یہ دور میڈیا کا ہے اور میڈیا کی اقسام میں سوشل میڈیا کا
کردار بہت نمایاں ہوگیا ہے اس وجہ سے بچے ، جوان ، بوڑھے یعنی عورت ومرد
میں سےسار ے قسم کے لوگ اس سے جڑ گئے ہیں اور چوبیس گھنٹوں کا اسے
اپناساتھی بنالیا گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا مثلا واٹس
ایپ ، فیس بوک ، ٹویٹر، گوگل پلس ، یوٹیوب اور ویب سائٹس وغیرہ کے بے شمار
فوائد ہیں ۔ان کی وجہ سے آج دنیا سمٹ کر گاؤں ہو گئی ،خبروں کی ترسیل ،
معلومات کی فراہمی، سماجی ومعاشی معاملات حتی کہ قوم ومذہب کا فروغ سب کچھ
آسان سے آسان تر ہوگیا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ ان سماجی
رابطوں نے سماج ومعاشرے پر برائی کے بہت ہی گہرے اثرات چھوڑے ہیں جن کی
لپیٹ میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے لیکر بچے بچیاں اور عمرداز لوگ (بوڑھے
،بوڑھیاں) تک ہیں ۔ بچپن کے نقوش واحوال کا زندگی کے تمام مراحل پر اثر
پڑتا ہے ۔اگر کسی کا بچپن رنگین، پرکیف وسرود اورعریانیت وفحاشیت کے مرحلے
سے گزرا ہو تو اس کی جوانی بہت ہی مخدوش ہوگی ۔ جوانی ویسے ہی دیوانگی کا
شعبہ اور موج ومستی کا مرحلہ ہوتا ہے اس مرحلہ کو فحاشی سے بچانا اسی
نوجوان کے بس میں ہے جس کے والدین نے بچپن میں شعور وآگہی ، تہذیب وثقافت
اور اخلاق وکردار سے آراستہ کیا ہو۔ اس لئے ہمیں اپنے بچوں کے تئیں اس کی
زندگی کے دوسرے مراحل کی حفاظت کے لئے بچپن کواسلامی تربیت سے سجانا اور
سنوارنا ہوگا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچپن کے ابتدائی ایام میں ذہنی
نشوونما اور دماغی وجسمانی صلاحیتیں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہوتی ہیں اس لئے
یہ وقت بہت حساس ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچے ہرسنی سنائی بات ذہن میں محفوظ
کرلیتا ہے ، آنکھوں سے دیکھا ہوا گویا پتھروں پر نقش ہونے کی طرح ہے اور
تیزی سے نئی نئی باتیں سیکھنے لگتا ہے۔ تیزی سے پروان چڑھ رہےبچپن کے اسی
مرحلے پر مستقبل کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔
آج فتنے کا دور دورہ ہے ، قسم کی قسم کی آزمائشیں اورطرح طرح کے فتنہ وفساد
جنم لے رہے ہیں ، سوشل میڈیا کی آمد نے ان فتنوں کو مزیدبڑھاوا دے دیاہے ۔
ہم مسلمانوں کے لئے سوشل میڈیا کے اس پرفتن دور میں بچوں کی تربیت پہ ایک
سوالیہ نشان لگا ہوا ہے ۔ بہت ہی کٹھن اور سنگین سوال ہے ۔ بچوں کی فطرت
میں ضد ہے اگرہماری غفلت سے اسے سوشل میڈیا کے استعمال کی ضد ہوگئی تو
والدین کیا پوری دنیا کی طاقت اسے اس ضد سے دور نہیں کرسکتی پھر اس کی
جوانی ،بڑھاپا اور پوری زندگی برباد ہوجائے گی۔ اس دور کا المیہ یہ ہے کہ
بچے کی پیدائش پر ہی کھیلنے کے لئے نٹ موبائل ہاتھ میں تھمادیا جاتا ہے ،
یہ بچے جوں جوں موبائل سے مانوس ہوتے ہیں اس سے ان کی دلچسپی گہری سے گہری
