پشاور سمیت خیبر پختونخواہ کے بعض دیگر علاقوں میں
ڈینگی کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ڈینگی کے پشاور آنے کی وجوہات اور مستقبل کے
ارادوں کے حوالے سے ہم نے ڈینگی صاحب کے ساتھ ایک تصوراتی مکالمے کا اہتمام
کیا جو کہ نظر قارئین ہے۔
’’مچھر صاحب ذرا یہ بتائیں کہ آپ کو ڈینگی کیوں کہا جاتا ہے۔‘‘ـ’’ دیکھیں
جی ہم جب بھی کسی انسان کو ڈنک مارتے ہے تو وہ پھر اٹھنے کا قابل نہیں رہتا،
اس لیے ہمارا نام ڈینگی پڑگیا۔‘‘
’’ ڈینگی صاحب پہلے آپ نے کراچی میں دھاک بٹھایا، اس کے بعد پنجاب میں بھی
آپ نے خوب زور آزمائی کی، اب آپ پشاورتشریف لائے ہیں،کیا اس بارے میں کچھ
بتانا پسند فرمائیں گے۔‘‘’’دراصل ہمیں شریف برادران والی پالیسی پسند نہیں
ہے، کہ لاہور کو تو خوب نواز دیااور باقی پاکستان کو لالی پاپ تھما کر
بہلانے کی کوشش کی۔ ہماری نظر میں سب پاکستانی برابر ہے اس لیے ہم منصفانہ
طریقے سے سب صوبوں میں اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ ’’اگر یہی بات ہے تو
پھر بلوچستان میں آپ کہیں نظر نہیں آرہے اس بارے میں آپ کیا جواب دیں گے۔ــ‘‘
’’دیکھیں جی بلوچستان میں ہمیں تھوڑی سی مشکل پیش آرہی ہے۔ وہاں پر ہمیں یہ
خدشہ لاحق ہے کہ کہیں آپریشن شروع کرنے کے بعد لوگ ہمیں را کے ایجنٹ یا
ISIکے آلہ کار قرار نہ دیں۔‘‘ ’’ اس کا مطلب یہ ہو ا کہ بلوچستان آپ کے
پھیلائے ہوئے دہشت سے محفوظ رہے گا۔ــ‘‘ ’’جی نہیں۔ چند ہی روز بعد ہماری
سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہونے والا ہے۔ اس میں ہم یہ طے کریں گے کہ
کب بلوچستان والوں کو اپنا دیدار کرایاجائے۔‘‘ ’’آپ نے کہا کہ سب پاکستانی
آپ کی نظر میں برابر ہے، سندھ اور بلوچستان میں دیکھا یہ گیا ہے کہ آپ کا
سارا فوکس شہروں پر رہاہے ، اس کے برعکس دیہاتوں میں آپ کی کچھ خاص
ایکٹیویٹی نظر نہیں آئی۔‘‘ یہ بڑا اہم نکتہ اٹھایا ہے آپ نے۔ دراصل بات یہ
ہے کہ ہم ذرا صفائی پسند قسم کے مچھر ہیں، آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہم پاک
صاف پانی میں پرورش پاتے ہیں۔اب سندھ اور پنجاب کے دیہاتوں کے بارے میں تو
ہر کسی کو معلوم ہے کہ وہاں انسانوں کو بھی صاف پانی میسر نہیں۔ اب جب حضرت
انسان کو صاف پانی میسر نہیں تو ہمارا وہاں پر کیا لینا دینا۔‘‘ ’’مچھر
صاحب! ذرا یہ بتائیں کہ اس سال پشاور کو آپ نے اپنی ترجیحات میں سر فہرست
کیوں رکھا، دوسرا سوال یہ کہ آپ یہاں مزید کتنے عرصے تک قیام فرمائیں گے۔‘‘
’’پشاور آنا تو ہمارے پروگرام کا حصہ تھا ہی،جہاں تک پشاور کو ترجیحات میں
سرفہرست رکھنے کی بات ہے تو خیبرپختون حکومت نے صحت کے حوالے سے کچھ بڑے
دعوے کیے تھے۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ پشاور جاکر اصل حقائق کا پتہ چلایا
جائے، قیام کے حوالے سے ہم کسی کو کچھ نہیں بتاتے باالخصوص میڈیا والوں کو
تو ہرگز نہیں‘‘ ’’تو کیسا محسوس ہوا آپ کو کہ کیا واقعی کچھ تبدیلی آبھی
