک ان سے فضا گونج رہی ہے ۔
مرزائیوں کیلئے حکم:
جو لوگ ان مرزائیوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کرناچاہتے ہیں وہ
صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ان سے توبہ کرالیں ،اگر یہ مرزائیت سے توبہ کریں
فبہا ورنہ قطعاًکافر ہیں شریعت اسلامیہ میں ان کیلئے اس سے زیادہ مراعات کی
قطعاًگنجائش نہیں،
پھریہ توبہ کرانا بھی ہر کس وناکس کا کام نہیں ہے بلکہ صرف اسلامی حکومت کا
حاکم ہی ان کے ’’کفر واسلام ‘‘ کا قطعی فیصلہ کرنے کے وقت ان سے توبہ
کراسکتا ہے ،تاکہ وہ ان کے کفریا اسلام کا دوٹوک فیصلہ کرسکے ، لیکن اسلامی
حکومت اور مسلمان حاکم موجود نہ ہونے کی صورت میں ،ان کے جہنم رسید ہونے تک
کفر کے سواکچھ نہیں ،چاہے اسے اوڑھ لیں ،چاہے بچھالیں ۔
(ماخوذ :اکفارا لملحدین ،از علامہ انور شاہ کشمیریؒ)
|