تحریر : محدث غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
1۔ عبد اللہ بن ابی بکر تابعی کہتے ہیں :
لمّا التقی النّاس بمئو نۃ جلس رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم علی المنبر
وکشف لہ ما بینہ وبین الشام، فھو ینظر الی معر کتھم، فقال علیہ السّلام :
أخذ الرّأیۃ زید بن حرثۃ، فمضی حتّی استشھد، وصلّی علیہ ودعا الہ وقال:
استخفر والہ وقد دخل الجنّ ۃ ، وھو یسعیٰ ، ثمّ أخذ الرّأیۃ جعفر بن ابی
طالب، فمضیٰ حتٰی استشھد، فصلّی علیہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ودعا
لہ وقال: استغفر والہ، وقد دخل الجنّ ۃ ،فھو یطیر فیھا بجنا حیہ حیث شاء۔
جب لوگوں کو کوئی مصیبت پہنچتی تو رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھتے اور آپ کے
لیے شام تک کا علاقہ واضح کردیا جاتا، چنانچہ آپ ﷺ (مسلمانوں ) کے معرکے
دیکھتے ، آپ نے فرما یا، زید بن حارثہ نے پرچم اٹھایا ہے اور چلتے رہے حتی
کہ شہید کردیئے گئے، آپ نے ان پر نمازِ ( جنازہ) پڑھی اور ان کے لیے دعا کی
اور فرمایا، ان کے لیے دعا کرو، وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہوگئے پھر جعفر
بن ابی طالب نے پرچم پکڑا اور چلتے رہے حتی کہ وہ شہید کردئیے گئے ، ان پر
رسول اللہ ﷺ نے نمازِ ( جنازہ) پڑھی اور ان کے لیے دعا کی اور فرما یا، ان
کے لیے دعا کرو، وہ جنت میں داخل ہوگئے ، وہ جنت میں اپنے دونوں پروں کے
ساتھ جہاں چاہتے اڑتے پھر رہے تھے۔ ”
(کتاب المغاری لسحمد بن عمر الواقدی: ۲۱۱/۲، نصب الریۃ: ۲۸۴/۲)
تبصرہ:
۱ یہ موضوع ( من گھڑت ) روایت ہے، اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی جمہور کے
نزدیک ” ضعیف، متر وک اور کذاب” ہے، ابنِ ملقن ؒ لکھتے ہیں : وقد ضعّفہ
الجمھور۔
” اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ” (ابدر المنیرلا بن الملقن: ۲۳۴/۵)
حافظ ابنِ حجر ؒ نے اسے” متروک” کہا ہے۔ ( تقریب التھذیب : ۶۱۷۵)
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : کتب الواقدیّ کذب ۔ ” واقدی کی کتا بیں جھوٹ کا
پلندا ہیں ۔ “
( الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم: ۲۱/۸، وسندۂ صحیح )
امام اسحاق بن راہویہ ؒ فرماتے ہیں : لأ نّہ عندی ممّن یضع الحدیث
” میرے نزدیک یہ جھوٹی احادیث گھڑ نے والا ہے۔ ” ( الحرح والتعدیل : ۲۱/۸)
امام احمد بن حنبلؒ نے اسے ” کذاب” قرار دیاہے۔( الکامل لا بن عدی : ۲۴۱/۶،
وسندۂ حسن)
امام بخاری ، امام ابوزرعہ، امام نسائی اور امام عقیلی ؒ نے اسے ” متروک
الحدیث ” کہا ہے، امام یحیٰ بن بن اور جمہور نے ” ضعیف ” کہا ہے۔
امام ابنِ عدیؒ فرما تے ہیں :
یروی أحادیث غیر محفوظۃ والبلاء منہ ، ومتون أخبار الواقدیّ غیر محفوظۃ،
وھو بیّن الضّعف۔ “
یہ غیر احادیث بیا ن کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی طرف سے ہے، واقدی کی
احادیث کے متون غیر محفوط ہیں ، وہ واضح ضعیف راوی ہے۔”
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: ۲۴۳/۶)
