بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار اور تونگر تھا جس کا نام عامیل بتایا جاتا ہے۔

بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار اور تونگر تھا جس کا نام عامیل بتایا جاتا ہے۔
اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھتیجا تھا بھتیجے نے جب دیکھا کہ بوڑھا تو مرتا ہی نہیں تو اس نے وراثت کے لالچ میں سوچا کہ میں ہی اسے کیوں نہ مار ڈالوں؟
اور اس کی لڑکی سے نکاح بھی کر لوں اور قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کرلوں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں ۔
اس شیطانی خیال میں وہ پختہ ہو گیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا۔
بنی اسرائیل کے اچھے لوگ ان دوقوموں کے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر یکسو ہو کر ان سے الگ ایک اور شہر میں رہنےلگے۔
اور شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کر دیا کرتے۔
اس بھتیجے نے اپنے چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا پھر دہائی مچا دی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا۔
آخر کار ان قلعہ والوں پر تہمت لگا کر ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا،
لیکن یہ اڑ گیا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ یا نبی اللہ یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہاں سے وحی نازل ہوئی کہ ان سے کہو ایک گائے ذبح کریں
انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی کہاں قاتل کی تحقیق اور کہاں آپ گائے کے ذبح کا حکم دے رہے ہیں؟
کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں؟
موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا (اعوذ باللہ) اللہ کے احکامات میں مذاق جاہلوں کا کام ہے اللہ عزوجل کا حکم یہی ہے اب اگر یہ لوگ جا کر کسی گائے کو ذبح کر دیتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے سوالات کا دروازہ کھول دیا اور کہا
وہ گائے کیسی ہونی چاہئے ؟
اس پر حکم ہوا کہ وہ نہ بہت بوڑھی ہے نہ ہی کم عمر ہے جوان عمر کی ہے انہوں نے کہا حضرت ایسی گائیں تو بہت ہیں یہ بیان فرمائیے کہ اس کا رنگ کیا ہے ؟
وحی اتری کہ اس کا رنگ بالکل صاف زردی مائل ہے باہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں اترتی جاتی ہے پھر کہنے لگے حضرت ایسی گائیں بھی بہت سی ہیں کوئی اور ممتاز وصف بیان فرمائیے وحی نازل ہوئی کہ وہ کبھی ہل میں نہیں جوتی گئی،
کھیتوں کو پانی نہیں پلایا ہر عیب سے پاک ہے یک رنگی ہے
کوئی داغ دھبہ نہیں جوں جوں وہ سوالات بڑھاتے گئے حکم میں سختی ہوتی گئی۔اب ایسی گائے ڈھونڈنے کو نکلے تو وہ صرف ایک لڑکے کے پاس ملی۔
یہ بچہ اپنے ماں باپ کا نہایت فرمانبردار تھا ایک مرتبہ جبکہ اس کا باپ سویا ہوا تھا اور نقدی والی پیٹی کی کنجی اس کے سرہانے تھی ایک سوداگر ایک قیمتی ہیرا بیچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں لڑکے نے کہا میں خریدوں گا قیمت ستر ہزار طے ہوئی لڑکے نے کہا ذرا ٹھہرو جب میرے والد جاگیں گے
تو میں ان سے کنجی لے کر آپ کو قیمت ادا کر دونگا اس نے کہا ابھی دے دو تو دس ہزار کم کر دیتا ہوں اس نے کہا نہیں حضرت میں اپنے والد کو نہیں جگاؤں گا۔
