جب سے انسان اس دنیا میں آ باد ہوا ہے اس وقت سے آج تک ہر
دور میں کسی نہ کسی خطے میں کوئی انسان ایسا ضرور پیداہوتا رہا ہے جس نے
انسانوں کو سیرت و کردار کی تعمیر کی دعوت دی اور اخلاق و اعمال کی درستگی
کا درس دیا۔ ان اخلاقی رہنماؤں نے ہمیں بنیادی انسانی صفات پر قائم رہنے،
حیوانوں سے ممتاز زندگی گزارنے اور بلند ترین اخلاقی صفات اپنے اندر پیدا
کرنے کی تعلیم دی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اے پیغمبر !بیشک تو بلند اخلاق کا
مالک ہے دوسر ی روایت میں ہے حضرت انس رضی اﷲ عنہ روایت ہے کہ رسول اﷲصلی
اﷲ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے حامل تھے سابق راوی ہی
سے روایت ہے کہ میں رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم کوئی
موٹااورباریک ریشم نہیں چھوا،اوررسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم اطہرسے
پھوٹنے والی خوشبوسے زیادہ پاکیزہ کوئی خوشبو کبھی نہیں سونگی،اورمیں نے
رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی آپؐنے مجھے کبھی اُف تک نہیں
کہااورجوکام میں نے کیااس کی بابت یہ نہیں کہاکہ یہ کیوں کیااورجوکام میں
نے نہیں کیااس کی بابت یہ نہیں کہاکہ اس طرح کام کیوں نہ کیا؟رسول اﷲصلی اﷲ
علیہ وسلم مجسم خوشبوتھے۔دس سالہ خدمت کے دوران خادم کواس کے کسی کام پرنہ
ٹوکنااورنہ جھڑکنا،یہ حسن اخلاق کاوہ اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس کی کوئی دوسری
نظیرپیش نہیں کی جاسکتی،کاش امت بھی اپنے پیغمبرکے ان مکارم اخلاق کو
اختیار کرے عام طور پر دنیا کے دوسرے معلّمین اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا
ہے کہ وہ جن اخلاقی اصولوں کی تبلیغ کرتے ہیں اور جن ملکوتی صفات کو جذب
کرنے پر زور دیتے ہیں خود ان کی اپنی زندگی میں ان تعلیمات کا اثر بہت کم
ہوتا ہے، مگر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کو کہیں
بھی یہ نقص نظر نہیں آئے گا جو شخص سیرت و کردار پاک کی جتنی زیادہ گہرائی
میں جائے گا وہ اسی قدر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور پاکیزہ
کردار کا مدح سرا نظر آئے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے بڑا
اصول یہ تھا کہ نیکی کا کوئی کام اور ثواب کا کوئی عمل ہو آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم سب سے پہلے اس پر عمل کرتے تھے۔ آپ جب کسی بات کا حکم دیتے تو پہلے آپ
اس کو کرنے والے ہوتے،رشتہ داروں میں حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ جو بچپن سے
جوانی تک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم طبیعت کے نرم اور اخلاق کے نیک تھے، طبیعت میں مہربانی
تھی سخت مزاج نہ تھے۔ کسی کی دل شکنی نہ کرتے تھے، بلکہ دلوں پر مرہم رکھتے
تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم رؤف و رحیم تھے۔
بقول سعدی
بنی آدم اعضای یکدیگرند۔
کہ درآفرینش زیک گوہرند۔
جو عضوی بہ درد آورد روزگار۔
دگر عضوھارا نماند قرار۔
اس سے بڑھ کر مکرمت اخلاقی اور کرامت نفس کا مرحلہ ہے۔ جسے ہم مکارم اخلاق
کہتے ہیں۔ اسکی مثال اذیت و آزار کے بدلے میں نیکی کرنا ہے جبکہ وہ بدلہ
لینے کی طاقت رکھتا ہے لیکن برائی کے بجائے نیکی اور احسان کرتا ہے یعنی نہ
صرف انتقام اور بدلہ نہیں لیتا بلکہ بدی کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے اور
نیکی سے جواب دیتا ہے فتح مکہ اس کی تاریخی مثال تھی تاریخ ایسی کوئی مثال
پیش نہیں کرسکتی ہے۔ |