ازقلم:فری ناز خان ، کراچی
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک گاؤں میں ایک کنجوس آدمی رہتا تھا۔ اس کے
پاس پاس دولت بہت تھی۔ ایک مرتبہ وہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اچانک مر
گیا تو اس کی ساری دولت کا کیا ہوگا ۔ میری ساری دولت اور زمین پر تو لوگ
قبضہ کر لیں گے ۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے اپنی ساری دولت جمع کرنا شروع کر
دی ۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی زمین بھی بیچ دیں اور اس رقم کوسونے کے سکوں کی
شکل میں جمع کر لیا اور اپنے کے صحن میں دفن کر دیا اور اس خیال سے مطمئن
ہو گیا کہ اب اس کی دولت کو کوئی بھی خرچ کرسکتا۔
مگر اب اسے یہ پریشانی تھی کہ اب اس کی گذراوقات کیسے ہوگی ۔اس نے لوگوں سے
جھوٹ بولنا شروع کر دیا کہ اس کے گھرمیں چوری ہوگئی ہے اور اس کا سارا مال
چور لے گئے۔ اس کے پاس کھانے تک کے پیسے نہیں ہیں۔ لوگوں نے اس پر ترس کھا
کر اسے کھانا دینا شروع کردیا۔ اسے اور بھی مزہ آنے لگا وہ سوچنے لگا کہ اب
تو اسے کام کر نے کی بھی ضرورت نہیں اب وہ اپنی باقی کی زندگی اسی طرح
بسرکرے گا۔
اس کی یہ خواہش کافی دن تک اس کا ساتھ نہ دے سکی۔ ایک دن اچانک بہت تیز
بارش ہوئی اور گاؤں کے گھرؤں میں پانی جمع ہونے لگا اس کنجوس آدمی کے گھر
کے صحن میں بھی پانی جمع ہو نے لگا تو اس نے اپنے صحن کی کھدائی شروع کر دی
تاکہ وہ اپنے سونے کے سکوں کے گھڑے کو محفوظ کر سکے ۔ مگر بارش اتنی تیز
تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پانی پورے صحن میں جمع ہو گیا ۔ وہ اپنی جان بجا
کر گھر کے اندر چلا گیا ۔ جب بارش کم ہوئی تو وہ صحن میں آیا اور آکر کیا
دیکھتا ہے کہ جہاں اس نے وہ گھڑا دفن کیا تھا وہ اب کچھ بھی نہیں تھا وہ
روتا ہو ادھر ادھر پھرتا رہا مگر اسے وہ گھڑا نہیں ملا ۔ وہ تھک کر واپس
گھر آگیا۔ اتفاق سیاس کا سونے کا گھڑا پانی میں بہتا ہوا ایک کسان کے کھیت
میں چلا گیا کسان اس وقت کھیت میں کام کر رہا تھا اس کی نظر جب گھڑے پر پڑی
تو وہ بہت حیران ہوا اور پریشان بھی ہوا۔
شیطان نے اسے بہت بہکانے کی کوشش کی کہ تم یہ سارے سکے رکھ لو کوئی بھی
تمہیں نہیں دیکھ رہا مگر کسان دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ کوئی بھی نہیں
دیکھے مگر میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے گاؤں میں آکر اعلان کیا کہ یہ
گھڑاجس کا بھی ہو آ کر لے جائے۔ سب لوگ اس گھڑے کو دیکھنے کے لیے آئے جیسے
ہی اس کنجوس آدمی کو پتا چلا وہ بھی بھاگا بھاگ آیا اور کہنے لگا کہ یہ
میرا گھڑا ہے ۔ سارے لوگ کافی ناراض ہوئے کہ تم نے تو کہا تھا کہ تمہارا
سارا مال چوری ہوگیا ہے۔ تب اس نے ساری بات لوگوں کو بتائی سب نے مل کر یہ
فیصلہ کیا کہ اس گھڑے کے آدھے سکے اس کسان کو دیے جائیں جیسے ہی اس کنجوس
آدمی نے یہ سنا کہ اس کے آدھے سکے کسان کو دیے جائیں گے ۔ اس کا دل اس تیزی
سے دھڑکنے لگا کہ اسے دل کا دورہ پڑ گیا اور وہ اسی وقت مرگیا اور یوں وہ
سکوں سے بھرا پورا گھڑا اس کسان کو مل گیا۔ اس کنجوس آدمی کو اس کی کنجوسی
کی سزا بھی مل گئی اور ایک ایماندار آدمی کو اس کی ایمانداری کا صلہ بھی مل
گیا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ انسان کو اتنی کنجوسی نہیں کرنا چاہیے۔
|