تم اگر ٹھہر جاؤ تم میں بجائے ستر ہزار کے اسی ہزار دوں گا یونہی ادھر سے کمی اور ادھر سے زیادتی ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ تاجر تیس ہزار قیمت لگا دیتا ہے کہ اگر تم اب جگا کر مجھے روپیہ دے دو میں تیس ہزار میں دیتا ہوں لڑکا کہتا ہے اگر تم ٹھہر جاؤ یا ٹھہر کر آؤ میرے والد جاگ جائیں تو میں تمہیں ایک لاکھ دوں گا
آخر وہ ناراض ہو کر اپنا ہیرا واپس لے کر چلا گیا باپ کی اس بزرگی کے احساس اور ان کے آرام پہنچانے کی کوشش کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے سے پروردگار اس لڑکے سے خوش ہو جاتا ہے اور اسے یہ گائے عطا فرماتا ہے۔
جبکہ تفسیر خازن میں مزید لکھا ہے۔
اس لڑکے کے باپ بنی اسرائیل کا ایک بہت ہی نیک اور صالح بزرگ تھے اور ان کا ایک ہی بچہ تھا جو نابالغ تھا۔
اور ان کے پاس فقط ایک گائے کی بچھیا تھی۔
ان بزرگ نے اپنی وفات کے قریب اس بچھیا کو جنگل میں لے جا کر ایک جھاڑی کے پاس یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یا اللہ (عزوجل)میں اس بچھیا کو اس وقت تک تیری امانت میں دیتا ہوں کہ میرا بچہ بالغ ہوجائے۔
اس کے بعد ان بزرگ کی وفات ہو گئی اور بچھیا چند دنوں میں بڑی ہو کر درمیانی عمر کی ہو گئی
اور بچہ جوان ہو کر اپنی ماں کا بہت ہی فرمانبردار اور انتہائی نیکوکار ہوا۔
اس نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔
ایک حصہ میں سوتا تھا،
اور ایک حصہ میں عبادت کرتا تھا،
اور ایک حصہ میں اپنی ماں کی خدمت کرتا تھا۔
اور روزانہ صبح کو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور ان کو فروخت کر کے ایک تہائی رقم صدقہ کردیتا اور ایک تہائی اپنی ذات پر خرچ کرتا اور ایک تہائی رقم اپنی والدہ کو دے دیتا۔
ایک دن اس کی والدہ نے کہا: اے نورِ نظر! تیرے باپ نے تیرے لئے فلاں جنگل میں خدا کے نام ایک بچھڑی چھوڑی تھی
وہ اب جوان ہوگئی ہوگی،
اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تجھے عطا فرمائے اورتو اسے جنگل سے لے آ۔
لڑکا جنگل میں گیا اور اس نے گائے کو جنگل میں دیکھا اوروالدہ کی بتائی ہوئی علامتیں اس میں پائیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر بلایا تووہ حاضر ہوگئی۔
وہ جوان اس گائے کو والدہ کی خدمت میں لایا۔
والدہ نے بازار میں لے جا کر تین دینار پر فروخت کرنے کا حکم دیا اور یہ شرط کی کہ سودا ہونے پر پھر اس کی اجازت حاصل کی جائے، اس زمانہ میں گائے کی قیمت ان اطراف میں تین دینار ہی تھی۔
نوجوان جب اس گائے کو بازار میں لایا تو ایک فرشتہ خریدار کی صورت میں آیا اور اس نے گائے کی قیمت چھ دینار لگادی مگر یہ شرط رکھی کہ نوجوان اپنی والدہ سے اجازت نہیں لے گا۔نوجوان نے یہ منظور نہ کیا اور والدہ سے تمام قصہ کہا،
اس کی والدہ نے چھ دینار قیمت منظور کرنے کی تو اجازت دی مگر بیچنے میں پھر دوبارہ اپنی مرضی دریافت کرنے کی شرط لگادی۔
نوجوان پھر بازار میں آیا، اس مرتبہ فرشتہ نے بارہ دینار قیمت لگائی اور کہا کہ والدہ کی اجازت پر موقوف نہ رکھو۔
نوجوان نے نہ مانا اور والدہ کو اطلاع دی وہ صاحب فراست عورت سمجھ گئی کہ یہ خریدار نہیں کوئی فرشتہ ہے جو آزمائش کے لیے آتا ہے۔
بیٹے سے کہا کہ اب کی مرتبہ اس خریدار سے یہ کہنا کہ آپ ہمیں اس گائے کے فروخت کرنے کا حکم دیتے ہیں یا نہیں ؟
لڑکے نے یہی کہا توفرشتے نے جواب دیا کہ ابھی اس کو روکے رہو،
جب بنی اسرائیل خریدنے آئیں تو اس کی قیمت یہ مقرر کرنا
