کریمنالوجی سے مُراد ہے کہ کون سے افعال کو جُرائم کہا
جاسکتا ہے اِن جرائم کے وقوع پزیر ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔جرائم کو کیسے
کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور جرائم کی روک تھام انفرادی طور پر وقوع پزیر ہونے
والے جرائم اور پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینے والے جرائم کو کیسے روکا
جاسکتا ہے درحقیقت کریمنالوجی کا تعلق نفسیات سماجیات سے ہے۔ کریمنالوجی
میں جرائم کی وجوہات اور اُن کے سدِباب اور جرائم کے پورے معاشرے پر اثرات
کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کریمنالوجی میں اِس بات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ
معاشرے اور حکومت کی جانب سے جرائم کو روکنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار
کیا گیا ہے۔ کریمنالوجی میں جرائم کی وجوہات جاننے کے حوالے سے مقداری
طریقے پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ 1885ء میں اٹلی کے پروفیسر رافیل
گاروفالو نے کریمنالوجی کی اصطلاح پہلی مرتبہ استعمال کی۔بعد میں فرانسیسی
اینتھروپالوجسٹ پال ٹوپینارڈ نے کریمنالوجی کی ٹرم کو استعمال کیا۔پاکستانی
معاشرئے میں جرائم کی وجوہات جاننے کے لیے ہمیں معاشرت معیشت نفسیات،عمرانی
رویوں کا عمیق جائزہ لینا ہوگا۔برصغیر پاک وہند میں بسنے والے لوگوں کے
مزاج دھیمے نہیں ہیں اکثر افعال سے زیادہ اِس خطہِ زمین پر بسنے والے لوگ
اقوال کے ہی غازی ہیں لیکن جہاں کردا ر کی پختگی کی بات ہوگی تو اُس کا نام
ونشان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ ایک بات یاد رہے بہتر لوگ ہر معاشرے میں
ہوتے ہیں۔ بات بات پر لڑائی جھگڑا اِس بات کی غمازی ہے کہ یہاں کے لوگ ذہنی
طور پر دباؤ کا شکار ہیں اُس کی ایک بہت بڑی وجہ غلامی کی زندگی ہے غلامی
اُن کو جاگیرداروں وڈیروں کی کرنا پڑتی ہے اِسی طرح غلامی کا عذاب بڑئے
زمینداروں کی شکل میں سہنا پڑتا ہے۔ رہی سہی کسر ملٹری اور سول
اسٹیبلیشمینٹ نے نکال رکھ چھوڑی ہے۔ جب معاشی طور پر تحفظ نہ ہوگا تو
انسانی رویوں میں عجیب طرح کی تبدیلیاں رنما ہوتی ہیں یہ صرف وقتی طور پر
نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ایسا منحوس چکر ہے کہ ہماری سوسائٹی اِس سے نکل نہیں
پا رہی ہے۔ غریب کا غریب تر ہونا اور امیر کا امیر تر ہونا کیسے سماج میں
خوشحالی لا سکتا ہے۔ جب مزدور کو اُس کا حق جائز مزدوری کی صورت میں نہیں
ملے گا لامحالہ اُس کے اندر نفرت،سرکشی بغاوت کے جذبات رونما ہوں گے سماج
کی یہ کیفیت چند دنوں کے لیے نہیں ہوتی یہ سب کچھ سال ہا سال چلتا ہے۔ سب
سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سماجی انصاف کا بول بالا ہو۔جب تک معاشرئے کے تمام تر
طبقہ جات کی انصاف تک رسائی نہ ہوگی اُس وقت تک معاشرئے میں امن قائم نہیں
ہوسکتا۔لوٹ کھسوٹ پر مبنی نظام خلوص محبت کو کیسے پروان چڑھا سکتا ہے۔حق
دار کو اگر کھانے پینے تعلیم کپڑا مکان یعنی معاشی تحفظ کی سہولت میسر نہ
ہوگی تو پھر ان محروم طبقہ جات نے ردِعمل کے طور پر پھر قانون کو ہاتھ میں
لینا ہی ہے دور مت جائیں امیر جب جُرم کرتا ہے تو اُس کا کوئی بال بیکا
نہیں ہوتا لیکن غریب کو چھوٹے سے جُرم میں بھی سزا ملتی ہے کیا اِس سے پھر
انصاف سے محروم طبقہ چُپ کرکے بیٹھا رہے گا۔ ہینڈ بُک آف کرائم کوری لیٹس
2009کے مطابق جرائم کو پھیلانے کے محرکات کے حوالے سے جو تجزیہ کیا گیا اُس
میں باون سو قسم کی سڈیز کا مجموعہ تیار کیا گیا۔ جب ہم عمر کے لحاظ سے
جرائم کے مختلف پہلؤں کا جائزہ لیتے ہیں تو ریسرچ سے بات سامنے آتی ہے کہ
