ابوجہل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ رات
کو چھپ کر حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کی قرات سننے آیا۔
اسی طرح ابوسفیان ابن صخر اور اخنس بن شریق بھی۔
ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی۔
صبح تک تینوں چھپ کر حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم سے قرآن سنتے رہے۔
دن کا اجالا ہونے لگا تو واپسی میں ایک سنگھم پر تینوں کی ملاقات ہوگئی۔
ہر ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم کیسے آئے تھے (جب بات کھلی) تو اب سب نے آپس
میں یہ معاہدہ کیا کہ ہم کو قرآن سننے کے لئے نہیں آنا چاہیے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں دیکھ کر قریش کے نوجوان بھی آنے لگیں اور آزمائش
میں پڑجائیں۔
جب دوسری رات آئی تو ہر ایک نے یہی گمان کیا کہ وہ دونوں نہیں آئے ہوں گے
چلو قرآن سن لے۔
غرض یہ کہ صبح کے قریب تینوں کا سنگھم ہوا اور خلاف معاہدہ ہونے پر ایک
دوسرے کو ملامت کرنے لگا اور دوبارہ معاہدہ کرلیا کہ اب کے نہ جائیں گے۔
(سبحان ﷲ! قرآن اور وہ بھی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی زبان(مبارک ) سے،
بھلا ان کو کب سونے دیتا تھا.)
اور جب تیسری رات آئی تو پھر تینوں حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں
گئے پھر صبح کے وقت معاہدہ کرلیا کہ آئندہ سے تو ہرگز نہیں آئیں گے۔
اب اخنس بن شریق ،ابوسفیان بن حرب کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابوخنطلہ
!تمہاری کیا رائے ہے؟
تم نے محمد صلی ﷲ علیہ وسلم سے جو قرآن سنا ،
اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
ابوسفیان کہنے لگا: اے ابو ثعبلہ ! ﷲ کی قسم میں نے جو باتیں سنی ہیں ،
ان کو خوب پہنچانتا ہوں اور اس کا جو مطلب ہے اس کو بھی جانتا ہوں لیکن بعض
ایسی باتیں سنی ہیں جن کا مقصد اورمعنی نہ سمجھ سکا۔
تو اخنس نے کہا: ﷲ کی قسم میری بھی یھی حالت ہے۔
پھر اخنس وہاں سے چل کر ابوجہل کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابولحکم !!
محمد صلی ﷲ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے؟
اور تم نے کیا سنا ہے؟
تو ابوجہل نے کہا : ہم اور بنوعبد مناف مقام شرف کے حاصل کرنے میں ہمیشہ
دست و گریباں رہے ہیں۔
انہوں نے دعوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں۔
انہوں نے خیر و سخاوت کی تو ہم نے بھی کی۔
حتیٰ کہ ہم تو پاؤں جوڑے بیٹھے رہے او روہ کہنے لگے کہ ہمارے پاس ﷲ کا ایک
پیغمبر ہے۔
اس پر آسمان سے وحی اترتی ہے تو اب ہم یہ بات کہاں سے لائیں۔
ﷲ کی قسم ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے اور اس کی پیغمبری کی تصدیق نہیں کریں
گے۔
اخنس یہ سن کر چلا گیا۔
افسوس کہ حق کو حق سمجھ کر بھی ایمان نہ لائے اور یوں ہی جھوٹی چودھراہٹ کے
تحفظ میں جہنم کا سودا کر بیٹھے.
(تفسیر ابن کثیر) ( ”صحیح اسلامی واقعات ”، صفحہ نمبر 101-99)
|