بال پوائنٹ مغربی تہذیب کی طرح ہماری سوسائٹی میں
یوں درآئی ہے کہ جیسے یہ یہاں کی مقامی آباد کار ہو نہ کہ مغرب نژاد۔ اس نے
ہر دفتر، گھر، گلی محلے اور جیب پر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ اس نے سب سے پہلے
اس صدیوں پرانے ’قلم‘ جسے ارد والے ’مذکر‘ قرار دیتے ہیں، کو ایک بوڑھی
مائی کی طرح گھر سے نکال باہر کیا اور پھرمغرب سے ہی تشریف لائے فاؤنٹین پن
کو بھی ایک مہذب بوڑھے شخص کی طرح واپسی کی راہ دکھائی۔ اب قلم اور پین (pen)سے
دنیا نے منہ موڑ کر صرف اور صرف بال پوائنٹ کو ہی اپنے ہاتھوں اور جیب کی
زینت بنا لیا ہے۔ اس کی بلا شبہ وجوہات موجود ہیں:
قلم بیچارہ اور عام زبان میں ’بیچاری‘ بہت بوڑھی ہو چکی تھی۔ اسے جدید میک
اپ اور فیشن نہیں آتے تھے۔ وہ کمزور جان ’کانے‘(cane) سے اپنا وجود حاصل
کرتی۔ اور اپنا سر قلم کر وا کر ہی قلم بنتی یا بنتا ہے۔ اردو والے شاید
عربی کے زیرِ اثر اسے مذکر قرار دیتے ہیں ، لیکن عام لوگ اسے موئنث ہی کہا
جاتا ہے اور ویسے بھی اس کی عاجزی اسے موئنث ہی زیادہ محسوس کرواتی ہے۔
باقی جو اہلِ زبان کی مرضی۔ اس بیچاری کو بار بار دوات کی منت کش ہو کر ہی
کچھ قطرے اٹھا نے کی اجازت ملتی اور ایک لفظ پورا کرنے سے پہلے ہی دوسری
بار اسے دوات کے گھر جھانکنا پڑتا۔ کبھی کبھی دوات بیچاری خود ہی خشک ہو
جاتی تو قلم کو بھی جواب مل جاتا۔قلم کی نوک بھی کچھ دنوں یا ایک دو ہفتوں
میں مجروح بلکہ مکروہ ہو جاتی اور خوش خطی میں فرق پڑ جاتا۔ یا یوں کہہ لیں
اس کی جوانی کے خدو خال پر بوڑھاپا چھا جاتا اور وہ یا تو ٹوٹ جاتی یا اسے
ضعیفوں کی طرح نظر انداز کر دیا جاتا ۔پھر کئی قلمیں نرسل(reed) یعنی سر
کنڈے کی بنائی جاتیں جو اندر سے کھوکھلا ہوتا اور یہ کھوکھلا پن اسے مذید
کمزور کر دیتا ۔قلم کا زیاددہ تر زور تختی پر ہی چلتا اور تختی ’پوچنی‘
پڑتی۔ پھر اس پر قلم کی حسنِ کارکردگی دیکھی یا دکھائی جاتی۔تختی ’پوچنا‘
ایک مشکل مرحلہ ہوتا اور پوچ کر سُکھانا یعنی خشک بھی کرنا پڑٹی۔ لیکن یہ
تختی جسے پڑھی لکھی اردو میں ’لوح‘ کہا جائے گا زندگی اور زبان و ادب کو
کئی ایک علامتوں سے نواز تی۔ جیسے کہ محاورہ بنا ’سادہ لوح‘ یعنی سیدھے
سادھے لوگ۔
یارب ، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے
لوحِ جہاں پے حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
قلم بیچاری تو خود بھی ’سادہ لوح‘ ہی تھی اور جسمانی طور پر کمزور اور تابع
فرمان بھی، لیکن بال پوائنٹ نے جو حیرت انگیز کارنامہ کیا ہے وہ فاؤنٹین
پین کو فارغ کرنے کا ہے۔یہ پین اپنی ٹھاٹھ باٹھ میں کسی طرح بھی بال پوائنٹ
سے کمتر نہ تھا بلکہ اپنے حسن و آرائش میں بال پوا ئنٹ سے کہیں بڑھ کر تھا۔
اور بار بار منت کشِ دوات بھی نہ ہوتا تھا ، بس سارے دن میں ایک بار جی بھر
کر روشنائی پی لیتا، اور صحرا کے جہاز کی طرح، شام تک کسی طرح کی پیاس
محسوس نہ کرتا،اگرچہ اس کا حلق کبھی کبھی خشک ضرور ہو جاتا لیکن وہ اونٹ کی
طرح اپنے اندر سے ہی روشنائی نکال کر اسے ترو تازہ بھی کر لیتا اور صفحات
پر کئی کئی میل چل بھی لیتا۔ اس کی شائن تو اس کما ل کی تھی کہ جیسے کوئی
شہزادہ ہو اور سینے پر سوار ہو یا خزانے کا مالک ہو۔ اس کی چمک دمک کے’