چکی ہے؟ دیکھیے جناب ہم روز درجنوں افراد کو باآسانی کاٹ لیتے ہیں، اب آپ
اس سے حکومتی پالیسی برائے صحت کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہے۔‘‘ ’’حکومت کا
تو کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھارہی ہے۔‘‘ ’’ جی باالکل
اٹھا رہی ہے، ویسے آپکی حکومت اور اقوام متحدہ میں فرق کوئی نہیں، یعنی
جیسا کہ اقوام متحدہ روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں دنیا کو بتاتی ہے کہ آج
اتنے مرگئے، اتنے کٹ گئے اور اتنے لٹ گئے۔ باالکل اسی طرح صوبائی حکومت نے
بھی ایک D.R.U بنایاہے جو روز میڈیا کو ہمارے ڈسے ہوئے افراد کا اعداد و
شمار بتاکر سمجھتے ہے کہ بس حق ادا ہوگیا۔‘‘ ’’ڈینگی صاحب ! ایک سوال یہ
پیدا ہوتھا ہے کہ آپ عموماً غریب آدمی کو’’ ٹیکہ‘‘ لگا تے ہیں، بڑوں کو آپ
ٹچ ہی نہیں کرتے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ ’’ آپ کو اتا پتا کچھ نہیں اور
آئے ہو انٹرویو لینے۔ کیا رکن صوبائی اسمبلی قربان علی کا بھائی تمہارا
خالو لگتاتھا جو کہتے ہو کہ ہم امیروں کو نہیں کاٹتے۔‘‘’’اوہ سوری جی! آپ
تو ناراض ہوگئے……ناراض کیسے نہ ہوں آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں اور مفت میں
ہمیں بدنام کرنے آئے ہو۔ ایک بات غور سے سنیں کہ آپ ہمارا موازنہ اپنی
حکومتوں سے نا کیجیے ،کہ گھوڑے تو مربے کھائے اور انسان بھوکے مرے۔‘‘
’’ مچھر صاحب ! پہلی بار آپ ڈاکٹرز اور طب کے دیگر عملے پر حملہ آور ہوئے
اس کی کیا وجوہات ہیں؟‘‘ ’’ڈاکٹروں اور دیگر طب کے عملے پر اٹیک کرنا دراصل
انکو یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ زیادہ پھرتی دکھانے کی کوشش نہ کریں ورنہ اس
کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔‘‘ ’’ پچھلے دنوں پنجاب حکومت نے آپ سے نمٹنے
کے لیے ایک موبائل یونٹ پشاور بھیجا تھا، اس سے آپ کے کام میں کتنا خلل پڑا
؟‘‘ انہہ موبائل یونٹ، وہ یونٹ ہم سے نمٹنے کے لیے نہیں خٹک سے نمٹنے کے
لیے آیاتھا۔ اگر وہ ہم سے نمٹنے آتا تو پھر ہم آپکو نظر ہی نہیں آتے ۔ اس
کے برعکس اس یونٹ کا کچھ اتاپتا نہیں کہ کہاغائب ہوا ہے۔‘‘ ’’ مچھر صاحب
ایک آخری سوال یہ کہ سوات میں ان دنوں آپ کی موجودگی کے حوالے سے کافی چہ
مگوئیاں ہورہی ہے ،کیا واقعی آپ سوات میں موجودگی رکھتے ہیں؟‘‘ ’’فی الحال
تو ہم نے سوات جانے کا فیصلہ نہیں کیا ممکن ہے کہ ہم وہاں چلے بھی جائے یا
پھر اپنا پروگرام منسوخ کردیں، منسوخ اس لیے کہ بڑے بیچارے لوگ ہیں سوات کے
۔ لاکھوں لوگ ہیں اور ان کے لیے ایک خستہ حال ہسپتال۔ بیچارے مریضوں کے لیے
کرائے پر کٹھمل بھری چارپائیاں لے کر خوار ہوتے ہیں۔یقین کیجیے کہ ہمیں اب
سواتیوں کی بددعاؤں سے ڈر لگنے لگا ہے اس لیے وہاں جانے سے کتراتے ہیں۔‘‘
مچھر صاحب قیمتی وقت دینے کا بہت بہت شکریہ۔‘‘ ’’صحیح کہہ رہے ہو جب تک ہم
آپ کو کاٹ نہیں لیتے تب تک آپ کو ہمارا شکر گزارہی ہونا چاہیے۔ |