ہوتی چلی جاتی ہے ۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ تنہائی کا خوگر ہوجاتا ہے ۔ اسے
پڑھائی میں دل نہیں لگتا، دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنا اور ان کے یہاں
جاناپسند نہیں آتا وہ تنہائی چاہتا ہے ۔ نٹ والا موبائل اس کے ذہن کو اپنی
مرضی کا سکون دیتا ہے ۔ وہ جس قدر اس کا عاشق بنتا جائے گا اسی قدر اس کے
اندر اخلاقی پستی، دیوانگی، تشدد، چڑچڑاپن، اکیلاپن، ناچ گانا، فحش کام ،
بے ہودہ گوئی ، قبیح حرکت اور لایعنی اقوال وافعال کا رسیا ہوتا چلا جائے
گا۔اگر ہم اپنے بچوں کا بچپن بچانا چاہتےہیں اور اسے تاریک زندگی کی بجائے
روشن مستقبل دینا چاہتے ہیں تو ابھی اسے موبائل سے دور رکھنا ہوگا۔ سطور
ذیل میں مختصرا بچوں کی تربیت کی طرف رہنمائی کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہمارے
بچوں کا بچپن محفوظ رہے اور اس کی جوانی وبڑھاپا اچھے ماحول میں گزرے ۔
تربیت عمدہ کلام کے مجموعہ کا نام نہیں ہے کہ اسے ازبر کرایا اور بچہ تربیت
پاگیا ،نہیں ، تربیت اچھے اخلاق وتعلیم کی مسلسل محنت وعمل کا نام ہے ۔اس
اصول کو مدنظر رکھیں اور بچوں کی تربیت شروع کریں ۔
بچوں کی پہلی تربیت جسمانی ہے اسی سے اس کی شخصیت اور اس کا کردار نکھر کر
سامنے آئے گا۔ اسلام نے صفائی پہ بہت دھیان دیا ہے اور صفائی کا اہتمام
بچپن سے ہی ہونا چاہئے ۔ جسمانی تربیت میں غسل کا پابندی سے اہتمام ، کھانے
اور پینے میں صفائی ستھرائی پہ مکمل نگہداشت بلکہ سوتے جاگتے ہاتھ اور چہرہ
دھلنے اور دانتوں کی صفائی کرنے پہ کبھی کبھار نہیں مسلسل دھیان دیا جانا
چاہئے ۔ جسمانی تربیت میں صفائی کے ساتھ ساتھ وزرش پر بھی دھیان دینا چاہئے
ورزش کے لئے جیم جانا یا کوئی کرتب کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ والدین اپنے
ساتھ کبھی صبح کبھی شام یا ویسے ہی فرصت کے مناسب اوقات میں سیر وتفریح پر
لے جائیں ۔ سیروتفریح کے لئے فحش جگہوں سے بچیں ورنہ فائدہ کی بجائے نقصان
ہوگا۔ صاف ستھرے کپڑے ،صاف ستھری باتں پاکیزہ عادتں اور عمدہ فکر وخیال کی
مشق کرائیں ۔ یہ سب جسمانی تربیت میں شامل ہیں ۔
دوسری اور سب سے اہم تربیت روحانی ہے ۔ یہی تو ہماری اسلامی شناخت ہے ۔ نبی
ﷺ نے بچپن سے بچوں کو تعلیم دی ، اخلاق سکھائے، آداب سے آگاہ کئے ، اٹھنے
بیٹھنے ، کھانے پینے اورسونے جاگنے کے اصول بتائے ۔ ہم میں سے اکثر یہ خیال
کرتے ہیں کہ ابھی تو بچہ ہے جب بڑا ہوجائے گا تو خود ہی سمجھ جائے گا۔ نہیں
، ہمیں اپنے بچوں کی ابھی سے ہی تربیت کرنی ہے ۔ روحانی تربیت میں پہلی چیز
توحید وعقائدسے آگاہ کرنا ہے اور اس کے برخلاف الحادی کام ، شرکیہ اعمال ،
بدعیہ افعال اور کفر وضلالت سے تنفر دلانا ہے ۔ اس کام کے لئے ضروری ہے کہ
