بھارت کی مودی حکومت نے گزشتہ دنوں انٹیلی جنس بیورو کے
سابق سربراہ دنیشور شرما کو مقبوضہ کشمیر کے لئے مزاکراتی نمائندہ مقرر
کیا۔ بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اس کا اعلان ایک پریس کانفرنس میں
کیا ۔ شرما اس سے پہلے آسام، بوڈھولینڈ اور منی پورکے علیحدگی پسندوں سے
بھارتی نمائندے کی حیثیت سے مزاکرات کر چکے ہیں اور اب انہیں مقبوضہ کشمیر
کے حوالے سے بھی مزاکراتی نمائندے کی اضافی ذمہ داری دی گئی ہے۔1979پولیس
بیچ کے شرما انٹیلی جنس ایجنسیوںکے علاوہ باڈر سیکورٹی فوس اور سی آر پی
ایف میں بھی کام کر چکے ہیں۔مشرقی جرمنی،پولینڈ،اسرائیل اور جنوبی کوریا سے
انٹیلی جینس کے کئی کورس کر نے والے شرما مقبوضہ کشمیر میں آئی بی ،بی ایس
ایف ،سی آر پی ایف کے اعلی افسر کے طورپر کام کرنے کے علاوہ سیکورٹی
ایڈوائیزر اجت ڈوول کے ساتھ بھی آئی بی میں کام کر چکے ہیں۔ریاست بہار سے
تعلق رکھنے والے شرما 2014سے2016تک اتر پردیش میں آئی بی کے ڈائریکٹر رہے
جس وقت راج ناتھ سنگھ اتر پردیش کے وزیر اعلی تھے۔دنیش شرما ہندوستان کی
''ایکس '' برانچ کے سربراہ بھی رہے ہیں جہاں تمام ہندوستان کی انٹیلی جنس
معلومات اور سیاسی امور جا جائزہ لیا جاتا ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق دنیش شرما مقبوضہ جموں و کشمیر کے تمام حلقوں سے
ملاقات کریں گے اور ان کا تقرر نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجت ڈوول،سیکرٹری
داخلہ راجیو گپتا ،انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلی
محبوبہ مفتی کی ایک ملاقات کے بعد کیا گیا ۔بھارتی حکام کے مطابق دنیش شرما
کا تقرر مقبوضہ کشمیر میں تیس سالہ خوںریزبغاوت کے خاتمے کے لئے مزاکرات کے
حوالے سے اہم ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے یوم آزادی
کی تقریر میں کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ وہاں کے لوگوں کو گلے لگانے سے حل
ہو گا،گولیوں یا ظالمانہ سلوک سے نہیں۔بتایا جا رہا ہے کہ دنیش شرما مقبوضہ
کشمیر کا دورہ کریں گے اور تین تین دن سرینگر اور جموں میں رہیں گے۔بھارتی
حکام کا کہنا ہے کہ شرما اپنی رپورٹ وزیر داخلہ کو دیں گے اور اس کی کوئی
'' ڈیڈ لائین'' مقرر نہیں کی گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق دنیش شرما 6نومبر کو
نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجت ڈوول اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ساتھ
اجلاس میں شریک ہوں گے۔
دنیشور شرما نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں امن بحال کرنے
کے لئے کام کریں گے۔شرما نے کہا کہ وہ آئی بی میں کام کرنے کے دوران مقبوضہ
کشمیر کے کئی طرح کے لوگوں سے رابطے میں رہے ہیں اور لوگ ان سے بات کرنے
میں خوفزدہ نہیں ہوئے۔شرما نے کہا کہ کشمیر میں ہر ایک سے بات کرنے کی
ضرورت ہے ۔شرما نے کہا کہ اس عمل سے بھارتی حکومت پر اعتماد پیدا ہو گا اور
لوگوں کی توقعات پوری کی جا سکیں گی۔بھارتی مزاکراتی نمائندے نے کہا کہ اگر
حریت رہنما مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے آگے آئیں تو میں ضرور ان سے
ملاقات کروں گا،مجھے یہ دیکھنے دیں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔شرما نے توقع
ظاہر کی کہ انہیں مقبوضہ کشمیر میں لوگوں سے تعاون ملے گا کیونکہ ہر کوئی
فوری امن چاہتا ہے۔شرما نے کہا کہ پہلے دورے سے مقبوضہ کشمیر کی زمینی
صورتحال اور لوگوں سے رابطے کا جائزہ لیا جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں
شرما نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے کشمیر میں ایک ' فیکٹر ' ہے اور کشمیر پر
