پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز 26 نومبر 1964ء کو لاہور
کے سٹیشن سے ہوا۔ حکومت پاکستان نے اکتوبر 1964ء میں تجرباتی بنیادوں پر
جاپان کی ایک فرم "نپن الیکٹرک کمپنی" کے تعاون سے پاکستان کے دو شہروں
لاہور اور ڈھاکہ میں ٹیلی ویژن سٹیشن کھولنے کا فیصلہ کیا اور 26 نومبر
1964ء کو لاہور اور 25 دسمبر 1964ء کو ڈھاکہ میں ٹیلی ویژن سٹیشن کھولے گئے۔
یہ دونوں اسٹیشن شروع میں روزانہ تین گھنٹے کی نشریات کا اہتمام کرتے تھے
اور ہفتہ میں ایک دن یعنی پیر کو ٹی وی کی نشریات نہیں ہوتی تھیں، مزید یہ
کہ ٹی وی کے تمام پروگرام سٹیشن میں تیار نہیں ہوتے تھے بلکہ نشریات کا
زیادہ حصہ درآمدی اور دستاویزی معلوماتی پروگراموں پر مبنی تھا-پی ٹی وی
نے اپنا پہلاڈرامہ "نذرانہ" پیش کیا جس میں محمد قوی خان، کنول نصیر اور
منور توفیق نے اداکاری کی۔ اس کاا سکرپٹ نجمہ فاروقی نے لکھا تھااور اسے
ڈائریکٹ فضل کمال نے کیا تھا-پی ٹی وی ڈراموں کی دُھوم تو ہمارے ہمسایہ ملک
میں ہم سے بھی زیادہ رہی بلکہ بعد ازاں دوسرے ممالک میں بھی اُن کی ویڈیوز
سے ہمارے ملک کے اس شعبے کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ آغاز میں مشہور ہونے والا
ڈرامہ اُچے برج لاہور دے، رہا جس میں اہم کردار محمد قوی نے ادا کیا۔ 70ء
کی دہائی کے آغاز میں اداکار خالد عباس ڈار کے دلچسپ جملے ’’متے کے نال دے
کے لیکن‘‘ سے مشہور ہونے والا ڈرامہ جزیرہ اور پھر جھوک سیال جسکا یہ
ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا ’’پیر سائیں آنداہ اے میٹھے چول کھاندہ اے‘‘ بہت
پسند کئے گئے۔ اسی دہائی میں آگے بڑھیں تو مصنفہ حسینہ معین کے لکھے ہوئے
ڈراموں میں سے نیلوفر علیم کا مشہورِ زمانہ ’’ شہزوری‘‘ اور روحی بانو کا
’’کرن کہانی‘‘ جس میں اپنے وقت کی مشہور فلمی ہیرؤئن بابرہ شریف بھی نظر
آئیں اہم ڈرامے رہے۔اُنہی کے تحریر کردہ ڈرامے زیر زبر پیش اور انکل عُرفی،
جس میں مشہور اداکار شکیل نے اہم کردار ادا کئے ناظرین کی مزید تفریح کا
باعث بنے۔ نہ بھولنے والا ڈرامہ ’’خدا کی بستی‘‘ نے اپنا الگ ہی رنگ جمایا۔
’’آخری شب‘‘ کے عنوان سے مختلف تاریخی ڈرامے معلومات میں اضافے کا باعث
بنے۔ ریاض بٹالوی کی کہانیوں پر مبنی ’’ایک حقیقت ایک فسانہ‘‘ کے عنوان سے
ڈرامے زندگی سے تعلق رکھنے والے واقعات کی وجہ سے ایک نئی کڑی ثابت ہوئے۔
بعد ازاں 80 کی دہائی میں اشفاق احمد کے ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کے نام سے
مختلف موضوعات پر بھی دلچسپ ڈرامے پیش کئے جاتے رہے جنکا تسلسل اور ڈرامے
کے عنوان سے بھی نشر کیا گیا، پھر انہی کا ایک اور ڈراموں کا سلسلہ ’’توتا
کہانی‘‘ بہت مشہور ہوا، شاید اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ ’’طوطا‘‘ کی بجائے ’’توتا‘‘
کا لفظ لُغت کے مطابق استعمال کیا گیا۔ افشاں، انا، شمع، سمندر، دُھند، دِن