ہمارے بچے پہلے قرآن کی تعلیم حاصل کریں یا انگریزی تعلیم کے ساتھ گھر پہ
قرآنی تعلیم کا بھی بندوبست کریں کیونکہ اکثر دیکھا جاتا ہے خالص انگریزی
تعلیم اور اس ماحول میں رہنے والے قرآنی تعلیم اور اس کے احکام کو اہمیت
نہیں دیتے۔ لہذا بچوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیشاب وپاخانہ کے
آداب سے لیکر فرائض وواجبات تک کی تعلیم دی جائے ۔یہاں میں اپنے ناقص تجربہ
کی حد تک ہرذمہ دار کو یہ مشورہ دیناچاہتاہوں کہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں
کی زیادہ فکر نہیں ہے مگر عصری اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو دس سال کی عمر
تک کم ازکم تیسواں پارہ حفظ کرادیں اور زیادہ سے زیادہ جتنا ممکن ہواور
منتخب ومختصر احادیث کا ایک مجموعہ جس میں چالیس سے لیکر سو احادیث تک ہوں
ازبر کرائیں اور ضرورت کی مسنون دعائیں اور اذکار بھی یاد کرادیں ۔ یاد
رکھیں بچے نقل چیں ہوتے ہیں وہ ماں باپ ، دوست واحباب اور ماحول ومعاشرہ کی
نقل اتارے گا اس لئے دینی تعلیم کے ساتھ اس کا حلقہ وماحول بھی دینی ہو اور
سر پرست ہونے کی حیثیت سے آپ کو اس کے لئے نمونہ بناو پڑے گا۔ ذہن میں گرہ
لگالیں آپ جو کریں گے وہ بچوں کے ذہن کے کیمرے میں قید ہورہا ہے اسے وہ
دہرائے گا۔
روحانی تربیت میں دینی اور اسلامی تعلیم کے ساتھ عملی تطبیق بھی چاہئے ،
خالی باتوں سے فائدہ نہیں ہوگا اس لئے میں نے کہا کہ بچے اس کی طرف زیادہ
مائل ہوتے ہیں جو کرتے ہوئے کسی کو دیکھتے ہیں۔ آپ کو موبائل استعمال کرتے
ہوئے دیکھے گا تو موبائل استعمال کرے گااور قرآن پڑھتے ہوئے دیکھے تو قرآن
پڑھے گا۔ عملی تطبیق کے لئے اپنے ساتھ نماز پڑھنے مسجد لے جائیں اور نماز
میں اپنی صف میں بغل میں کھڑا کریں ، اسے وضو کرکے دکھائیں ، غسل کرکے
دکھائیں اور صفائی کے دوسرے طریقوں پر مطلع کریں ۔ رمضان میں روزہ رکھنے کی
طاقت ہو تو روزہ رکھوائیں وغیرہ ۔ اخلاق کریمہ سے واقف کرائیں مثلا سلام
کرنا، چھینک پہ الحمد للہ کہنا، بڑوں کی تعظیم کرنا، والدین اور استاد کی
خدمت کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، سوتے جاگتے اور پیشاب
وپاخانہ جاتےآتے ذکر کرنا۔ اسی طرح برے اخلاق سے باخبر کرکے اس سے روکیں
مثلا دوسرےبچوں کو مارنا، بڑوں کے ساتھ بے ادبی کرنا، والدین کو گالی دینا،
چوری کرنا، جھوٹ بولنا، غیبت کرناوغیرہ
تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے بچوں کو جس قدر
ہوسکے دور رکھیں ۔ کبھی بھی موبائل خریدکر اسے مستقل طورپر نہ دیں بطور خاص
نٹ والا حتی کہ گیم کھیلنے کے لئے بھی نہیں ۔ بچپن میں کھیل کود کی ضرورت
ہے اس کے لئے گھر اور اچھے دوستوں میں کھیل کود کروائیں اسکول ے کھیل
پروگرام میں مشارکت کروائیں یا قلم وکاغذ سے ایسی چیزوں کی مشق کرائیں جس