کہ اس کی کھال میں سونا بھر دیا جائے۔
نوجوان گائے کو گھر لایا اور جب بنی اسرائیل جستجو کرتے ہوئے اس کے مکان پر پہنچے تو یہی قیمت طے کی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ضمانت پر وہ گائے بنی اسرائیل کے سپرد کی۔-)
جب بنی اسرائیل اس قسم کی گائے ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو سوائے اس لڑکے کے اور کسی کے پاس نہیں پاتے اس سے کہتے ہیں کہ اس ایک گائے کے بدلے دو گائیں لے لو یہ انکار کرتا ہے پھر کہتے ہیں تین لے لو چار لے لو لیکنیہ راضی نہیں ہوتا دس تک کہتے ہیں
مگر پھر بھی نہیں مانتا یہ آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شکایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں جو یہ مانگے دو اور اسے راضی کر کے گائے خریدو آخر گائے کے وزن کے برابر سونا دیا گیا تب اس نے اپنی گائے بیچی یہ برکت اللہ نے ماں باپ کی خدمت کی وجہ سے اسے عطا فرمائی جبکہ یہ بہت محتاج تھا اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کی بیوہ ماں غربت اور تنگی کے دن بسر کر رہی تھی۔
الغرض اب یہ گائے خرید لی گئی اور اسے ذبح کیا گیا اور اس کے جسم کا ایک ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم سے لگایا گیا
تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ مردہ جی اٹھا اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے قتل کیا ہے اس نے کہا میرے بھتیجے نے اس لئے کہ وہ میرا مال پر قابض ہونا چاہتا تھا۔
اور میری لڑکی سے نکاح کر نا چاہتا تھا بس اتنا کہہ کر وہ پھر مر گیا اور قاتل کا پتہ چل گیا اور بنی اسرائیل میں جو جنگ و جدال ہونے والی تھی وہ رک گئی اور یہ فتنہ دب گیا اس بھتیجے کو لوگوں نے پکڑ لیا اس کی عیاری اور مکاری کھل گئی اور اسے اس کے بدلے میں قتل کر ڈالا گیا یہ قصہ مختلف الفاظ سے مروی ہے۔قرآن حکیم فرقان حمید میں پارہ۱،البقرۃ:۶۷تا ۸۳میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
ترجمہ :۔ اوریاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: بیشک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو انہوں نے کہا کہ کیاآپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں ؟
موسیٰ نے فرمایا، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔
انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں بتادے کہ وہ گائے کیسی ہے؟ فرمایا:اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایک ایسی گائے ہے جو نہ توبوڑھی ہے اور نہ بالکل کم عمربلکہ ان دونوں کے درمیان ہے۔
تو وہ کرو جس کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا: آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتادے،
اس گائے کا رنگ کیسا ہے؟
فرمایاکہو اللہ فرماتا ہے کہ وہ پیلے رنگ کی گائے ہے جس کا رنگ بہت گہرا ہے۔
وہ گائے دیکھنے والوں کو خوشی دیتی ہے۔
انہوں نے کہا: آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے واضح طور پر بیان کردے کہ وہ گائے کیسی ہے؟
کہ بیشک گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے اور اگراللہ چاہے گا تو یقینا ہم راہ پائیں گے۔
 

Kamran Buneri
About the Author: Kamran Buneri Read More Articles by Kamran Buneri: 92 Articles with 272059 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.