۲۔ اس کا راوی عبد الجبار بن عمارہ القاری” مجہول” ہے ، اسے امام ابو حاتم
الرزای(الجرح والتعدیل لابن ابی ھاتم: ۳۳/۶) اور حافظ ذہبی ؒ (میزان
الاعتدال: ۵۳۴/۲) نے ” مجہول” قرار دیا ہے، صرف امام ابنِ حبان نے اسے ”
اثقات” میں ذکر کیا ہے، جو کہ ناکافی ہے۔
۳۔ یہ روایت مرسل تابعی ہے، لہٰذا ارسال کی وجہ سے بھی ” ضعیف ” ہے۔
اس طرح کی روایت سے سنت کا ثبوت محال ہے۔
2۔ ابراہیم ہجری کہتے ہیں :
رأیت ابن أبی أبی أوفیٰ، وکان من أصحاب الژّجرۃ ، ماتت ابنتہ الی ان قال :
ثمّ کبّر علیھا أربعا ، ثمّ قام بعد ذلک قدر مابین التّکبیر تین یدعو وقال:
رأیت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کان یصنع ھکذا۔”
میں نے ابن ابی اوفیٰ کو دیکھا جو کہ بیعت ِ رضوان والے صحابی ہیں، ان کی
دختر کا انتقال ہوا۔۔۔ آپ نے ان پر چار تکبیریں کہیں ، پھر اس کے بعد دو
تکبیروں کے فاصلہ کے بقدر کھڑے ہوکر دعا کی اور فرما یا، میں نبئ اکرم ﷺ کو
ایسا کرتے دیکھا ہے۔”
( جاء الحق:: ۲۷۵، مقاس حنفیت: ۵۲۶،بحوالہ کنز العمال : ۲۸۴۴)
تبصرہ
۱: اس روایت کی سند ” ضعیف” ہے، اسمیں ابراہیم بن مسلم ہجری راوی جمہور کے
نزدیک ” ضعیف” ہے، اس پر امام ابو حاتم ارازی، اما نسائی، امام بخاری، امام
ترمذی، امام ابن عدی، امام یحییٰ بن معین ، امام احمد بن حنبل ، امام جوز
جانی، امام ابنِ سعد اور ابنِ جنید ؒ کی سخت جروح ہیں ۔
( دیکھیں تھذیب التھذیب لابن حجر: ۱۴۴-۱۴۳/۱)
حافظ ابنِ حجر ؒ نے اسے ” ضعیف” کہا ہے۔ ( تلخیص السندر ک للذھبی: ۵۵۵/۱)
۲۔ اس میں نماز ِ جنازہ کے اندر چو تھی تکبیر کے بعد دعا کا ثبوت ملتا ہے،
نہ کہ سلام کے بعد انفرادی یا اجتماعی دعا کا، ایک روایت میں صراحت بھی ہے
کہ: وکبّر علی جنازۃ أربعا، ثمّ قام ساعۃ ید عو، ثمّ قال: أتر ونی کنت
أکبّر خمسا، قالوا: لا۔۔۔۔ ” آپ نے ایک جنازہ پر چار تکبیر یں کہہ دیں، پھر
کچھ دیر کے لیے دعا کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے ، پھر فرما یا، کیا تم نے خیال
کیا تھا کہ میں پانچویں تکبیر کہوں گا، لوگوں نے کہا نہیں ۔” (السنن الکبری
للبیھقی: ۳۵/۴، وسندۂ حسن ان صح سماع الحسن بن الصباح من أبی یعفور)
نیز امام بیہقی نے اس روایت پر یوں تبویب کی ہے: باب ماروی فی الاسخفار
للمیّت والدّعاء لہ مابین التّکبیرہ الرّابعۃ والسّلام۔ ” اس روایت کا بیان
جس میں چوتھی تکبیر اور سلام کے درمیان میں میت کے لیے دعا کرنے کا ذکر
ہے۔” (السنن الکبری للبیھقی: ۴۳/۴)
ایک محدث اپنی روایت کو اہل بدعت سے بہتر سمجھتا ہے، لہٰذا یہ روایت ہندو
ستانی بدعت کو بالکل سہارا نہیں دے سکتی۔
واللہ اعلم
3۔ ابو بکر بن مسعد الکا سانی (م ۵۸۷ھ) ایک حدیث بیان کرتے ہیں:
أنّ النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم صلّی علی جنازۃ، فلمّا فرغ جاء عمر ومعہ
قوم، فأر ادأن یصلّی ثانیا، فقال لہ النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم صلّی:
الصّلاۃ علی الجنازۃ لا تعاد، ولکن ادع للمیّت واستغفرلہ۔
