احساس انسانی معاشرے کی روح ہے، جو انسان کو نہ صرف ایک
بامقصد زندگی کا تصور دیتا ہے، بلکہ انسانی آلائشوں، خطاؤں اور غلطیوں سے
نکال کر اسے ہمدردی، محبت، جود و سخا، حلم، تقویٰ، غنا، خوف خدا اور اخوت
کی طرف مائل کرتا ہے، لیکن جب یہ مفقود ہو جائے تو انسان اور حیوان میں
کوئی فرق نہیں رہتا۔ انسان قاتل، ڈاکو، ظالم و جابر، منافق، جھوٹا، دھوکا
باز اور خود غرض ہو جاتا ہے اور معاشرہ ایک بے ہنگم ہجوم کی صورت اختیار
کرجاتا ہے، جہاں صرف اپنی ذات اور نفسی خواہشات کی اہمیت رہ جاتی ہے۔ بے
حسّی انسان کو پڑوسیوں، رشتہ داروں، دوست احباب،معاشرے، ملک و ملّت اور
پوری انسانیت سے بے گانہ کردیتی ہے۔احساس مر جائے تو انسانیت بھی مر جاتی
ہے۔
موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مر جانا ہے
(ادریس بابر)
موجودہ حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ معاشرے سے احساس ختم ہوتا جا رہا ہے
اور ہم بحیثیت مجموعی غیر محسوس طریقے سے بے حسی کی دلدل میں دھنستے چلے جا
رہے ہیں۔ افراد، خاندانوں، معاشرے سے لے کر ساری دنیا تک بے حسی ہمارے
عمومی مزاج میں شامل ہو گئی ہے۔ چار سو ذاتی سوچ، اجتماعی سوچ پر حاوی
نظرآتی ہے۔ ہم اپنے معاملات کے بارے میں تو بہت حسّاس نظر آتے ہیں، لیکن
دوسروں کی ذات اور ان کے مسائل کے حوالے سے پرلے درجے کے بے حس واقع ہوتے
ہیں۔ یہ بے حسی ہمیں معاشرے میں چلتے پھرتے، رستے، گھاٹ میں، دفتروں میں،
شادی بیاہ کی تقریبات میں، بازاروں میں اور گلی محلوں میں نظر آتی ہے۔سڑک
پر گاڑی چلاتے، بسوں میں سوار ہوتے، یوٹیلیٹی بل جمع کراتے، دکانوں میں
سودا سلف خریدتے یا کسی تقریب میں پلیٹ تھام کر کھانا لینے میں ہر ایک کی
کوشش ہوتی ہے کہ اس کا کام پہلے ہوجائے، چاہے وہ بعد ہی میں آیا ہو۔
تمام اداروں میں ورکرز کا اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنا اور چھوٹے ملازمین کے
ساتھ بڑے افسران کا متکبرانہ رویّہ بھی بے حسی ہے۔ بار بار ٹال مٹول کرتے
ہوئے کسی معاملے کو لٹکانا بھی بے حسی ہے۔ اس طرح کے روّیے کا مظاہرہ کرنے
والا کبھی نہیں سوچتا کہ اگر اس شخص کی جگہ ’’میں خود ہوتا تو مجھ پر کیا
گزرتی۔‘‘ اگر ہم فٹ پاتھ پر اپنی گاڑی ایسی جگہ کھڑی کرتے ہیں، جہاں ہمیں
سہولت ہو، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جس جگہ ہم نے گاڑی کھڑی کی ہے، اس سے ہم
سے پہلے موجود گاڑیوں کے لیے نکلنا مشکل ہوگا،حالاں کہ آس پاس جگہ موجود
ہوتی ہے، لیکن بے حسّی اور دوسروں کی اذّیت سے بے گانگی کا رویّہ ہی ہے، جو
ایسے نامعقول ، اور تکلیف دہ کام کراتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات مہمانوں
کو اذّیت دیے بغیر انجام پذیر نہیں ہوتیں۔ جو وقت شادی کار پر لکھا ہوا
ہوتا ہے، اس سے پانچ چھ گھنٹے بعد پروگرام کا آغاز کیا جاتا ہے اور اسی طرح
کسی جگہ بارات مقررہ وقت سے پانچ گھنٹے دیر سے پہنچتی ہے اور پھرکھانا
کھلنے کا اعلان ہوتے ہی ہر شخص دوسرے کو دھکیل کر خود پہلے کھانا لینے کے
لیے ٹوٹتا ہے اور اپنی پلیٹوں میں اتنا کھانا بھر لیا جاتا ہے، جس سے پانچ
بار پیٹ بھرا جاسکتا ہے، لیکن تھوڑا سا کھاکر زیادہ ضایع ہوجاتا ہے۔ یہ سب
بے حسی کے رویے ہی تو ہیں۔
سماج سارا سو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر
سپرد خاک ہوگیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر
(شبیر ناقد)
بے حسّی ہمارے معاشرے کی رگوں میں اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ جو افراد اس
اجتماعی روّیے کے برعکس مہذّب اطوار کے مالک ہوتے ہیں، دوسروں کے ساتھ خوش
