نگاہ عشق کا قیدی ۔

عشق کے سمندر میں ڈوبے اس شخص کو چاندنی نے اپنے انچل میں چھپا رکھا تھا۔۔۔سرد رات میں ایک ہاتھ میں چائے اور دوسرے میں جلتا ہوا سیگرٹ اور اس کا پھیلا دھواں ایک ماضی کی تصویر عیاں کر رہا تھا ۔ جب کالج کے در و دیوار اس سے محبت کا راگ الاپتے تھے اور وہ لائبریری میں بیٹھا خاموشی سے کتاب کے عشق میں مبتلا تھا ۔۔۔اس بات سے بے خبر کےنو رس کلی جواس کے پاس بیٹھی اپنے دل کے محل کے دروازے پر اس کا نام لکھ چکی ہے۔ اور اس کو اپنا سمجھ چکی ہے ۔ وہ کاغذپہ نوٹس بنا رہا اور دوسری جانب اسی نورس کلی کے ہاتھ میں کاغذ میں ایک خوبصورت پھول لیے کھلی خیالوں کے محلات کی شہزادی بنی ہوئی تھی ۔ اس بات سے بے خبر کہ اس کے ساتھ بیٹھی نازک پھول کی کلیاں مسکرا اٹھی ہیں اور اسے ماضی سے اس دنیا میں لے آئی جہاں صرف کتابیں ہی کتابیں تھیں یہ وہی لائیبریری تھی جہاں بیٹھے بیٹھے وہ نا جانے کتنے میلوں کا سفر کرآئی تھی ۔۔۔ یہ محبت کا دریا بھی ان دو کناروں کی طرح تھا جو دور بھی ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ بھی رہتے ہیں ۔۔ خاموشی بھی ان کا حصہ ہوتی ہے اور اسی طرح لائبریری میں خاموشی کی دھند چھائی ہوئی تھی ۔۔اور نظروں کی طاقت اس لڑکے کے دل میں تیر کی طرح اتر رہی تھیں ۔۔ وہ اتنا جان گیا کہ یہ لڑکی اس کی اپنی آنکھوں سے اپنے دل میں تصویر محفوظ کر رہی ہے ۔ مگر کیوں یہی سوال اس کو پریشان کر رہا تھا۔۔ بہت سے سوالات اس کے ذہن میں سر اٹھا رہے تھے مگر فطری ججھک اس کو باندھ کے رکھ رہی تھی ۔ دوسری طرف وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ہوسکتا ہے یہ وہم ہو جو اس کے دل کی کھڑکی کھولے یہ سب سوچ رہا ہے ۔ اپنے دل کی کھڑکی کو دماغ کی تیز آندھی سے بند کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر آندھیاں کبھی دروازے بند کرنے کی بجائے شور کرتی ہوئی اندر آجاتی ہیں اور دروازوں کو توڑ کر بھی اپنی جگہ بنا لیتی ہیں مگرکھلی کھڑکیاں بند نہیں کیا کرتی ۔ شاید یہی وجہ تھی پرسکون ہونے کے لیے دل کی کھڑکی کو بند اسے خود کرنا تھا۔ کتاب کے اوراق میں خود کو چھپانا تھا ۔ اپنے خیالات کو صحفہ قرطاس پر اتارنا تھا مگر یہ خیالات اسے ان کتب سے اخذ کرنے تھے جنہیں وہ پڑھ رہا تھا ۔ ذہن میں بھونچال مچانے والے خیالات کو دماغ میں ہی دفن کرنا تھا ۔ مگر شاید اس کی نظروں کا طواف اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ وہ ان نظروں کے حصار میں بند سا گیا تھا ۔ یہ سلسلہ ایک دن کا نہیں تھا۔ روز اول سے یہی معمول تھا ۔ اب اس حصار کی اس کو عادت سی ہو چلی تھی مگر یہ امید نہیں تھی کہ کبھی ایسا حصار اس کو محبت ، عشق یا کوئی ایسے جذبے میں دھکیل دے گا جس کو وہ عموما اندھا کنواں کہا کرتا تھا ۔ اور یہ بھی کہا کرتا تھا کہ عشق کرنے والے جان بوجھ کر عقل کے اندھے بن جاتے ہیں سب جانتے بوجھتے اس کنویں کی تہہ میں پہنچ جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔ یہ بھی اس کنویں سے دور بھاگتا تھا اور اس عشق کے کنویں میں ڈوب جانے کا تصور ہی اس کےدل میں جذبات کے سمندر میں طوفان برپا کر دیتے تھے اس لیے یہ ابھی تک اس لڑکی کی طرف توجہ نہیں کرتا تھا نا ہی کوئی سوال کرتا تھا ۔