” بے شک نبئ اکرم ﷺ نے ایک میت کی نمازِ جنازہ پڑھی، جب پڑھ چکے تو حضرت
عمر آپہنچے اور ان کے ہمرا ہ ایک گروہ بھی تھا تو انہوں نے ارادہ کیا کہ
دوبارہ جنازہ پڑھیں ، تو نبی پاک ﷺ نے اس سے فرما یا کہ نمازِ جنازہ دوبارہ
نہیں پڑھی جاتی، ہاں! اب میت کے لیے دعا واستغفار کرلو۔”
( بدالئع الصنائع فی ترتیب الشرالع: ۷۷۷/۲، طبع حذید مصری)
تبصرہ:
۱۔ یہ روایت بے سند ، موضوع (من گھڑت ) ، باطل ، جھوٹی، جعلی، خود ساختہ،
بناوٹی ، بے بنیاد اور بے اصل ہے، محمد رسول اللہ ﷺ پر افتر اور جھوٹ ہے۔
۲ذعُ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ آپ دعا کریں ، یہ نہیں کہ ہماری دعا میں
شامل ہوجائیں-
4۔ سید نا معاذ بن جبل ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا :
تلاوتِ قرآن سے محبت رکھنے والا مؤ من جب انتقال کرتا ہے تو
فتصلّی الملائکۃ علی روحہ فی الأ رواح ، ثمّ تستغفر لہ۔۔۔۔”
تو فرشتے عالم ارواح میں اس کی روح کی نمازِ جنازہ پڑ ھتے ہیں ، پھر اس کے
لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔” (شرح الصدور : ص، معلبوعہ مصر)
تبصرہ:
۱۔ یہ روایت سخت ترین” ضعیف” ہے، جیسا کہ حافظ سیوطیؒ اس کو ذکر کرنے؛ کے
بعد لکھتےہیں:
ھذا حدیث غریب فی اسنادہ جھالۃ وانقطاع۔
” یہ حدیث غریب ہے ،اس کی سند میں مجہول راوی اور انقطاع ہے۔ ” ( شرح
الصدور : ۵۳)
حافظ سیوطی کی کتاب سے یہ روایت تو نقل کی گئی ، لیکن اس پر انہوں نے حکم
لگا یا تھا،
واضح خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ے ذکر نہیں کیا گیا۔
۲۔ اس روایت کے بارے میں امام بزار خود فرما تےہیں : خالد بن معد ان لم
یسمع من معاذ۔ ” خالد بن معدان نے سید نا معاذ ؓ سے سماع نہیں کیا۔” ( کشف
الاستار: ۸۱۲) حافظ منذ ری ؒ اس وجہ ضعف کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
فی اسناد ہ من لا یعرف حالہ، وفی متنہ غرابۃ کثیر ۃ ،بل نکارۃ ظاھرۃ۔
اس کی سند ایسا راوی بھی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے اور کے متن میں
بہت غرابت ہے، بلکہ ظاہری نکارت ہے۔ “
( الترغیب والترھیب : ۲۴۵/۱)
۳۔ اس میں نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کا ذکر نہیں ، یہاں تو اس بات کا
ذکر ہے کہ جب وہ ( مؤحد) انتقال کرتا ہے تو فوراً فرشتے اس کے لیے دعا کرتے
ہیں ، فرشتو ں کی صلاۃ سے مراد دعا ہے، مؤمنین کے حق میں فرشتوں کی دعا سے
مراد ان کے لیے مغفرت مانگنا ہوتا ہے، نہ کہ نمازِ جنازہ پڑھنا ، جب صلاۃ
سے مراد یہاں نماز ہے ہی نہیں تو دعا بعد الصلاۃ ( نماز کے بعد کی دعا)
کہاں سے آگئی؟
الیٰ یوم البعث کے الفاظ کو خیانت کرتے ہوئے ذکر نہیں کیا جاتا ، جس سے
معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیامت تک اس کے لیے دعا ئے مغفرت کرتے ہیں ، دوسری بات
یہ ہے کہ ہم فرشتوں کے افعال وقوال کے مکلّف نہیں ہیں ، ہمارے لیے شرعی
نصوص حجت ہیں ، نہ ہی فرشتے اس شریعت کے مکلّف ہیں ۔
تفصیل ان شاء اللہ، جاری ہے
|