مشاعرہ تو ہمیشہ سے آزاد ہی ہوتا ہے،،،بس اس میں شامل اور
حاضرین جن
کا کام داد کے ڈونگے برسانا ہوتا ہے،،،وہ طرح طرح کے غلام ہوتے ہیں،،،
کوئی بیوی کا،،،کوئی سرکار کا،،،کوئی حالات کا غلام،،،
ہم انہی سوچوں میں گم تھے،،،کہ مرزا صاحب نے،،،زور کا ربڑ بینڈ مار کے ہمیں
متوجہ کیا،،،ہم چونک کر مرزا صاحب کی طرف متوجہ ہوئے،،،
جب تک وہ اپنی کئی سو سال پرانی اچکن کی جیب سے کاغذ کا رقعہ نکال چکے
تھے،،،
ذرا دبی ہوئی آواز میں بولے،،،ہماری جرات اظہار کا عنوان ہے ،،،‘‘بیوی‘‘،،،
تو بھائیو! اس وعدے کے ساتھ کہ یہاں کی بات یہاں ہی دفن ہو جائے گی،،،
عرض کیا ہے،،،جان لیجئے جان ہتھیلی پر رکھ کے عرض کررہے ہیں،،،
ہمتِ آدم تو دیکھیے گھر لاتا ہے شیر دیکھیے
ڈھار پر اس کی مرتا ہے روز دیکھیے
مرزا نے حاضرین کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا،،،کچھ لوگوں نے رحم کھا
کر اک ڈیڑھ واہ مرزا کی نظر کردی،،،
مرزا مطمئن ہو کر بولے،،،ذرا سادگی ملاحظہ ہو،،،
جانے کیوں بیوی پرائی ہی آنکھ کو بھاتی ہے
بچے جانے کیوں اپنے اپنے سے اچھے اچھے سے لگتے ہیں
بیوی کی ہر تان ہے دیپک سنا کرتے تھے
اب تو کان ہی بہرے سے لگتے ہیں
گھر آکے جو سکون ملتا ہے
یہ کسی دشمن کی سزا ہے
ساس جانے کیا پڑھاتی ہے اسے
سالے جانے کیا کہتے ہیں
ہم بس سہمے سے ہوئےجاتے ہیں
آٹا تو ایک سا ہی کھاتے ہیں
ہم تیلہ وہ پہلوان ہوئے جاتے ہیں
گر ہم ذرا بیمار پڑ جاتے ہیں
وہ آسمان سر پر اٹھاتے ہیں
ہم سے کرکے بیاہ انکی قسمت پھوٹ گئی ہے
رو رو کے سب کو سناتے ہیں
ہے کیا ہماری زیست کیا ہے آبرو
سب کو جوتے پر رکھ کر ہمیں لگاتی ہیں
پک جائے روٹی اکثر اسی گرم توےپر ہمیں بٹھاتی ہیں
دیکھیے کیا ہے ظلم کیا ہے ستم
ہم خاک نشین پھر بھی مسزکے مسٹر کہلواتے ہیں
آہ مرزا ! لٹ گئے تم جتنے بھی ہوں غم
ڈر کے بیوی سے بس مسکرائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔(جاری )
|