جنگیں بھی لڑی گئی ہیں ،کشمیر کے لوگوں کو یہ محسوس کرنا ہو گا کہ وہ
پاکستان کے ' ٹریپس' کا شکار ہوں یا نہیں اور یہ ان (کشمیریوں) کے بچوں کے
لئے ہے،انہیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ان کے لئے کیا اچھا ہے۔اس سوال کہ
ماضی میں بھارتی حکومت کے متعین کردہ مزاکرات کاروں کی تیار کی گئی رپورٹس
کی مشق کو دیکھتے ہوئے اب لوگوں کے لئے اس مشق میں نیا کیا ہے؟ شرما نے کہا
کہ پہلے دیکھیں کہ بات چیت میں کیا پیش رفت ہوتی ہے،میں اس وقت کمنٹ کرنے
کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔دنیش شرما نے کہا کہ میں کشمیرسے جذباتی طورپر
وابستہ ہوں اور میں نے زیادہ وقت کشمیر کے حوالے سے دیا ہے۔شرما نے کہا کہ
لوگوں کے تعاون سے امیدیں وابستہ ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کا منظر نامہ اس وقت یہ ہے کہ بھارتی حکام کے مطابق گزشتہ چھ
ماہ کے دوران فوجی کاروائیوں کے دوران مسلح جدوجہد کرنے والے80 افراد کو
ہلاک کیا گیا ہے اور اس وقت مقبوضہ کشمیر میںایک سو سے زائد عسکری پسند
موجود ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے جنوبی علاقوں میں بھارتی فورسز پر کشمیری فریڈم
فائٹرز کے حملے جاری ہیں،ساتھ ہی بھارتی فورسز کی طرف سے آبادیوں کے
گھیرائو،خانہ تلاشیوں ،توڑ پھوڑ اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔بھارت کے
مرکزی تفتیشی ادارے'' این اآئی اے'' کی حریت رہنمائوں کے خلاف ''حوالہ
رقوم'' کے حوالے سے سخت کاروائیاں جاری ہیں جن میں متعدد حریت رہنما اور
دیگر افراد جیلوں میں قید ہیں اور سخت کاروائیوں کا نشانہ بنے ہو ئے
ہیں۔بھارتی حکومت حریت رہنمائوں کے ان عزیز و اقارب کو بھی نشانہ بنا رہی
ہے جو کشمیر کی آزادی کی مسلح یا سیاسی جدوجہد میں شامل نہیں ہیں۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ہر طرح سے سخت ترین کاروائیاں جاری رکھی
ہوئی ہیں جس کے تحت کشمیریوں کو فوج،نیم فوجی دستوں،عدالتی
کاروائیوں،قید،تشدد وغیرہ کی سخت ترین کاروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا
ہے۔بھارتی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت پاکستان افغانستان،امریکہ کے ساتھ
تعلقات کے علاوہ بلوچستان اور دہشت گردی کے مسائل میں الجھا ہوا ہے اور اس
کے ساتھ ہی ملک میں حاکمیت اعلی کے مسئلے پر سول اور فوجی کشمکش بھی تیز
ہے۔اس صورتحال کے تناظر میں بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو ظالمانہ تادیبی
کاروائیوں کی سخت دبائو میں لایا ہوا ہے اور اب انٹیلی جنس کے ایک اعلی
افسر کو مزاکراتی نمائندہ مقرر کرتے ہوئے آزادی پسند وں کو تقسیم اور
انتشار کا شکار کرنے کی حکمت عملی ظاہر ہو رہی ہے۔اب تک کی صورتحال سے یہ
بھی واضح ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی مزاحمتی
تحریک کے خلاف کشمیریوں کے مختلف شعبوں کے افراد کا تعاون حاصل کرنے کی
کوشش کر رہی ہے۔اس سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مخبری کے نظام کو مزید
بہتر اور موثر بنانا بھی مطلوب ہے۔نظر یہی آ رہا ہے کہ بھارتی حکومت دنیش
شرما کی صورت مزکراتی نمائندے کے ذریعے تحریک آزادی،تحریک مزاحمت سے وابستہ
افراد کو بھارت کے'' سیاسی اور مخبری کے دھارے ''میں لانے کے مشن پر متعین
ہیں۔ ایک طرف کشمیریوں کو ہر طرح کی ظالمانہ کاروائیوں سے سخت ترین دبائو
میں رکھا جا رہا ہے اور اب مزاکراتی نمائندے کے ذریعے پریشان حال کشمیریوں
کو بھارتی حکومت سے خفیہ تعاون کرنے کا'' چور راستہ'' فراہم کرنے کی کوشش
کارفرما ہے۔ |