اور خصوصی طور پر پاکستانی فوج کے نشان ِحیدر پانے والی فوجی شخصیات پر
ڈرامے بھی اپنی مثال آپ رہے۔ زیادہ تر ڈرامے قسط وار ہوتے اور ہفتے کے کسی
ایک مقررہ دن میں 8 سے 9 کے درمیان نشر کئے جاتے۔پی ٹی وی نے اپنی رنگین
نشریات کا آغاز 1976ء میں کیا تو اُسکی وجہ سے اس ادارے کو اور مقبولیت
حاصل ہوگئی اور رنگین ڈرامے مزید توجہ کا مرکز بن گئے۔ اسی دوران 1979ء میں
امجد اسلام امجد کا تحریر کیا ہوا ڈرامہ ’’وارث‘‘ جب آن ائیر ہوا تو اس سے
انکار نہیں کیا جاسکتا کہ واقعی پی ٹی وی ڈرامے نے ایک مدت بعد نئی کروٹ لی
اور چُلبلی نوعیت کے ڈراموں سے ایک قدم آگے بڑھا دیا۔اداکارمحبوب عالم کے
کردار میں جس خوبصورتی کے ساتھ ملک کے جاگیرداری نظام کی تصویر کشی کی گئی
ناظرین اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اُنکے ساتھ منور سعید، فردوس
جمال، عابد علی اور شجاعت ہاشمی کے کردار آج بھی لازوال تصور کئے جاتے ہیں،
بعد ازاں اس نوعیت کے موضوع عام ہوگئے جن میں سے دہلیز اور سمندر وغیرہ اہم
ڈرامے رہے۔ تاریخی ڈراموں میں ’’آخری چٹان‘‘ اور ’’شاہین‘‘ قابلِ ذکر
ہیں۔1980ء کی دہائی میں قسط وار ڈراموں کے اعتبار سے حسینہ معین ایک بار
پھر بازی لے گئیں اور ’’اَن کہی‘‘، تنہائیاں اور دھوپ کنارے‘‘ نامی ڈراموں
نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے، ان ڈراموں میں شکیل، جاوید شیخ، آصف رضا میر،
راحت کاظمی، بہروز سبزواری، شہناز شیخ اور مرینہ خان اپنے عروج پر نظر آئے،
لیکن اسی دور کا سب سے اہم ڈرامہ ’’اندھیرا اُجالا‘‘ اپنی پہچان آپ رہا،
مختلف جرائم پیشہ کہانیوں پر مشتمل اس ڈرامے میں محمد قوی، جمیل فخری اور
عرفان کھوسٹ کی اداکاری ملک کی پولیس پر ایک سوالیہ نشان ثابت ہوئی۔ اس کے
ساتھ طویل دورانیہ کے ڈرامے دیکھنے کیلئے 9 بجے کے بعد ناظرین خصوصی اہتمام
کرتے کیونکہ اگلا دن چُھٹی کا ہوتا تھا۔پاکستان ٹیلی ویژن نے مزاحیہ ڈراموں
و پروگراموں کو جس شگفتہ مزاح کے ساتھ پیش کیا اُنہیں آج بھی ناظرین نہیں
بھول پائے۔ اُن میں سب سے پہلے کمال احمد رضوی کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’الف
نون‘‘ کا ذکر آتا ہے جس کے مرکزی کردار میں کمال احمد رضوی کے ساتھ اداکار
ننھا نظر آئے۔ 70ء کی دہائی میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد 80ء کی دہائی کے
آغاز میں یہ ڈرامہ دوسری دفعہ پھر نشر کیا گیا۔ سونا چاندی، آنگن ٹیڑھا،
خواجہ اینڈ سنز اور گیسٹ ہاؤس اہم نام ہیں۔ اِس دوران مصنف و شاعر اطہر
شاہ خان عرف ’’جیدی‘‘ نے مزاحیہ ڈراموں سے اپنی پہچان بنائی۔ ففٹی ففٹی
مزاحیہ خاکوں پر مبنی پروگرام 1979ء میں نشر کرنا شروع کیا گیا اور ایک مدت
تک وہ ناظرین کا پسندیدہ کامیڈی پروگرام کہلایا۔۔۔معزز قارئین!! وقت کے
گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری ٹیلیوژن انڈسٹری کے ساتھ ساتھ نجی چینل بھی آن
ایئر ہوئے سب سے پہلے محدود سطح پر سیٹلائٹ چینل این ٹی ایم /ایس ٹی این
چینل سن انس سو نوے میں لاؤنچ کیا گیاجو چند سال جاری رہنے کے بعد بند
ہوگیا لیکن باقائدہ طور پر سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے
الیکٹرونک میڈیا کو بام بخشا،پرویز مشرف پاکستانی وہ واحد سربراہ ہیں جنھوں
نے صحافت، ابلاغ اور میڈیا کو بھرپور آزادی بخشی اوربے شمار نجی سطح پر
ریڈیو، ٹی وی چینلز، اخبارات و دیگر الیکٹرونک جرائد کی فروغ کیلئے لائسنس
کے اجرا کا سلسلہ شروع کیا اسی بابت ایک ادارہ بھی بنایا گیا جس کی ذمہ
داری میں الیکٹرونک میڈیا کے تمام امور شامل تھے جسے پیمرا کہتے ہیں، پرویز
مشرف کے دور میں پیمرا سمیت دیگر ایسے ادارے رائج کیئے گئے جن سے نہ صرف
اداروں کی اصلاح کا عمل بہتر بنایا گیا بلکہ ان اداروں کے چیک اینڈ بیلنس
سے توازن کا ایک بہتر نظام رائج ہوگیا تھالیکن پرویز مشرف کے دور کے بعد
نام نہاد جمہوری لیڈران آصف علی زرداری اور نواز شریف نے پرویز مشرف کے
بنائے گئے نئے محکموں کی اساس و روح کو مارڈالا اور اپنے من پسند اداروں کے
سربراہ تعینات کرکے اپنے حق میں فیصلے کراتے رہے جس سے آج ملک جس تباہی و
بربادی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا ہے یہی دونوں لیڈران قصور وار
ہیں ،ان لیڈران کی عدم توجہ اور خود غرضی کی بنا پر پاکستانی میڈیا جس قدر
غیر اخلاقی اور غیر اسلامی راہ پر چل پڑا ہے اور بیرونی آقاؤں کو خوش
کرنے کیلئے جس طرح دین کو توڑ مروڑ کر پیش کررہا ہے یہ عمل نہ صرف میڈیا
انڈسٹریز کیلئے ناقابل قبول ہے بلکہ ریاست پاکستان کیلئے ایک کھلا چینل بھی
۔۔۔معزز قارئین !! ہم چینل کے ڈرامے ”پاکیزہ“ میں طلاق کے بعدبیٹی کا بہانہ
بنا کر طلاق کو چھپایا گیا اور سابق خاوند کے ساتھ رہائش رکھی جبکہ بیٹی
چھوٹی نہیں، شادی کے قابل عمر کی ہے۔اے پلس چینل کے ڈرامے ”خدا دیکھ رہا ہے“
میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہو جاتا ہے اور مولوی صاحب سے جعلی فتوی لے کر
بیوی کو زبردستی اپنے پاس روک کے رکھتا ہے جبکہ بیوی راضی نہیں ہوتی۔اے آر
وائی کے ڈرامے ”انابیہ“ میں شوہر طلاق کے بعد منکر ہو جاتا ہے جبکہ والدہ
اور بہن گواہ تھیں۔ بیوی والدین کے گھر آجاتی ہے۔ شوہر اسے دوبارہ لے جانا
چاہتا ہے۔ لڑکی خلع کا کیس دائر کر دیتی ہے اور فیصلہ ہونے کے باوجود صرف
اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطر اسی شخص کے پاس دوبارہ جانے تیار ہو جاتی ہے۔
ہم چینل کے ڈرامے ”ذرا یاد کر“ میں طلاق کے بعد حلالہ کے لیے لڑکی خود شوہر
تلاش کر رہی ہے تا کہ دوسری شادی کرکے اس سے طلاق لے کر پہلے والے شوہر سے
دوبارہ شادی کر سکے۔ جبکہ باقاعدہ پلاننگ کر کے حلالہ کرنا ناجائزہے۔
