شہر ِشہیداں سے شہرِ اقبال تک

میرا آج کا کالم درخواست کے حلیے میں ہے اور مدعا کچھ یوں ہے۔
بخدمت جناب ارباب اختیار ومطلق العنان و قابضِ کل دولتِ دیارِ پاکستان
عنوان:شہر شہیداں سے شہر اقبال تک سڑک کی حالت نا گفتہ بہ
جناب عالی
گذارش ہے کہ ہم اُس قصبہ چونڈہ کے باسی ہیں کہ جس کا ڈنکا چار وانگ عالم میں بجتا ہے۔جس کا چرچا کفر کے ایوانوں میں لرزے کی طرح ہوتا ہے۔وہ قصبہ جو 65 ء کے بعد پاکستان کی نظریاتی شناخت میں سے ایک بڑی شناخت بن چکا ہے۔بچہ بچہ اس تاریخی قصبے کی حرمت سے آگاہ ہے۔ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں اور اس عظیم شہر شہیداں کے باسی ہیں۔شہر اقبال اس کا ضلع ہے۔اور ہر قسم کی سہولیات سے مستفید ہونے کیلئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں باسیوں کو دن رات ادھر کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔انٹر سے ایک درجہ بلند اعلی تعلیم ہو یا پونسٹان ا ور ڈکلوران سے اوپر کے درجے کا علاج، ہر طالب علم و طالب صحت کودوڑ چھوٹ کر اسی شہر سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔چونڈہ اورا س سے ملحقہ سینکڑوں دیہات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد حصول علم و معاش کے سلسلے میں بھی اسی شہر کے اداروں سے منسلک ہیں۔ایک اکلوتی قدامت پسند سڑک ان تمام مسافروں کو منزل مقصود پر پہنچانے کا اکلوتا زریعہ ہے۔اس صورتحال میں دن رات اس سڑک پر مسافر گاڑیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔حالت یہ ہے کہ یہ سڑک کھڈوں میں خود کفیل ہے۔مجال ہے کہ پورے سفر کے دوران گاڑی کا ایک بھی پہیہ ان کھڈوں سے اپنا وجود بچا کر منتہائے مقصود تک پہنچ جائے۔مسافر گاڑیوں میں ایسے اچھلتے ہیں جیسے چھاج میں گیہوں اچھل اچھل کر ایک دوسرے پر جاگرتے ہیں۔بلکہ بسا اوقات تو یوں لگتا ہے جیسے گاڑی میں روحانی وجدان میں ڈوبی ہوئی کوئی محفل سجی ہے جس کا ہر فرد بے خودی میں جھوم رہا ہے۔پورے سفر کے دوران ہچکولوں سے لبریز ہونے کی وجہ سے پورا جسم لرزتا رہتا ہے ۔متواتر جھٹکے لگنے سے انسان کے اعضاء ترکیبی کا توازن و اعتدال یوں بگڑ جاتا ہے کہ پھر اسے راہ راست پر لانے کے لئے تمام بدن کی ٹکور واجب ہو جاتی ہے۔ وہ کھانا جو عام حالات میں اگر کھایا ہو تو پورے دن کے لئے کافی ہو،اس سڑک پر چند میل کے سفر کے بعد ایسے ہضم ہوتا ہے جیسے پتہ نہیں پیٹ کب سے فاقے کی صعوبت برداشت کر رہا ہے۔فقر کی اس راہ پر چند دن کے سفر کے بعد نئی دلہن جیسی گاڑیاں کسی بڑھیا کا روپ دھار لیتی ہیں اور ان کے تمام ناز نخرے بھی ماند پڑ جاتے ہیں۔گاڑیوں کے کل پرزے اپنی اصل جگہ چھوڑ کر ارد گرد جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔گرد و غبار کا یہ عالم ہے کہ الامان۔پوری سڑک ایسا نقشہ پیش کرتی ہے جیسی کسی جنگ میں دشمن کی تمام تر ستم ظریفیاں سہنے کے بعد بچا کھچا دامن لے کر انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنی قسمت پر نوحہ خواں و ماتم کناں ہو۔ایسا ممکن ہی نہیں کہ اس سڑک پر سفر کرنے کے بعد آپ اسی حالت میں باقی بچ جائیں ،جس حالت میں اس سڑک پر سوار ہوئے تھے۔مسافروں کے حلیے دوسروں کو خوف ذدہ کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس سڑک کے گرد وفاقی وزراء کی کہکشاں چمکتی ہے۔دو بڑے قلمدانوں کے درمیان اس اُدھڑی ہوئی حالت میں اپنی کسمپرسی کا رونا روتی ہوئی یہ سڑک بے حسی کی منہ بولتی تصویر بھی ہے اور چراغ تلے اندھیرے کی روشن مثال بھی۔جب کہ اس کی کمر پہ ایک اور بھاری وزارت کا بوجھ لدا ہوا ہے۔لوگ ہماری قسمتوں پر رشک کرتے نہیں تھکتے کہ ہم نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں رہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم یقینا سہولیات سے مالامال ہوں گے۔ اب انہیں کیا خبر کہ ان ستاروں پر کمند ڈالنا اصلی ستاروں تک رسائی حاصل کرنے سے بھی ذیادہ کٹھن اوردشوار ہے۔ آغوش ِ قرطاس میں یہ سڑک کئی بار موٹر وے،سپر ہائی وے اور نجانے کس کس "وے"کا روپ دھار چکی ہے، مگر حقیقت میں نہ کوئی انگ ہے نہ رنگ۔اب تو خواہش ہے کہ شہر اقبال کے آغاز میں ایسے حمام کا اہتمام ہو جہاں مسافر آگے بڑھنے سے پہلے اپنے حلیے کو مہذب کر سکیں اور بھوت کے روپ سے حضرت انسان کے روپ میں واپس آ سکیں۔تا کہ کسی کو انہیں دیکھ کر" جل تو جلال تو" پڑھنے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ویسے یوں بھی لگتا ہے کہ جس گرد کے بارے میں حضرت اقبال ؒ نے کہا تھا:۔
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مشتِ خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے

وہ ساری گرد اسی سڑک پر خاک چھانتی پھر رہی ہے۔شاید اس دھول کا اہتمام بھی خاص طور پر اس لئے کیا ہے کہ عوام الناس کی آنکھوں میں پڑی رہے تا کہ حقیقت حال سے آگاہی کا تھوڑا بہت شائبہ تک بھی باقی نہ رہے۔حسرتؔ نے بھی کیا خوب کہا تھا:۔
پردہ اصلاح میں کوشش تخریب کا
خلق خدا پر عذاب،دیکھیے کب تک رہے

تمام مدعا و حالات و واقعات بیان کرنے کے بعدالتماس ہے کہ اس بار اس سڑک کو آثار قدیمہ کی فہرست سے نکالا جائے اور اس کے زخموں سے چُور پیرہن پر ترس کھا کر محض اس کے زخموں کی مرہم پٹی پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ باقاعدہ اسے نئے وجودِ چمک دار سے نوازا جائے کہ جس پر سفر ریشم کی طرح سر سر کرتا گذر جایا کرے۔
عرضی گذار
مجبور و مکدوراہلیان علاقہ

Awais Khalid
About the Author: Awais Khalid Read More Articles by Awais Khalid: 36 Articles with 29718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.