جب سے شعور کی دہلیز پے قدم رکھا ہے اُس وقت سے لے کر کئی
بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ نئی تہذیب میں پلی ہوئی نوجوان نسل کسی کام کی
نہیں۔ اِس نسل کو اپنی روایات کا پتہ ہے اور نہ اپنی اقدارکا۔ ہر کوئی بے
لگام گھوڑے کی طرح کسی نامعلوم سمت میں سرپٹ دوڑرہا ہے۔مغربی تہذیب کی چکا
چوند نے اِن کو اپنا شیدائی بنا رکھا ہے۔جس کی اندھی تقلید میں اِس نسل نے
کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے۔اِس نسل کے اکثر نوجوانوں نے اپنا حلیہ ،کپڑے
حتٰی کے خیا لات بھی مغربی بنا رکھے ہیں۔ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں جو کچھ
دیکھتے ہیں اُسی کو اپنایا جا رہا ہے۔اِن کی زندگی کا مقصد بغیر کسی محنت
کے کوئی اچھا مقا م حا صل یا نوکری کرکے زندگی سے بھرپور طریقے سے لطف
اندوز ہونا ہے اوربس۔مطلب کسی اچھے اور تعمیری مقصد کے لئے تگ ودو کرنااِس
نسل کی ترجیحات میں بالکل بھی شامل نہیں ہے۔ اِس نسل کا المیہ یہ ہے کہ
مادہ پرستی میں آرام وسکون کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اِس نسل میں بہت ہی کم
نوجوان ہونگے جو محنت کی عظمت پے یقین رکھتے ہوں،جو کہ خود ایک المیہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل جس طرح سے نئی تہذیب کے مغربی
اقدار کو اندھا دھند طریقے سے اپنا رہی ہے اُس کا سلسلہ کہاں پے جاکے رُکے
گااور اُ س کا انجام کیا ہوگا ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کبھی کسی نے اِس
بات پر غور کیا ہے کہ نوجوان نسل جس طرح مغربیّت کوگلے لگائے بیٹھی ہے اور
اُسی سمت میں جارہی ہے جس طرف مغربی تہذیب اِن کو لے جارہی ہے تو ایک وقت
آئے گا کہ یہ نسل یقیناًاپنی قومی شناخت کھودے گی اور جو قومیں اپنی شناخت
کھو دیتی ہے تو پھر اُن کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔بقولِ شاعرِ مشرق؛
اپنی مٹّی پے چلنے کا سلیقہ سیکھو سنگِ مرمر پے چلو گے تو پھسل جاؤ گے
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ
ہاشمی
ازل سے تہذیبوں نے ایک دوسرے کو کسی نہ کسی طریقے سے متاثر کرنے کی کوشش کی
ہے اور کئی اعلیٰ تہذیبوں نے اپنے سے کم تر تہذیبوں کو اِس طرح متاثر کیا
ہے کہ اُن کی بہت سی اقدار کو مکمل یا جزوی طور پر تبدیل کیاہے۔پرانے وقتوں
میں تہذیبوں کے ایک دوسرے پر اثرات علوم و فنون کے میدانوں میں بالادستی کی
وجہ سے یا کسی ایک تہذیب کا دوسری تہذیب کے لوگوں پر حکومت کی وجہ سے ہوتے
تھے،لیکن جدید زمانے میں بے پناہ مواصلاتی ترقی کی وجہ سے تہذیبوں کا ایک
دوسرے پر اثر انداز ہونے کاانداز بلکل تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔آج کے زمانے
میں کسی تہذیب کی ظاہری شان و شوکت، کشش ،رنگینی اورمادّی ترقی بھی دوسری
تہذیبوں پر اثر انداز ہونے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ جن تہذیبوں کا میل ملاپ
زیادہ ہے اُن کی تہذیبیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہو رہی ہیں۔اَرفع تہذیبیں
ادنیٰ تہذیبوں میں تبدیلی لارہی ہیں۔
مغربی تہذیب کی حشر سامانیوں سے بچنے کا ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ نئی
نسل کو اپنے اسلاف کے بلند کردار اور اُن کے عظیم کارناموں سے روشناس
کرواکر اپنی مشرقی اور اسلامی تہذیب کو ہی اصل ا ور اعلیٰ تہذیب کے طور پر
اُن کے دلوں میں احساس پیداکیا جاسکے۔یہ کام صرف والدین اور اساتذہ کرام ہی
بخوش اسلوبی سر انجام دے سکتے ہیں۔دوسرا یہ کام حکومت کی سربراہی میں ایک
قومی تحریک کے طورپروہ ادارے سر انجام دے سکتے ہیں جو ثقافت اور اقدار کے
امین کے طورپر کام کے لئے بنا ئے گئے ہیں۔
|