لشکارے‘ تو دور دور سے آنکھوں کی خیرہ کر دیتے اور پھر اس کی طرح طرح کی
رنگین پوشاکیں خلعتِ شاہی کی یاد لائے بغیر نہ رہتیں۔
بال پوائنٹ کی تیزی اور عیاری نے اس جینٹل مین پین کو بھی نہ صرف جیبوں
بلکہ دفتروں، بیگوں، گھروں ، دکانوں ہر جگہ سے نکال کے ہی چھوڑا ، بلکہ
کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اب پین جہاں پڑے ہیں وہیں پڑے رہتے ہیں۔ ان کا نہ شوق
ہے کہ ضرورت۔
انسان بنیادی طور پر ضرورت کا بندہ ہے۔
جب ضرورت پوری ہو جائے تو اس سے آگے شوق کی بات چلتی ہے۔ بال پوائنٹ نے
ضرورت تو پوری کر دی۔ اب اگر کوئی شوق رکھتا ہو تو پین کا ماتھا دیکھے، اس
میں روشنائی بھرے، اس کا منہ صاف کرے ، اسے دل سے لگا کر رکھے اور وہ بھی
کھڑی حالت میں، ورنہ اس کا بھروسہ کم ہے کہ وہ لیک بھی ہو جاتا ہے اور ،
جیب اور بیگ کو رنگین بھی کر سکتا ہے۔ بال پوئینٹ بھی ویسے تو لیک کر جاتی
ہے لیکن اس کا چانس بہت کم ہے۔
بال پوائنٹ کے سستا ہونے، تیز ہونے، اور منہ زور ہونے نے اسے مقبولیتِ عام
سے نوازا ہے۔ یہ اتنی سستی ہے کہ خریدتے ہوئے سوچنانہیں پڑتا، پانچ، سات
روپے میں جیب میں آ جانے پر راضی ہو جاتی ہے۔ اس کا بوجھ بھی پین سے کافی
کم ہے اور محسوس بھی نہیں ہوتا۔ اس کو کیری کرنا کوئی مسئلہ نہیں جیسا کہ
پین کی صورت میں کچھ ہے۔ اس کاسارا سرمایہ اس کے اندر ہی جمع ہے جب تک چلتی
ہے باہر کی کسی چیز کی محتاجی نہیں کرنی پڑتی۔
یہ بہت فلسفیانہ بھی ہے۔ اس کے اندر کا سکہ تو جیسے اس کی روح ہے اور اس کے
اندر بھر روشنائی تو جیسے اس کی زندگی کی مدت ہے۔ اکثر یہ اپنی مدت پوری
بھی کرتی ہے اور کبھی کبھی حادثاتی طور پر اس کی زندگی منطقی انجام کو
پہنچنے سے پہلے ہی کسی حادثے کی نذر ہو جاتی ہے۔
اس کی نت نئی شکلیں ، صورتیں اور پھر اس کی مہنگی شکلیں اور ارسٹوکریسی کی
ادائیں تو غضب ڈھا جاتی ہیں۔ ہم ویسے تو بات عام بال پوائنٹ کی کر رہے تھے
لیکن اس کے قبیلے میں بہت ساری ’حسن پریاں‘ بھی اتری ہیں اور بال پوائنٹ کی
برادری کو اونچی برادی میں لا کھڑا کرتی ہیں جس سے بہت سستی اور کومن بال
پوائنٹ کوبھی غرور آ جاتا ہے۔
بال پوائنٹ کے مسائل پر اگر بات کی جائے تو یہ بھی کم نہیں۔ سب سے پہلی
پرابلم تو یہ ہے کہ یہ جس ہاتھ سے شروع ہوتی ہے شاذو نادر ہی اس ہاتھ میں
ختم ہوتی ہے۔ عام مشاہدہ اور ذاتی تجربہ یہی ہے کہ یہ ایک بے وفا حسینہ کی
طرح کبھی کسی کے پاس تو کبھی کسی کے ساتھ۔ اس کی آنیاں اور جانیاں دیکھنے
والی ہوتی ہیں ، اکثر ہم یا ہم جیسے دوسرے لوگ کسی سے بال پوائنٹ ادھار
مانگ لیں تو واپس کرنے کااخلاقی دباؤ بھی نہیں ہوتا۔ اور دینے والا اپنے آپ
کواخلاقی طور پر مضبوط ظاہر کرنے کے لئے مانگتا بھی نہیں۔ اس کی تھوڑی قیمت
اس کی قدر بھی گھٹا دیتی ہے اور اسے بازاری ہونے کا طعنہ بھی دلاتی ہے۔
مہنگی چیز نہ کوئی دیتا ہے اور نہ کوئی لیتا ہے۔ اور اکثر مہنگی چیزوں میں
لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں اس لئے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا ۔
اسے بھول جانا بھی ایک عام مسئلہ ہے۔ اکثر یہ کہیں نہ کہیں بھول جاتی ہے
اور پھر ملتی بھی نہیں۔اکثر استاد بچوں سے بال پوائنٹ ادھار مانگ لیتے ہیں