بیس سال اور تیس سال کی عمر کے افراد میں جرم کرنا اور بار بار کرنا ظاہر
ہوتا ہے۔اِسی طرح مرد حضرات عورتوں کی نسبت زیادہ جُرم کرتے ہیں۔ نسلی طور
پر بھی شماریات کی مدد سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں محرومیاں زیادہ ہیں وہاں
جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے۔ایک بات اور بھی سامنے آئی ہے کہ ایمیگرینٹ یعنی
جو اپنے ملکوں کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں اُن لوگوں
میں بھی جرائم کی شرح زیادہ ہے۔ ایسے والدین جو کہ سموکنگ کرتے ہیں اُن کی
اولادوں میں بھی جُرائم کی شرح دوسرئے لوگوں کی نسبتاً زیادہ ہوتی
ہے۔مذکورہ بالا تحقیقی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے بچے جن
کے والدین اپنے بچوں سے زیادہ پیار نہیں کرتے یا اپنے بچوں کو زیادہ توجہ
نہیں دیتے یا اُن کے خاندان میں شراب نوشی کی جاتی ہے یا خاندان کے افراد
بہت زیادہ ہیں ان حالات میں پروان چڑھنے والے بچے بعد میں جرائم کی طرف جلد
راغب ہوتے ہیں تحقیقی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کی جن بچوں کا پیدائش کے وقت
وزن کم ہوتا ہے یا جن بچوں کی زچگی کے دوران مشکلات پیدا ہوتی ہیں وہ بچے
بھی بڑے ہوکر جُرائم کی جانب راغب ہوتے ہیں۔کرائم کوریلیٹس رپورٹ کے مطابق
جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے یا ایسے والدین جن کی
ازدوجی زندگی خوشگوار نہیں ہے یا خاندان میں منشیات استعمال کرنے کا رحجان
ہے یا والدین کی جانب سے بچوں کی درست نگرانی و نگہبانی نہیں ہو پاتی تو
ایسے بچے وقت کے دھارے کے ساتھ جرائم کی دنیا میں دوسرئے بچوں کی نسبت
زیادہ جرائم کی دُنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ ایسے بچے جو سکول کے نظم وضبط پر
عمل پیرا نہیں ہوتے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے یا جن کی تعلیم کارکردگی
تسلی بخش نہیں ہوتی یا جن بچوں کو سکول سے یا تعلیمی ادارئے سے نکال دیا
جاتا ہے تو ایسے بچے بھی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے جرائم کا شکار ہوجاتے
ہیں۔ ایسے بچے جو چھوٹی عمر میں ہی زیادہ عمر والوں کا رویہ اپنالیتے ہیں
اور منشیات کا استعمال کرتے ہیں یا چھوٹی عمر کے بچے بڑی عمر کے لوگوں کے
ساتھ راہ رسم بڑھا لیتے ہیں تو مقابلتاً ایسے بچے بھی جرئم کی دنیا میں قدم
رکھ دیتے ہیں۔جو بچے چھوٹی عمرمیں جنسی و غیر فظری افعال کی جانب رغبت
اختیار کر لیتے ہیں ایسے بچوں کا بھی جرم کی طرف جھکاؤ ہوجاتا ہے۔ ایسے بچے
جن کے دوست بہت کم ہوتے ہیں اُن کا جھکاؤ بھی جرائم کے ارتکاب کی طرف
ہوجاتا ہے یا ایسے بچے جو کسی گینگ کا حصہ بن جاتے ہیں وہ بھی جُرائم پیشہ
لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ریسرچ سے بات بھی پتہ چلتی ہے کہ جرائم پیشہ
افراد دوسرئے لوگوں کی نسبت زیادہ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔جرائم پیشہ
افراد کو حادثاتی طور پر زیادہ زخم آتے ہیں۔ جن بچوں یا بڑوں کا سماج کے
ساتھ رابطہ فعال نہیں ہوتا ایسے افراد بھی جرائم کی طرف راغب ہو جاتے
ہیں۔بلوغت کی عمر میں پہنچنے سے پہلے ہی ڈیپریشن کا شکار ہونا یا خاندان،
جس کا بچہ فرد ہے وہ ڈیپریشن کا شکار ہے تو اِن حالت میں بھی جرم کی طرف
جھکاؤ ہوجاتا ہے اور ایک اہم بات یہ کہ جرائم پیشہ افراد خودکشی کی طرف
زیادہ مائل ہوجاتے ہیں۔پڑھائی کی طرح رغبت کا نہ ہونا آئی کیو لیول کا کم
ہونا بھی انسان کو جرائم کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ زیادہ جذباتی ہونے سے خود
پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے جس سے انسان لڑائی جھگڑئے کا شکار ہوتا ہے اور
جرائم پیشہ بن جاتا ہے۔سماج میں ایسے لوگ جو زیادہ سماجی حثیت کے حامل ہوتے
ہیں یا جن کی تعلیم زیادہ ہوتی ہے یا ایسے افراد جو معاشی طور پر کمزور
نہیں ہوتے ہیں اور اُن کی آمدنی کا لیول گذارہ اوقات سے بھی زیادہ ہوتا ہے
اور ایسے لوگ جرائم کی طر ف کم راغب ہوتے ہیں۔جن افراد کیے سماج میں زیادہ
عزت ہوتی ہے اُن کا بھی جُرائم کی جانب رحجان کم ہوتا ہے۔ ایسے افراد جو
اکثر اپنی ملازمتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں یا جو زیادہ وقت بے روزگاری میں
گزارتے ہیں ایسے لوگ جرائم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ثقافتی ماحول رہن سہن
بھی جرائم میں کمی یا اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ایسے سماج جہاں ثقافتی
سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں اور لوگ اپنی ثقافتی سرگرمیوں زیادہ میں حصہ لیتے
ہیں ایسی سوسائٹی میں بھی جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ سٹرین تھیوری یہ بات
باور کرواتی ہے کہ سماج کا ڈھانچہ بھی لوگوں کو جرم کرنے پر اُکساتا ہے۔
لیبلنگ تھیوری یہ کہتی ہے کہ اکثریت اور اقلیت کے مسائل اور زبان رنگ و نسل
کے مسائل بھی جرائم کو فروغ دیتے ہیں۔ نوخیز عمر میں جرائم کی جانب جھکاؤ
میں اخلاقی ترقی یا تنزلی بھی انسان کو جرائم کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔
باؤکلاسیکل کریمنالوجی میں اِس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ جُرائم کرنے کے
پیچھے وراثتی اور ماحولیاتی عمل کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشی حالات اور جرائم
کی شرح کا آپس میں گہرا تعلق ہے کیونکہ معاشی حالات بہتر ہونے کی بناء پر
جرائم کی شرح میں کمی آتی ہے۔ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسا بہت کم
دیکھا گیا ہے کہ معاشی حالات بہتر نہ ہوں یا بے روزگاری زیادہ ہو تو جرائم
کم ہوں۔ ہمارا دین اِس حوالے سے مکمل رہنمائی کرتا ہے کہ مزدور کو مزدوری
پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردی جائے۔ اسی طرح اسلامی تاریخ میں ایسا بھی
ذکر ملتا ہے کہ قحط کی صورت میں چوری کی سزا کو وقتی طور پر معطل کردیا
گیا۔خلیفہ راشد جناب حضرت عمر فاروقؓ کا ارشاد ہے کہ انسان جب بھوکا ہوتا
ہے تو وہ کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ جغرافیا ئی طور پر ریسرچ یہ بتاتی ہے
کہ ایسے ممالک جہاں آبادی کی شرح بہت زیادہ ہے وہاں جرائم کی شرح بھی زیادہ
ہے۔ اور ایسا بھی ریسرچ میں سامنے آیا ہے کہ امیر ممالک کے ہمسایہ ممالک
اگر غریب ہوں تو بھی جُرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ایسے ملک جو خطِ
استوا کے قریب واقع ہیں اُن ممالک میں بھی جرائم کی شرح زیادہ ہے۔جہاں موسم
زیادہ گرم ہوتا ہے وہاں بھی جرائم کی شرح خصوصاً ریپ کے جرائم زیادہ ہوتے
ہیں جرائم پیشہ افراد کا نشانہ بننے سے ڈرنے والے زیادہ تر ٹین ایج سے لے
کر تیس سال تک کی عمر تک کے لوگ خوفزدہ رہتے ہیں جبکہ زیادہ عمر کے لوگوں
میں خوف کم ہوتا ہے۔ عورتوں کو مردوں کی نسبت جرائم کا نشانہ بننے کا خوف
لگا رہتا ہے۔ کالی نسل کے لوگوں کو بھی جُرائم کا نشانہ بننے کے حوالے سے
بہت خوف رہتا ہے اور کالے لوگ ہی زیادہ قتل ہوتے ہیں۔ مندرجہ بالا محرکات
یہ بات واضع کرتے ہیں کہ انسانی رویے بہت سے حوالوں سے تشدد یا کسی بھی
جُرم کی طرف اُبھارے جاتے ہیں۔ پاکستان ہندوستان بنگلہ دیش میں غٖربت بھی
بہت بڑی وجہ ہے کہ جرائم زیادہ ہورہے ہیں۔ |