تم کتنے اچھے ہو

یہ کوئی تبصرہ ، تجزیہ یا تعریف نہیں ایک کھلی حقیقت ہے ۔ہمیں قلم کاغذ کی نسبت کہتی ہے کہ اس سچائی کو بیان کیا جائے۔کیوں کہ ہمارا تعلق لکھنے سے ہے تو ایک قلم کار جب تک اپنے دل کے جذبات قارئین سے شئیر نہ کر لے اسے آرام نہیں آتا۔

ہم آپ کو کسی سسپنس یا بھول بھلیوں میں ڈالے بغیر سترہ سال پیچھے لے جاتے ہیں۔آپ سہم گئے ہوں گے کہ سترہ سال پیچھے جانے کا مطلب ہے، بیس سال کی عمر والا نوجوان تین سال کا بچہ بن جائے گا۔اور جو چالیس کے پیٹے میں چل رہے ہیں اگر انھیں سترہ سال پیچھے جانے کی خوشی میں کوئی پارٹی کرنی ہے تو ،تھوڑی دیر کے لئے انھیں بھی خوش فہمی میں مبتلا رہنے دیا جائے۔ساٹھ ستر والے مرد و خواتین تو سترہ سال پیچھے جانے کا سوچیں ہی نہیں․․․․․ کہ اگر ان کی اولاد نیک و فرمانبردار ہے، اور وہ ان کے ساتھ خوش باش زندگی گزار رہے ہیں تو ، یہ کام اُلٹا ہو سکتا ہے،پھر آپ کو خدمت کی گدی پر آنا ہوگا اور یقیناََ یہ کام آپ سے ہوگا نہیں۔اور اگر اولاد نافرمان ہے اور یہ امنگ ابھی آپ کے دل میں انگڑایاں لے رہی کہ آپ سترہ سال پیچھے جا کر اپنی اولاد کی تربیت ان خطوط میں کریں ، جن سے اولاد نیک و صالح بن جائے تو یہ امنگ آپ کی پوری نہیں ہو سکتی․․․اب چڑیا چگ گئی کھیت․․․

سترہ سال پہلے ہمارا بچوں کی کہانیاں پڑھنے کا شوق جب عروج پر تھا تو ،ہم سے ’’ بچوں کا اسلام ‘‘ کا انتظار نہیں ہوتا تھا۔اتوار کے دن گھر میں’’ بچوں کا اسلام ‘‘ آتے ہی ایک جنگ کی سی فضا ء پیدا ہو جاتی تھی۔پھر ’’ بابا ‘‘ کیا کرتے ، میگزین کی پِن نکال دیتے اور پوچھتے : ’’ ہاں بھائی ! کس کی کہانی پڑھنی ہے؟ ہمارا نمبر آتا تو ہم فٹ سے بولتے : ’’ اشتیاق احمد ‘‘ ’’ عبد الرشید فاروقی‘‘ اور ہمیں اپنا مطلوبہ لکھاری والا صفحہ مل جاتا، جو کہ ہم تسلی سے کہانی پڑھ کر واپس کر دیتے تھے۔23 ستمبر ہمیں ایک ڈاک ملا ۔ڈاک کھول کر دیکھا تو دل خوشی سی دھک دھک کرنے لگا ، خون کی رفتار ایک دم تیز ہوگئی ،اور کتاب کا ٹائٹل دیکھ کر تو ایسے لگا جیسے ہم نے آسمان چھو لیا ہو۔ کتاب کا نام تھا ’’ تم کتنے اچھے ہو ‘‘ اور مصنف تھے ’’ عبد الرشید فاروقی۔‘‘

جناب عبد الرشید فاروقی صاحب کہ جنھیں ادب اطفال کے لکھاری ’’استاد جی ‘‘ کے لقب سے نوازتے ہیں ، بچوں کے ادب کا ایک ایساروشن ستارہ ہیں ،جن کے قلم سے پھوٹنے والی روشنی کئی عشروں کے بعد بھی ماند نہیں پڑی۔اگر بات کی جائے بچوں کی کہانیوں کی تخلیق کی توہم یہی کہیں گے کہ جناب عبد الرشید فاروقی صاحب ثانی اشتیاق احمد(مرحوم) ہیں ۔ کہانیوں کے اس مجموعے ’’ تم کتنے اچھے ہو ‘‘ کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے بے حد قلبی جذبہ اور جس اشتیاق اور محبت سے اپنے تخیلات کو موتیوں کی طرح پرویا ہے، اس سے صاحب کتاب کاخالص اصلاحِ اطفال کا ثبوت ملتا ہے۔

کہانیوں کی ترتیب نے کتاب کو تاج محل کا سا حسن دے دیا ہے۔دنیا میں سب سے بڑی دولت ماں باپ ہوتے ہیں ۔کتاب پہلی کہانی ’’نہیں ابو ‘‘ سے شروع ہوتی ہے، اور جیسے جیسے کہانیاں آگے بھڑتی ہیں ، قاری کا شوق دیدنی ہوتاجاتا ہے۔17 کہانیوں پر مشتمل یہ مجموعہ جب ختم ہوتا ہے تو صاحب کتاب کے لئے چھوٹے بڑے تمام ہی پڑھنے والوں کے دل سے دعاؤں کے انبوہ کثیر نکلتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ صاحب کتاب نے بچوں کے لئے الگ الگ مواقع پر لکھی گئی کہانیوں کو یک جا کر اپنے بہت اچھے ہونے کا ثبو ت دیا ہے۔ بچوں کے ادب سے شغف رکھنے والوں کے لئے ’’تم کتنے اچھے ہو ‘‘ ایک دریا ہے ۔اور دعا ء ہے یہ دریا سب ہی قارئین کو سیراب کرتا رہے۔

Ansar Usmani
About the Author: Ansar Usmani Read More Articles by Ansar Usmani: 99 Articles with 86301 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.