سے اس کے ذہن کو بھی سکون ملے اور کچھ فائدہ بھی ہوجائے ۔ اس پہ انعام مقرر
کرلیں پھر دیکھیں سارا کھیل بھول کر آپ کی طرف متوجہ ہوجائے گی۔
دس معاون باتیں جو سرپرستوں کو دھیان میں رکھنی ہیں جن سے بچوں کی اچھی
تربیت کرسکتے ہیں اور سوشل میڈیا کے پرفتن دور میں اس کے بچپن کی حفاظت
کرسکتے ہیں ۔
(1) تربیت کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کا کردار بلند ہو وہ بات بات پہ غصہ
کرنے والا، بچوں کی معمولی معمولی غلطی پہ دانٹنے والا اور جھڑکنے والا نہ
ہوبلکہ غلطی پہ اچھے اسلوب میں تنبیہ کرنےوالا اور اگر اسے تکلیف دیا ہو تو
ان سنی کردینے والا ہو۔گویا یہ سمجھیں کہ پیار بھرے ماحول میں بچوں کی اچھی
پرورش اور بہترین تربیت کرسکتے ہیں ۔ ہاں میاں بیوی کے بے وجہ جھگڑے ،
سداغم وغصہ کا اظہار اور آپسی تلخی وناراضگی بچوں کی اچھی تربیت میں رکاوٹ
ہے ۔
(2) جس طرح ہمیں اپنے گھر میں اچھا ماحول بنانا ہے اسی طرح بچوں کا وہ سارا
ماحول اچھا ہو جہاں تک وہ آتااور جاتا ہو مثلا اسکول، دوست، پارک اور
سیروتفریح کی جگہیں، کسی ایسی پارٹی اور فنکش میں بھی نہ خود جائیں اور نہ
ہی اپنے بچوں کولے جائیں جہاں منکرات انجام دئے جاتے ہوں ۔ ایک جملہ میں یہ
سمجھ لیں بچوں کی آنکھیں برائی پر نہ پڑے کیونکہ اس سے بچے اثر قبول کرتے
ہیں اور اسی کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں ۔
(3) اگر اللہ نے آپ کو کئی اولاد سے نوازا ہے تو سب میں برابری والی محبت
کریں ، تحائف کی خریداری یا فیصلوں میں انصاف نہ رہے تو تربیت کا اثر مفقود
ہوجاتا ہے ۔ اگر آپ بچوں کے والدین نہیں بلکہ صرف سرپرست یا استاد یا مربی
ہیں اور کئی بچے آپ کی ماتحتی میں ہیں تو بھی سب کے ساتھ یکساں پیار بھرا
سلوک ہونا چاہئے ورنہ آپ کی تربیت وتعلیم کا اثر ختم ہوجائے گا۔
(4) جو بچے باشعور ہوگئے ہیں یعنی دس سال سے متجاوز کرچکے ایسے بچوں کو
کمپیوٹر پروگرامنک کی تعلیم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر نٹ کمپیوٹر کی
آزادی سے وہی خطرہ ہے جو نٹ موبائل سے ہے ۔ اسی طرح ٹی وی یا گیم ڈوائس سے
بھی بچوں کو دور رکھیں ۔ والدین سوچتے ہیں گیم کھیلنےسے کیا نقصان ہوگا ؟
میں کہتا ہوں ایسے دنیاوی گیم کھیلنے سے فائدہ کیا ہے سوائے وقت کے ضیاع
اور دماغ پر اس کے منفی اثرات کے ؟
(5) اگر آپ بچوں کونٹ موبائل اور سوشل میڈیا کے نقصان سے دور رکھنا چاہتے
ہیں تو آپ ان کے سامنے کم سے کم موبائل استعمال کریں کیونکہ جب اس کا
استعمال بچوں کے سامنے زیادہ ہوگا اس کے ذہن میں موبائل کا نقش بیٹھ جائے
گا اور آپ سے اس کا مطالبہ کرے گا ۔ آپ منع کریں گے تو یہ مطالبہ ضد کی شکل
اختیار کرلے گا اور جب آپ سورہے ہوں یا گھر پہ موبائل بھول گئے ہوں وہ
موبائل لیکر اسے استعمال کرے گا۔ یاد رکھیں اس کے ہاتھ میں نٹ موبائل دینے