خلقی اور مدد کرنے کا رویّہ اپناتے ہیں، انکسار اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے
ہیں۔ ہمیشہ دوسروں کی بھلائی سوچتے ہیں۔ ہر جگہ دوسروں کا خیال رکھتے ہیں،
انہیں لوگ بے وقوف سمجھتے ہیں، انہیں سادہ لوح سمجھ کر دھوکا دیتے ہیں۔
دوست احباب اور عزیز و اقارب انہیں اپنے مقاصد کے لیے ’استعمال‘کرتے ہیں۔
احسان کا بدلہ احسان سے دینے کے بجاے احسان فراموشی سے دیا جاتا ہے اور
انتہا کی بے حسی تو یہ ہے کہ انسان اپنی بے حسی کو محسوس ہی نہ کرسکے۔ کبھی
اپنا جائزہ ہی نہ لے کہ اس کا طرزِ عمل اکثر و بیشتر دوسروں کے لیے کتنا
تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بے حسی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ دوسروں کو تکلیف دیتے
ہوئے رتی برابر بھی تکلیف نہیں ہوتی، بلکہ مکمل اطمنان محسوس کرتے ہیں۔
بقول شاعر
بے حسی کی چادر اوڑھے
اب میں سکھ میں رہتا ہوں!
آج دنیا نے ستاروں اور سیاروں کے راز تو جان لیے، لیکن یہ نہ جان پائی کہ
آج بھی کتنے ہی انسان بے گھر ہیں۔ روز کتنے ہی لوگ بھوک کی وجہ سے موت کی
بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ کتنی ہی بچیاں غربت کی وجہ سے شادی کے انتظار میں ہیں
اور کتنے ہی بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اپنی ایک ایک تقریب پر کروڑوں روپیہ
خرچ کرنے والے اگر تھوڑا سا احساس کریں تو بہت سے مجبور افراد کے مسائل حل
ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف دولت بے حساب ہے تو دوسری طرف بہت سے غریبوں کے پاس
رہنے کے لیے مکان نہیں، پہننے کے لیے لباس نہیں اور کھانے کے لیے کھانا
نہیں۔اگرچہ یہ سب اﷲ کی تقسیم ہے، لیکن اس طرح وہ انسانوں کو آزماتا ہے۔ وہ
کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی سے لے کر آزماتا ہے۔ کیا کبھی ایک بار بھی
یہ سوچا ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ سب کچھ واپس لے لے تو کیا ہم اس سے زبرستی لے
سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، تو پھر کیوں ہم لوگ بحیثیت مجموعی دوسروں کے بارے میں
بے حسی کے گہرے سمندر میں اتر چکے ہیں؟ یہ بے حسی دنیا کی نس نس میں سرایت
کرچکی ہے۔ برما میں انسانیت تڑپ تڑپ کر جان دے رہی ہے۔ مظلوم انسانوں پر
بدترین مظالم کیے جارہے ہیں اور مسلسل کیے جارہے ہیں۔ ساری دنیا یہ مظالم
دیکھ رہی ہے، لیکن اتنی بڑی دنیا میں کسی میں اتنا احساس نہیں کہ درندوں سے
مظلوموں کو بچا سکیں۔ ساری دنیا بے حسی کا بت بنے یہ سب دیکھ رہی ہے اور
مظلوم قسمت کا لکھا برداشت کر رہے ہیں۔
بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے
(زیب غوری)
بے حسی دنیا کی انتہائی بڑی محرومی ہے۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش
میں ہم ایک دوسرے کو روند کر آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔ گھر سے باہر قدم
رکھتے ہی لگتا ہے کہ ہر کوئی اکھاڑے میں کود پڑا ہے اور دوسروں کو کچل کر
آگے بڑھنا چاہتا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے اپنے بہت سے رشتوں کو بھی پاؤں
تلے روند دیتے ہیں، حالانکہ ہم سب ایک دوسرے کے دم سے ہیں۔ اگر دوسرے نہ
رہیں تو ہم اکیلے رہ کر کیا کریں گے؟ہمیں اب یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم بے
حس ہوچکے ہیں۔ اگر ہم اپنی بے حسّی سے واقف ہوکر اپنے روّیوں کو درست کرنا
چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ ہمیں اب اک دوسرے کا احساس کرنا ہو گا اور اپنے رویوں
کو بدلنا ہوگا۔
مرے اندر کئی احساس پتھر ہو رہے ہیں
یہ شیرازہ بکھرنا اب ضروری ہو گیا ہے
(خوشبیر سنگھ شاد) |