اسلامی حکم یہ ہے کہ اگر طلاق دے دی جائے تو لڑکی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔
اور اگر کسی وجہ سے وہ دوسری شادی ختم ہو جائے تو اگر وہ چاہے تو پہلے شوہر
سے نکاح کر سکتی ہے مگر پلان کر کے نہیں۔جیو چینل کے ڈرامے ”جورو کے غلام“
میں ایک بیٹے نے باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور پھر
ایک شخص کو رقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایا تا کہ دوسرے دن وہ طلاق دے
دے اور یہ خود اس سے نکاح کر سکے۔ہم چینل کے ڈرامے ”من مائل“ میں لڑکی طلاق
کے بعد اپنے والدین کے گھر جانے کے بجائے اپنے چچا کے گھر انکے بیٹے کے
ساتھ رہتی ہے جبکہ چچا اور چچی گھر پر نہیں ہیں۔ وہ بعد میں اطلاع سن کر
آتے ہیں۔ہم چینل کے ڈرامے ”تمھارے سوا“ میں میں لڑکے کے دوست کی بیوی کو
کینسر ہوتا ہے۔ اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں تو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے
دوست سے طلاق دلوا کر خود نکاح کر لیتا ہے اور آفس میں لون کے لیے اپلائی
کر دیتا ہے۔ اس دوران وہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے
رہتی ہے۔ اور اس کا پورا خیال رکھتی ہے۔سب جانتے ہیں کہ ٹی وی عوام الناس
کی رائے بنانے کا ایک موثر ہتھیار ہے اور پرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے
ڈرامے اور ٹاک شوز کو عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے خاص طور پر پاکستان
کی۵۰ فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں موجود ہے اور دیہات میں ٹی وی تفریح
کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں ایک پوری پلاننگ اور تھیم کے تحت
ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو توڑمڑور کر پیش کرنا، اس طرح کے سوالات
اٹھانا اور لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا مقصد عوام کو اسلام سے دور کرنا
اور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسہ کو متزلزل کرنا ہے۔کیا وزارت اطلاعات و
نشریات کا کوئی بورڈ ایسا نہیں جو فلم یا ڈرامے کو پکچرائز کرنے سے قبل چیک
کرے اور اس کی منظوری دے؟کیا حکومت نے ایسی کوئی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل
نہیں دی جو ان مالکان کو ایڈوائز دے؟حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شرعی احکامات
کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی؟ اس پر کوئی
رکاوٹ کیوں نہیں؟کیا کوئی مانیٹرنگ کمیٹی نہیں جو اسلام اور پاکستان کے
خلاف پیش کی جانے والی چیزوں کا نوٹس لے؟کیا ہمارے چینلز اور ان کے مالکان
اپنی آزاد پالیسی رکھتے ہیں کہ جو چاہے دکھا دیں۔ کوئی ان کو چیک کرنے
والا۔ روکنے والا نہیں ہے؟۔۔پاکستان کی حفاظت فرمائے، پاکستان زندہ باد،
پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔۔۔!! |