جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کی عمر سے بھی زیادہ
پرانا سویا ساس پیش کیا گیا تو یہ خیال ذہن میں ابھرا کہ ایشیائی لیڈران
امریکی صدر کو دعوت طعام پر کیسا سفارتی پیغام دینا چاہ رہے تھے۔
|
|
ابتدائیہ:
جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے اس بات کو کسی سے نہیں چھپایا ہے کہ وہ صدر
ٹرمپ کے قریبی ترین دوست بننا چاہتے ہیں اور اب جب امریکی صدر کو انھوں نے
جاپان کے دورے میں امریکہ سے در آمد کیے ہوئے گوشت سے بنا ہیم برگر کھلایا
تو اس سے پیغام صاف ظاہر تھا۔
خبروں کے مطابق امریکی صدر کو ویل ڈن سٹیکس بہت پسند ہیں اور کچی مچھلیاں
سخت ناپسند ہیں۔ تو اسی مناسبت سے جاپان پہنچنے کے بعد ان کو سب سے پہلے
پیش کیے جانے والے کھانوں میں سٹیکس اور چاکلیٹ آئس کریم شامل تھے۔
|
|
مین کورس:
جنوبی کوریا کے دورے میں جب امریکی صدر سیول پہنچے تو کھانے کی میز پر
انھیں سیاست بھی یاد کرائی گئی۔ وہاں ان کو ڈوکڈو اور ٹاکےشایما جزائر کے
قریب سے پکڑے گئے جھینگے پیش کیے گئے تھے۔ یہ وہی جزائر ہیں جن پر دونوں
جاپان اور جنوبی کوریا اپنی ملکیت کا دعوی کرتے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے وہ جھینگے کھائے یا نہیں لیکن یہ ضرور
معلوم ہے کہ جاپانی اس کھانے سے خوش نہیں تھے۔
ان کھانوں کے علاوہ صدر ٹرمپ نے اپنی پسندیدہ چیزوں کی مدد سے بھی سیاست کی
جب انھوں نے امریکی اور جنوبی کوریائی فوجیوں کے ساتھ امریکی فوج کے اڈے
کیمپ ہیمفریز پر ٹاکو، بریٹیو اور فرنچ فرائز کھائے اور کہا کہ یہ 'اچھا
کھانا' ہے۔
|