اور فرماتے ہیں میں تھوڑا سا کام کر لوں پھر تم مجھ سے لے لینا۔ اب سٹوڈنٹس
اتنے مؤدب ہوتے ہیں کہ اپنے استاد کے سر پر سے بال پوائنٹ وار دیتے ہیں اور
اف تک نہیں کرتے۔ لیکن جب پین ہوتے تھے تو ایسا نہیں ہوتا تھا یا بہت کم
ہوتا تھا۔ ایک استاد یا ایک شخص دوسرے سے ایسے ہی ادھار مانگ لیتا ہے اور
پھر بال پوائنٹ کا گھر بدل جاتا ہے۔ اور ایسے ہی اس کے گھر بدلتے ہی رہتے
ہیں جب تک اس کی آخری سانس نہ نکل جائے۔ اور اس کو کہیں دفن کر نے کا مرحلہ
نہ آجائے۔ اس وقت بھی اس کی رسوائی کی کوئی انتہائی نہیں رہتی۔ اکثر قدموں
میں یا گھٹیا جگہوں پر پھینک دی جاتی ہے اور انسان مکمل طورپر اپنے مفاد
پرست ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ اور اس بیچاری کو دل کے قریب سے نکال کر پاؤں
میں کچلے اور مسلے جانے کے لئے پھینک دیتا ہے۔یہ انسان کا سنگ دلانہ رویہ
صرف اور صرف بال پوائنٹ کے ساتھ ہی نہیں ہر کسی کے ساتھ ہے۔ انسان تو اتنا
سنگ دل ہے کہ اپنے قریب ترین خون کے رشتہ داروں کو بھی فراموش بلکہ ہمیشہ
کے لئے خاموش کر دیتا ہے اپنے مفاد کے لئے۔ایک بچاری بال پوائنٹ کی کیا
حیثیت ہے۔ یہ تو اس کے اندر کی سوچوں کے پرکھنے کا پیمانہ ہے۔ ایک شخص اپنے
ہاتھوں اور ہونٹوں پر پھیرنے والی بال پوائنٹ سے جتنا ہتک آمیز اور ذلت
انگیز سلوک کر سکتا ہے وہ کسی اور چیز سے کیا نہیں کر سکتا۔ خیر بات دور تک
نکل جائے گی اور بال پوائنٹ کے مسائل بیچ میں ہی رہ جائیں گے۔
بال پوائنٹ کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اسے جیب میں یا کہیں اور جگہ ٹانکنے
کی کوئی مناسب ساخت نہیں ملتی ( یہ بات سستی بال پوائنٹ کے متعلق ہے) اور
بچے اکثر اس کی ہک سی جو جیب وغیرہ سے نسبتِ قلبی قائم کرتی ہے توڑ دیتے
ہیں۔ اور ایک’ ٹنڈی‘ سی بال پوائنٹ ادھر ادھر گھومنے لگتی ہے۔ جب کہ پین
اکثر اس مسئلے سے آزاد تھے۔ اس مسئلے کا ہماری سمجھ تو کوئی دیر پا حل نہیں
آ سکا اور ہمیں لگتا ہے کہ بال پوائنٹ کا یہ مسئلہ غریبوں کے مسائل کی طرح
ایسے ہی رہے گا اور اسی غربت کے پتھر پر سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست کا خنجر
چمکاتی رہیں گی۔ اور عوام کے گلے کاٹتی رہیں گی اور غریب عوام اس بال
پوائنٹ کی طرح ادھر ادھر بھٹکتی رہے گی۔ اور بال پوائنٹ کی طرح بے گھر اور
بے آبرو ہوتی رہی گی، اور اسے کوئی حل کبھی نہیں مل سکے گا۔ ہاں عوام کے
اونچے طبقے یعنی امیر لوگ اونچی ذات کی بال پوائنٹ کی طرح ہمیشہ خوش و خرم
اور آسودہ رہیں گی۔ کیوں کہ جیسے سوسائٹی میں بال پوائنٹ کا رہنا ضروری ہے
ایسے ہی غریب کا وجود بھی دنیا میں رہنا از حد ضروری ہے ورنہ اقوامِ متحدہ
کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ۔ ہزاروں لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔
سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا ، جمہوریت بھی کسی قبرستان میں اپنا مقبرہ
بنوانے کی تیاری کر رہی ہو گی۔ اس لئے غربت ضرور رہنی چاہیئے غریب چاہے نہ
رہے تا کہ سیاست دان اس غربت کو ختم کرنے کے لئے پارلیمان میں بیٹھے اپنے
مسائل حل کرتے رہیں۔
بال پوائنٹ بھی چلنی چاہیئے تا کہ کام جلدی سے نمٹائے جائیں اور زندگی اپنے
مدار میں چلتی رہے۔ |