پاکستانی سیاست دانوں کی انوکھی منطق

امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کی تو امارات اسلامی یعنی افغان طالبان نے برس ہا برس تک امریکہ کو افغان جنگ پر الجھائے رکھا،پینٹاگان کے مطابق اب بھی صورتحال یہ ہے افغان طالبان افغانستان کے تقریباً 40حصہ پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں۔ اس سب کے باوجود امریکہ ایک طرف تو ان پر آتش آہن کی بارش برساتا رہا جبکہ دوسری طرف قطر میں طالبان کی طرف سے اپنا دفتر کھول کر مذاکرات کی میز سجانے کے مواقع فراہم بھی کرتا رہا ہے۔طالبان کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ان پر سلامتی کونسل کی پابندیاں اٹھانے تک کے پیکجز دیے جاتے رہے۔ افغانستان کے مشہور عسکری رہنما اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کی افغانستان میں واپسی اور جنگ کی مخالفت اور جنگجوؤں سے ہتھیار ڈال کر امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی استدعا کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔گلبدین حکمت یار کے استقبال کے لیے کابل کے صدارتی محل میں ریڈ کارپٹ بچھاکر کسی عالمی رہنما کی طرح کا پروٹوکول دیا گیا، افغانستان کے صدر اشرف غنی،چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ اور سابق صدر حامد کرزئی بذات خود حکمت یار اور ان کے ساتھیوں کے لیے موجود تھے۔وہی شخص جو کل تک امریکہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نظروں میں ایک بڑا دہشت گرد تھا وہ آج امن کا سفیر کہلایا۔اسی طرح بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کہ بھارتی گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی وجہ سے امریکہ میں ان کے داخلے پر پابندی تھی اور امریکی ان کو ایک بہت بڑا دہشت گرد تصور کرتے تھے مگر وہی نریندر مودی جب بھارت میں وزارت عظمیٰ کی سیٹ پر متمکن ہوا تو امریکی اپنے مفادات کی خاطراستقبال یار کی طرح اپنے دیدہ و دل واہ کیے بیٹھے تھے۔اسی طرح ایک عرصے تک پوری دنیا کو یہ باور کروایا جاتا رہا کہ امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے بہت بڑے دشمن ہیں، ایران کے صدر احمدی نژاد کو امریکن میڈیا دہشت گرد اور امریکن معاشرے کے لیے ایک بہت بڑے خطرے کی صورت میں دکھایا کرتا تھا۔ دوسری طرف ایران میں بھی مرگ بہ امریکہ کے نعرے کی گونج تھی مگر جیسے ہی دونوں ممالک کے مفادات ہم آہنگ ہوئے تو مرگ بہ امریکہ کا نعرہ بھی کہیں بہت پیچھے رہ گیا۔ اقوام عالم میں یہ اصول رائج ہے کہ دنیا کے غیرت مند ممالک دوسروں کی پسند و ناپسند کے مطابق اپنے ملک کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ سرفہرست ملکی سلامتی اور ملکی مفادات کو رکھا جاتا ہے۔مگرہم پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ناخدا قومی وقار کے تحفظ، ملکی سلامتی اور ملکی مفادات کی بجائے سام راج اور رام راج کی پسند و ناپسند اور اغیار کی مرضی و منشاء کے مطابق اپنے ملک کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہوتے ہیں۔ہم اپنے ہی معزز اور محب وطن شہریوں کو اغیار کی شہ پر دہشت گرد کہہ کر معاشرے کے لیے خطرہ قرار دے کر ان کو پس دیوار زنداں دھکیل کر ان پر سبھی دروازے بند کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔اسی سلسلے میں پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا نیو یارک میں کیا جانے والا خطاب محب وطن پاکستانیوں کے دل دکھا گیا اور اسے بھی بڑھتے ہوئے ہماری دہشت گردی کے خلاف حاصل کی جانے والی کامیابیوں کو گہنا گیا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ دنیا کا پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ جائز ہے۔ پاکستان میں موجود حقانی گروپ اور حافظ سعید پاکستان کے لیے بوجھ ہیں اور پاکستان کو اس طرح کے بوجھ سے جان چھڑانے کے لیے وقت درکار ہے۔امریکن سرزمین پر کھڑے ہوکر اس طرح کے جملے ایک سینئیر ترین ذمہ دار کے منہ سے ادا ہونا پاکستان کی قومی سلامتی پر ایک خودکش حملہ ہے۔ ایک طرف تو ہماری افواج کے سپہ سالار پوری دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا سفایا کیا ہے۔ اب ہم دنیا سے ڈومور کہیں گے۔ دوسری طرف ہمارے ہی وفاقی وزیر خارجہ اس کے بالکل برعکس بیان دے رہے ہیں کہ دنیا کا ڈو مور کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔رہی بات حقانی گروپ کی تو پاکستان اعلیٰ اعلان یہ کہہ چکا ہے کہ ہماری سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور نہ ہی حقانی گروپ پاکستان میں موجود ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ خواجہ آصف امریکنز سے مطالبہ کرتے کہ سولہ سال گزرنے کے باوجود بھی اگر افغانستان کے چالیس فیصد حصہ پر طالبان کا کنٹرول ہے تو تم لوگ وہاں جھک مارہے ہو تمہارا کردار کیا ہے۔بجائے اس کے حکمران طبقے نے امریکی اور بھارتی خوشنودی کی خاطر محب وطن پاکستانی حافظ سعید کو ایک چارہ سمجھ لیا ہے۔جس کو سستی شہرت اور ہمدردی کی ضرورت اور پاکستانی اداروں کو لتاڑنا مقصود ہو وہ حافظ سعید پر بولنا شروع ہوجاتا ہے۔ حالانکہ حافظ سعید کی پاکستان میں پوزیشن یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو کسی بھی پاکستانی سے زیادہ محب وطن پاکستانی ثابت کیا ہے۔ پاکستان بھر میں کہیں بھی ان کے خلاف کوئی مقدمہ یا کوئی ایف آئی آر تک موجود نہیں ہے۔افگانستان میں ان کا بالکل کوئی کردار نہیں ہے۔ ہان وہ کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی کھلم کھلا بات کرتے ہیں اور اس کے لیے تحریک چلاتے ہیں یہ تو ہر پاکستانی کا ہی مسئلہ ہے کہ وہ کشمیر کو بھارتی چنگل سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ بھارت ان پر ایک لمبے عرصے سیامختلف الزامات لگاتا آیا ہے اور ہم نے انہی الزامات کی روشنی میں کبھی ان کو جیلوں میں بند کیا اور کبھی ان پر پابندیوں کے فیصلے سنائے لیکن بھارت آج تک اپنے کسی بھی الزام کو سچ ثابت کرنے سے متعلق ایک ثبوت بھی حافظ سعید یا ان کی جماعت کے خلاف پیش نہیں کر سکا یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے ان کو ہر طرح کے الزامات اور مقدمات سے بری کیا ہوا ہے۔ اب وہی حافظ سعید اگر قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے ایک سیاسی جماعت تشکیل دیتے ہیں اور اپنے پہلے ہی امتحان میں چوتھی بڑی جماعت بن کر ابھرتے ہیں تو ہر طرف یہ دہائی شروع ہوجاتی ہے کہ یہ سیاست میں کیوں آگئے، ان کو نہیں آنا چاہیے۔ حالانکہ حافظ سعید کے سیاسی ونگ ملی مسلم لیگ کی تشکیل پر جو لوگ سب سے زیادہ شور مچا رہے ہیں وہ لوگ ضرب عضب ٓپریشن سے قبل یہ مطالبہ لے کر کھڑے تھے کہ پاکستانی بچوں کو قتل کرنے والوں سے مذکرات کرکے ان کو قومی دھارے میں شامل کرنا چاہیے۔ اسی طرح یہی لوگ ہمیشہ سے بلوچستان میں افواج پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے فراری قبائل کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے پرجوش حامی رہے ہیں مگر ایک ایسی جماعت جو پاکستان میں ریلیف اور ریسکیو کے حوالے سے مشہور ہو ،جو محب وطن پاکستانی ہوں اور پاکستان میں احیائے نظریہ پاکستان کی بات کرتے ہوں تو ان کی سیاست میں آمدپر پاکستان کے سیاستدانوں کے یہ واویلے چہ معنی دارد؟

Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Read More Articles by Muhammad Abdullah: 39 Articles with 34066 views Muslim, Pakistani, Student of International Relations, Speaker, Social Worker, First Aid Trainer, Ideological Soldier of Pakistan.. View More