سے پرہیز کریں اور نہ ہی موبائل کے فنکشن سے واقفیت کرائیں ۔ ابھی وقت ہے
کتاب اور قلم کا تو اس کے ہاتھ میں کتاب اور قلم دیں ۔
(6) مربی کے اوصاف اپنے اندر پیدا کریں ، نصیحت اپنے سے شروع کریں ، اخلاق
کا پیکر بنیں اور بچوں کے معاملات کو اس کی نفسیات کے حساب سے حل کریں ۔
ہرچیز کی فرمائش اور ضد پوری کرنے یا تربیت اولاد پر اولاد کی محبت کو
فوقیت دینے یا بچوں کی غلطی پر اصلاح کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنے یا
اچھے کاموں پر بھی شاباشی کی بجائے نکارت کا اظہار کرنے سے بچے بنتے نہیں
بگڑتے ہیں ۔ یاد رکھیں مربی کی خامی بچوں کی خامی ہے اور مربی کی اچھائی
بچوں کی اچھائی ہے ۔
(7) ہربچے میں ایک خاص قسم کا فطری رجحان اور قدرتی صلاحیت ہوتی ہے مربی کو
اسے جاننے کی ضرورت ہے تاکہ اس قدرتی صلاحیت کی بنیاد پر اس کی مناسب
رہنمائی ہوسکے اور اس کی وہبی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ نکھارا جاسکے۔
(8) زمانہ کے فتنوں اور شیطانی ہتھکنڈوں سے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے اللہ
کی پناہ طلب کرنی چاہئےاور خوب خوب دعائیں کرنی چاہئے ۔ رسول مقبول ﷺ سے
بچوں کی حفاظت کے لئے دعائیں کرنا منقول ہیں لیکن تعویذ اور امام ضامن کبھی
نہ استعمال کرائیں کیونکہ یہ شرک ہے۔ اس کی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہئے ۔
پاکیزہ روزی اور پاکیزہ غذا خود کھائیں اور اپنے ماتحتوں کو بھی کھلائیں ۔
حلال وطیب غذا کا جسم وروح پر پاکیزہ اثر پڑتا ہے اور حرام وخبیث غذا کا
برا اثر پڑتا ہے ۔
(9) فرصت میں آدمی بے کاری اور نفسانی کام کی طرف عام طور سے رغبت کرتا ہے
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی فرصت کے لمحات بالخصوص لمبی چھٹی کے
اوقات ایسے کاموں میں صرف کئے جائیں جن میں ان کے شعور کو بالیدگی ، عقل کو
تیزی اور ادب واخلاق کو جلا ملے ۔
(10) بچوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے اسلامی کہانیاں بہت مفید رہیں گی ۔
سونے کے وقت بچوں کو انبیاء، علماء اورصحابہ و صحابیات کی روح پرورسچی
کہانیاں سنائیں جو سچائی، عدل وانصاف ، امانتداری، شجاعت، صدقہ وخیرات ،
سنت سے محنت ، والدین کے ساتھ حسن سلوک ، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے شفقت ،
اخلاق ومروت اور اسلامی آداب واحکام پر مشتمل ہوں ۔ کہانی کے ذریعہ سے بچوں
میں اسلامی تعلیمات بہترین اسلوب میں جاگزیں ہوں گی ۔
آج کے پرفتن دور سےمتعلق بچوں کی حفاظت پہ میرے یہ افکار ونتائج تھے جو میں
نےقلمبند کئے اس امید کے ساتھ کہ اس میں ہمارے لئے بھلائی کی کوئی بات ہو
جس کو روبعمل لانے سے ہمارے بچوں کا بچپن محفوظ اور مستقبل تابناک وروشن
ہوجائے ۔ اللہ سے دعاہے کہ ہمارے بچوں کو زمانے کے شر وفتن اور شیطان کی
گرفت سے بچائے ۔ آمین
|