مگر زندگی کے فیصلے دل میں جذبات کے سمندر نہیں کیا کرتے عشق کی لہروں کو دماغ میں چلنے والی تیز آندھیاں پرسکون نہیں کیا کرتیں ۔۔ یہی سب اس کے ساتھ بھی ہوا یہ تو باغ اور لائبریری میں کتاب لیے پڑھنے بیٹھاکرتا تھا ۔ اس کو کیا معلوم تھا کہ اس کو دیکھنے والی لڑکی اپنی نگاہ عشق سے اس کو دل کے حصار میں باندھ چکی ہے اور نا صرف باندھ چکی ہے بلکہ اسی رسی سے اس کو دلدل میں بھی کھینچ چکی ہے ۔ اب یہ خود بھی اس حصارکا قیدی ہو چکا ہے اب گلاب کی خوشبو اس کے دل میں اتر چکی ہے ۔ یہ اب نازک پھول کے لمس کے لیے بے قرار ہو چکا ہے ۔ عشق کا یہ قیدی اب ان باتوں کو سننا چاہتا ہے جو وہ لڑکی اس کو کہنا چاہتی ہے ۔۔ وقت کا پہیہ بھی تیزی سے چل رہا تھا یونیورسٹی کے چار سال ختم ہونے والے ہو گئے تھے ۔۔ یونیورسٹی میں آخری سال تھا بلکہ آخری مہینہ تھا پھر ان کے امتحان تھے اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو جانا تھا ۔ ایک طرف امتحان کی فکر تھی دوسری طرف زندگی کا بڑا امتحان بھی سامنے تھا ۔ مگر پہل کون کرے دونوں کے دلوں میں طوفان تھا ۔محبت کا طوفان۔ یونیورسٹی میں سب یہ جانتے تھے کہ لڑکی کے دماغ پر یہ لڑکا سوار ہے مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ محبت کا دریا دونوں کے دلوں میں بہہ کر دلوں کو عشق کی لہروں سے ملا چکا ہے ۔۔۔ اسی بے خبری کی وجہ سے اظہار میں پہل پر لڑکی کو ہی اس کی سہیلیوں نے مجبور کرنا شروع کر دیا ۔سو دل پر پتھر رکھ کر اپنی انا کی قربانی دے کر لڑکی نے اظہار محبت کر ہی دیا ۔۔ وہ بھی آخری دن۔۔۔۔ یہ محبت کے دریا کا اظہار لڑکے کی آنکھوں سے بھی چھلک کر باہر آگیا ۔۔ یہی اظہار محبت کا اقرار تھا ۔۔ یہی محبت آج بھی تھی ۔۔۔ بس آج وہ اس سے دور بہت دور جا چکی تھی اس کی زندگی سے بہت دور ۔۔ اس جگہ جہاں سے واپسی ممکن نہیں مگر جاتے ہوئے اسے اپنی شبیہ دے گئ تھی ۔۔ وہ شبیہ جو اس کی بیٹی تھی اور آج یہ اسی بیٹی کو بیاہ کر کے رخصت کر کے خالی گھر میں اکیلا بیٹھا یادوں سے لڑرہا تھا ۔۔۔
 
اسعد نقوی
About the Author: اسعد نقوی Read More Articles by اسعد نقوی: 4 Articles with 4528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.