آداب کا اہتمام کیجیے !!

ہم اکثرمحافل میں،شادی بیاہ میں ،تقریبات میں،رشتہ داروں میں،دوستوں یاروں کی دعوتوں میں چند ایسے افراد سے ملتے ہیں،جولاشعوری طور پرایسے کام کرتے ہویے ملتے ہیں،جن کا انہیں خودبھی علم نہیں ہوتا کہ ان کا یہ فعل دوسروں کے لیے کتنا اذیت کا باعث بن رہا ہے۔انسان کو اﷲ رب العالمین نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ،تواس کی زندگی کے اصول بھی ادب،اطاعت،فرمانبرداری،خلوص سے مزین ہونے چاہیے۔اپنی ذات کی نفی کرکے کسی کو دکھ پہنچاناادب کے خلاف ہے۔حالت ِغم میں شکوہ نہ کرنااور راحت میں آپے سے باہر نہ ہونابھی ادب ہے۔اسی طرح عاجزی، حسنِ اخلاق،تسلیم ورضا، احترام،نرم خوئی،بھی ادب کی علامات ہیں۔

ملک کے بڑے شہروں ،بارش کے موسم میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ موٹرسائکل،گاڑیوں کے مڈفلگ نہ ہو نے کی وجہ سے تیزرفتاری کے باعث کیچڑ اڑتی ہے،اور پیچھے آنیوالے کسی بزرگ ،نمازی، شریف آدمی کے کپڑوں کوخراب کردیتی ہے۔اس بارے احساس کو ملحوظ ِ خاطر نہ رکھنا،راستے کی اور سفری ساتھیوں کی بے ادبی ہے۔آپ ﷺ سفر میں اپنے شریکِ سفر کا کس قدر خیا ل فرماتے تھے،اس کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔آپ ﷺ نے اپنی مکمل زندگی ،اور زندگی کے ہرہر گوشہ کو بہترین نمونہ ،اور روشن راستہ کے طور پر پیش کیا۔کہ انسان اس سے اپنے قول وفعل ،عادات اطوار سنوار سکے۔

معاشرے میں حسن تب پیدا ہوگا جب ہم اپنے والدین ،ازدواجی زندگی،اولاد کی پرورش، دوستی، مہمانی، میزبانی،مجلس میں، اپنی گفتگو میں،اپنے روزمرہ امور میں،سلام،عیادت ،ملاقات غرض تمام جملہ معاشرتی امور کو اداب وسلیقہ مندی سے اراستہ وپرکشش بنائیں گے۔اگر زندگی سے بھر پور فائدہ اٹھاناچاہتے ہیں،اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں،اور فی الواقع کامیاب زندگی کا خواب دیکھتے ہیں تو کامیاب زندگی کے اصول واداب سے زندگی کو مزین کرنا ہوگا۔اور عملاََان اصول واداب سے زندگی میں جاذبیت پیدا کرنا پڑے گی۔پھر یہی اسلامی زندگی ،نہ صرف اہلِ اسلام، بلکہ ناآشنا بندگانِ خدا کے لیے بھی بے مثل ہوگی۔

ہمیں سیرتِ طیبہ کامطالعہ بتاتاہے کہ نبی کریم ﷺ نے دینِ حنیف میں ،بطن سے لحد تک ،زندگی کے مکمل اداب بیان فرمادیے ہیں۔المیہ یہ نہیں کہ ہمارا نوجوان بگڑرہاہے،المیہ یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کی تربیت اسلامی طورطریقوں سے کیسے ہوگی۔؟ سلیقہ وتہذیب میں طہارت ونظافت،صحت،لباس، کھانے پینے کے اداب،سونے جاگنے کے اداب،راستے کے اداب،سفر کے اداب،رنج وغم کے اداب،خوف وہراس کے اداب،خوشی کے اداب اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حسنِ بندگی میں نماز کے اداب،مسجد کے اداب،تلاوتِ قرآن کے اداب،میت کے اداب،نماز جنازہ کے اداب،قبرستان کے اداب،نمازِ جمعہ کے اداب،زکواہ وصدقات کے اداب سے آج کانوجوان بلکل نابلد ہے۔جس طرح معدے کی بیماری صحت مند جسم کوبیمار کردیتی ہے،اسی طرح دین سے دوری ذہنی الجھنوں میں جکڑکردل ودماغ کوبری طرح متئاثر کرتی ہے۔اور قلبی بیماری کا باعث بنتی ہے۔: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ‘‘ سیدھے سادے رہو،میانہ روی اختیارکرو،اور ہشاش بشاش رہو۔‘‘ (مشکواتہ)

ایک تقریب میں پڑھے لکھے صاحب کودیکھاکہ وہ مجلس کا خیال نہ کرتے ہویے،اپنی ناک صاف کرتے رہے،جو کہ دوسروں کے لیے تکلیف اور کراہت کاباعث ہے۔ایک دین دار نوجوان بغلوں کھجاتے ہویے پایے گیے۔پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ یہ جناب کی عادتِ مبارکہ ہے۔اسی طرح کی بے شمار عادات معاشرے میں مشاہداتی طور پرنظرآتی ہیں۔ان کاحل صرف اورصرف اسلامی اداب سے ممکن ہے۔اور حسنِ اخلاق سے اصلاح کرنابھی معاشرے کے ہرفردکے ذمہ لازم ہے۔ ’’الدین کلہ ادب۔‘‘’’ دین پورا کا پورا ادب ہے۔اغیار کے چنگل میں پھنسے ہم، اور ہمارا ذہن ، دین کو اور ادابِ زندگی کو فراموش کرچکا ہے۔دین صرف جایے نماز ،تسبیح تک محدود سمجھا جانے لگا ہے۔ہمارے دینی حمیت سوچکی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی زندگی کو د ینی ا داب سے سنوار کر اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنا نہیں چاہتے۔؟ معاشرے میں پھیلتی برائیوں پر نظر رکھنا،اور ان کا قلع قمع کرنا بھی ہمارا دینی فریضہ ہے۔
 

Ansar Usmani
About the Author: Ansar Usmani Read More Articles by Ansar Usmani: 99 Articles with 97340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.